"SUC" (space) message & send to 7575

پہلی محبت

پہلی محبت بھلا کبھی کوئی بھول سکتا ہے؟ ہاں اور پہلی برف باری بھی۔ پہلی محبت، اگر ہو، تو عام طور پرکم عمری کی دین ہوتی ہے اور کم عمری کی محبت اور کم عمری کے سفر کون فراموش کرسکتا ہے۔ یہ تو قدرت نے بنائے ہی اس لیے ہیں کہ انسان کے دل کو ایک میٹھی آنچ پر رکھیں تاکہ وہ تمام عمر لو دیتا رہے، روشنی بکھیرتا رہے۔ محبت تو وہ ناقابل بیان کیفیت ہے جسے بیان کرتے رہو لیکن یہ جھیل پھر بھی اس پیالے میں سماتی ہی نہیں۔ اور محبت بھی اگر پہلی محبت ہو تو ایک ایسا نشہ ہے جیسے باہر کے کسی وسیلے کی ضرورت نہیں۔ دل کی دیگچی ہی میں وہ مشروب ابلتا اور چھلکتا رہتا ہے جو کناروں سے باہر گرتا رہتا اور خون میں شامل ہوتا رہتا ہے۔
خون کا دباؤ ماپنے کے پیمانے بنا لیے گئے۔ لہو میں گلوکوز کی مقدار فوراً پکڑ لی جاتی ہے۔ خون کے ایک ایک قطرے کی تہہ میں پہنچ کر اس کے اجزا الگ الگ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگتی‘ لیکن کیا کبھی خون میں محبت کا لیول چیک کرنے کا کوئی آلہ ایجاد ہوا ہے؟ کوئی مقیاس محبت؟ کوئی عشق پیما بنایا جاسکتا ہے کبھی؟ جیسے سیلاب میں پانی کی سطح ناپنے کیلئے نشان لگائے گئے ہوتے ہیں‘ خون میں محبت کی تمازت معلوم کی جاسکی ہے کبھی؟ یہ دریافت ہوسکا کہ بغیر بلڈ پریشر، بغیر شوگر کے دل کی دھڑکن کسی کے نام پر تیز کیوں ہوجاتی ہے؟ عالم، جاہل، ہر کسی کے تجربے میں، مشاہدے میں آنے والی باتیں سائنس کے تجربے اور مشاہدے میں کیوں نہیں آتیں؟ ہنستے ہنستے ایک دم کسی نام پر آنسو کیوں نکل آتے ہیں؟ کوسی کوسی سانسیں کیوں ٹکور کرنے لگتی ہیں؟ بیٹھے بٹھائے انسان بے چین کیوں ہوجاتا ہے، اٹھ کر بے سبب، بے سمت چلنے کیوں لگتا ہے؟ ہوکیا جاتا ہے اسے؟
یہ آج مجھے پہلی محبت کیوں یاد آنے لگی بیٹھے بٹھائے؟ پتہ نہیں کیوں۔ واقعی مجھے نہیں پتہ۔ اور یہ پتہ نہیں کیوں والے تین لفظ تو محبت کی بنیاد سے لے کر عمر کے آخر تک ساتھ چلتے ہیں۔ میں اتنا بڑا دانشور نہیں ہوں کہ محبت کی ایک ایسی جامع تعریف کردوں کہ وہ ہر ایک کے مشاہدے اور تجربے پر پوری اترتی ہو۔ ازل سے لوگ کرتے چلے آئے ہیں۔ نثر میں بھی، گفتگو میں بھی، شاعری میں بھی۔ ہر ایک ٹھیک لگتی ہے، لیکن محبت کی جھیل پیالے میں کبھی سما سکی ہے؟ محبت کی تعریف یہی ہے کہ محبت کی کوئی ایک تعریف نہیں۔ بھلا کیا تعریف ہو محبت کی۔
منیر نیازی کیفیت کے شاعر تھے۔ ان کی محبت کا درد بھی عجیب اور منفرد تھا۔ ایک نظم میں انہوں نے کہا
محبت اب نہیں ہوگی/ یہ کچھ دن بعد میں ہوگی/ گزر جائیں گے جب یہ دن، یہ ان کی یاد میں ہوگی
