قرآن کریم نے تقدیر میں لکھے معاملے کو عجیب بلیغ انداز میں مختلف جگہ طرح طرح بیان کیا ہے۔ انہی میں آیت کا یہ ٹکڑا بھی ہے: وکان امرا مقضیا یعنی یہ ہونا تو طے ہوگیا تھا (مریم19)۔ افغانستان میں یہی کچھ ہونا طے ہوچکا تھا۔ اگست کے مہینے میں اگر افغانستان کوایک لفظ سے تعبیر کیا جائے تو وہ ہے فرار۔ افغان فوجیوں کا سرحد پار فرار۔ نیٹو فوجوں کا فرار۔ اشرف غنی اور حمداللہ محب کا چوروں کی طرح فرار۔ فرار‘ فرار‘ فرار۔ جیسے کسی جاسوسی فلم کا نام۔
کچھ سمجھ میں آیا کہ چند دنوں میں یہ سب کیا ہوا؟ امریکیوں اور نیٹو کا فرار ہونا۔ افغان فوج اور جنگجو کمانڈروں کا یکے بعد دیگرے بغیر لڑے ہتھیار ڈالتے جانا۔ طالبان کا چند دنوں میں کابل کے دروازوں پر آپہنچنا۔ اشرف غنی کی کرسی پر باریش‘ کندھے پر رومال، سر پر پگڑی والے کا آبیٹھنا۔ طالبان کا مکمل کنٹرول حاصل کرلینا۔ بالکل غیر یقینی لیکن یقین کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ آئیے اس چوکور کے چار کونوں میں ہر ایک کے معاملات باری باری غور کرتے ہیں۔ چوکور یعنی اتحادی افواج اور امریکہ، اشرف غنی حکومت، طالبان، پاکستان۔
پہلے اتحادیوں کی بات کرتے ہیں۔ یہ بات تو طے تھی کہ اتحادی افواج کے بعد اشرف غنی حکومت کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی۔ حامد کرزئی، اشرف غنی اپنے اپنے ادوار میں اتحادیوں کو زیادہ سے زیادہ باندھنے کی کوششیں کرتے رہے لیکن بیس سال کے بعد اب اتحادیوں کا حال خراب ہوچکا تھا۔ وہ کس توقع پر مزید ٹھہرتے کہ وہ دیکھ چکے تھے کہ اگلے بیس سال بھی یہی کچھ رہے گا۔ منت سماجت کرکے، پاکستان کو بیچ میں ڈال کر انہوں نے دوحہ معاہدہ کیا تاکہ فرار کا ایک باعزت راستہ مل سکے۔ کیا فروری 2020میں یہ معاہدہ کرتے وقت اور اس کے بعد اگست 2021تک ڈیڑھ سال میں اتحادیوں نے بتدریج واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں سوچا ہوگا؟ یہ بعید ہے کہ کوئی منصوبہ نہ سوچا گیا ہو‘ خواہ اس کے خدوخال کچھ بھی ہوں۔ اس وقت امریکی صدر جو بائیڈن پر پوری دنیا اور خود اس کے حامی لعن طعن کر رہے ہیں کہ ایسی ہڑبونگ اور ایسی افراتفری کو کسی منظم پلان کا نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ کیسا پلان ہے جس میں امریکہ کا چہرہ ہر روز مزید داغدار ہوتا جارہا ہے۔ اعتراض کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ اتحادی افواج کو ایسا منصوبہ بنانا چاہیے تھاکہ افغان حکومت کی پشت پر کچھ نہ کچھ مدد رہتی تاکہ وہ یک لخت زمیں بوس نہ ہو جاتی۔
لیکن آپ اس امکان پر ضرور سوچیے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہی ہوا ہو۔ وہ منصوبہ بندی جس میں جانی نقصان سراسر دونوں طرف کے افغانوں کا ہوتا رہے اور اتحادیوں کا جانی نقصان ایک فیصد بھی نہ رہے۔ دیکھیے میں بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر ٹھیک منصوبہ بندی کوئی بھی ذی عقل کرتا تو وہ یہ ہوتی کہ پہلے سول شہریوں، اتحادیوں کے سہولت کاروں، ان کے گھرانوں کو نکالا جائے۔ اسلحے کے ڈھیر تلف کیے جائیں۔ وہ گاڑیاں اور ہتھیار محفوظ چھاؤنیوں میں منتقل کیے جائیں جو دشمن کے ہاتھ لگنے پر نقصان ہو سکتا ہے۔ جب تمام نکلنے والے نکل جائیں تو آخر میں فوجیوں کا انخلا ہو۔ کیا یہ غلط منصوبہ بندی ہوتی؟ ملک میں اسلحے کے ڈھیر چھوڑ جانا، سب سے پہلے فوجیوں کو نکال لینا اور سہولت کاروں کو ایک جنگ زدہ ملک میں بے یارومددگار چھوڑ دینا‘ کیا یہ کسی اچھی منصوبہ بندی کا حصہ ہوسکتا ہے؟ کوئی بھی شخص، جو انسانی جانوں کا ضیاع نہ چاہتا ہو، یہ منصوبہ بندی کر ہی نہیں سکتا۔
میں نے پچھلے کالم میں وہ اعدادوشمار پیش کیے تھے، جو بی بی سی کے شائع کردہ ہیں اور اگر درست ہیں تو 20 سالہ جنگ یعنی 237 ماہ میں 171,000 افغان دونوں طرف جاں بحق ہوئے یعنی اوسطا فی سال 8659 افغان اپنی جانوں سے جاتے رہے۔ اس کے مقابلے میں 7348 اتحادی ہلاک ہوئے‘ یعنی 373 فی سال۔ اوسط بنائی جائے تو شاید یہ بنے کہ ایک اتحادی کے مقابلے میں 23 افغان جان سے گئے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مال ایک طرف رکھیں، جان دینے سے جتنا گوری قومیں گھبراتی ہیں، دنیا میں اور کوئی نہیں۔ ان کے لیے یہ تناسب بھی ناقابل برداشت ہوگیا تھا۔ تو اگر انہیں نکلنا ہی تھا تو مزید ایک جان بھی کیوں دی جائے۔ سب چھوڑ چھاڑ کر یکلخت نکل جائیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ لوگ کچھ برا بھلا کہیں گے پھر ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جائیں گے۔ جانیں تو نہیں جائیں گی۔ جتنی مدت بھی افغانستان میں خانہ جنگی چلتی رہے گی دونوں طرف صرف افغان مرتے رہیں گے‘ اور یہ خانہ جنگی لمبی ہوگی۔ جتنا اسلحہ اب اتحادی افغانستان میں چھوڑ کر جائیں گے۔ وہ سالوں کے کشت و خون کے لیے کافی ہے۔ سو ہوتا رہے کشت و خون۔ گورے دور بیٹھ کر تماشا دیکھیں گے اور بیانات داغا کریں گے۔
اندازے کی غلطی اتحادیوں سے یہاں ہوئی کہ خانہ جنگی سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ وہ جو ایک سال اور چھ ماہ کی لڑائیوں کے اندازے لگائے جارہے تھے‘ وہ چند دنوں میں گولی چلائے بغیر نمٹ گئے۔ افغان باہمی لڑائیوں سے بچ گئے۔ مزید خون سے میدان سرخ نہیں ہوئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا افغانوں نے دونوں طرف اس بدنیتی کو بھانپ لیا تھا؟ یا کچھ اور وجوہات تھیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس پر تفصیلی بات کسی اور وقت سہی۔
چوکور کا دوسرا زاویہ اشرف غنی حکومت اور فوج ہے۔ ریت کا قلعہ بھی کچھ وقت لیتا ہے منہدم ہونے میں۔ اس نے اتنا وقت بھی نہیں لیا۔ تمام تر فوج، تربیت اور اسلحے کے باوجود۔ آخر کیوں؟ کیا وہ بھی اس بدنیتی کو بھانپ گئے تھے کہ اب دونوں طرف صرف افغان خون بہے گا۔ آخر ڈھیر ہونا، فرار ہونا ہے تو پھر ابھی کیوں نہ ہوا جائے۔ اشرف غنی بنیادی طور پر ایک مغلوب الغضب شخص ہے جو غصہ قابو کرنے (Anger management) کی کلاسز لیتا رہا ہے۔ وہ نہ فوجی معاملات کا ماہر ہے اور نہ افغانستان سے عوامی سطح پر اس کا کوئی رابطہ ہے؛ چنانچہ یہ اس کے بس کا کام ہی نہیں تھا۔ افغان فوج ہمت، جذبے اور بڑے نظریے سے عاری تھی۔ سپاہی کو اپنے افسران میں کرپشن نظر آتی تھی اور وہ ان کے لیے جان دینے کو تیار نہیں تھے۔ کاغذوں میں جو فوج ساڑھے تین لاکھ نظر آتی تھی، وہ عملاً بہت کم تھی۔ حقائق سامنے آئیں گے تو ممکن ہے پتہ چلے کہ یہ ایک لاکھ سے بھی کم تھی۔ ہر کچھ عرصے بعد سپاہیوں کے چھوڑ جانے، مر جانے یا زخمی ہو جانے کے بعد موجود سپاہ میں 25 فیصد کمی ہوجاتی تھی‘ جسے پورا نہیں کیا جاتا تھا۔ تنخواہیں بروقت نہیں ملتی تھیں اور مورال تو گویا تھا ہی نہیں۔ جرنیل اصل حقیقت اور فوج کی حالت جانتے تھے، خود عدم تحفظ کا شکار اور بددل تھے۔ سو وہ جنگ سے عملاً لاتعلق رہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان میں بہت سے افسروں کو توڑ لیا گیا تھا۔ عام افغان آبادی افغان فوج کی چیرہ دستیوں سے بھی تنگ تھی اور ان کے غیرملکی آقاؤں سے بھی جو انہیں کھلی چھٹی دیتے تھے؛ چنانچہ افغان سپاہی عام لوگوں میں بھی دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور طالبان میں بھی۔ ایسے میں طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا تو یہ بے سبب مر جانے سے ہزار گنا بہتر راستہ تھا۔ وہ وار لارڈز اور نجی ملیشیاز جن پر افغان حکومت کا تکیہ تھا کہ وہ عام پبلک کو طالبان کے خلاف کھڑا کردیں گے، وہی تھے جنہیں طالبان نے پچھلے دور حکومت میں نکیل ڈال دی تھی‘ ان سے یہ توقع بیکار تھی۔ عام لوگ طالبان کے خلاف کیوں نہیں اٹھ کھڑے ہوئے اس کا ایک بڑا سبب طالبان کے پچھلے رویّوں میں تبدیلی بھی تھی اور لوگوں کی امن کی شدید خواہش بھی۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اگر لوگ اٹھے تو یہ امن بس ایک خواب ہوکر رہ جائے گا۔ طالبان کے پچھلے دور میں ان کی بعض بیجا اور ناروا سختیوں کے باوجود لوگوں کو امن ملا تھا‘ اور ان کے انصاف کے اچھے واقعات بھی زبان زد عام تھے۔ (جاری)