کیسا باریک اور لطیف تجربہ گرفت کیا خان صاحب نے۔ سب کے ساتھ نہیں ہوتا ہوگا، لیکن بہت بار یہی ہوتا ہے۔ آپ محبت کی اس محرابی راہداری سے گزر رہے ہوتے ہیں جو دونوں طرف سبز، گلابی اور سرخ بیلوں نے مل کر بنائی ہوتی ہے۔ آپ اس ٹھنڈک ڈال دینے والے سائے میں چلتے چلے جاتے ہیں‘ اور ایک ہمراہی آپ کے ساتھ ہوتا یا ہوتی ہے جس کے وجود میں میں آپ پھولوں اور پتوں کی خون میں رچ بس جانے والی خوشبو، ہوا کی وحشی مہک، چھن چھن کر آنے والی سنہری دھوپ کی خنک تمازت، سب یکجا محسوس کرسکتے ہیں۔ تو اس لمحے بس آپ اس ہمسفری کی گرفت میں ہوتے ہیں یا ایک آسودگی کی باہوں میں، ایک سرشاری کی آغوش میں۔ محبت تو آپ کو بعد میں ہوتی ہے۔ جب آپ اس سفر کو یاد کرتے ہیں، اس ہمسفر کو یاد کرتے ہیں، اپنے آپ کو یاد کرتے ہیں۔
اس زمانے میں کوئی شعر، کوئی مصرعہ، کوئی ٹکڑا ایک خنجر کی طرح دل میں اترتا ہے کہ نکال بھی لو تو اس کی نوک پیوست رہ جاتی ہے۔ اس الاؤ سے گزرنے والے آپ اکیلے تو نہیں ہوتے، اگرچہ لگتا یہی ہے کہ یہ بس آپ ہی کیلئے تھا۔ لیکن جواس سے گزر چکے یا گزر رہے ہیں، وہ سب اپنی شدتیں کاغذ کے سپرد کرتے آئے۔ شیفتہ نے کہا کہ اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی۔ خورشید رضوی نے آپ کا احوال بتا دیا: ؎
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو
افسانہ سنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی
آپ جب بھرے گھر میں تنہا ہوجاتے ہیں اور ایک ہجوم کے ساتھ اکیلے چلتے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ شخص نہ ملا تو آپ زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ تب جون کا یہ شعر آپ کو اپنا آپ بتاتا ہے۔ آپ بار بار یہ شعر پڑھتے ہیں اور آپ کو چین نہیں پڑتا:؎
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا /ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
محبت کے ایسے شاعروں کے دل سے وہ شدت، وہ تپش اٹھتی ہے جو دوسری دردیلی شدتوں سے مل کر پہلے تو ان کے شعر کے تاگے کو پسے ہوئے شیشے کے مانجھے سے مانجھتی ہے۔ ایک بار نہیں بار بار۔ اور پھریہ ڈور ایسی تیزدھار بنتی ہے کہ سب کچھ لہو لہان ہوجائے۔ تابکار سا کوئی عنصر محبت کرنے والے کے دل سے اپنی تابکار، تابناک شعاعیں خارج کرتا ہے‘ جو اس کے شعروں میں لپٹ کر لوگوں کے دل تک پہنچتی ہیں۔میں اپنے تجربے کو یاد کرتا ہوں۔ میں جب اس میٹھی آگ سے گزرا تھا توگلابی آنچ جو مسلسل دل میں لگی محسوس ہوتی تھی، وہ تو الگ تھی لیکن ایک اضطراب مجھے غلاف کی طرح اپنے حصار میں رکھتا تھا۔ ایک ہی طرف مسلسل توجہ مرکوز نہیں ہوتی تھی۔ ایک ہی جگہ ٹھہرا نہیں جاتا تھا۔ ایک شخص سے زیادہ دیر تک بات نہیں کرپاتا تھا۔ ہرخیال کے اطراف میں بے خیالی گھومتی تھی، دماغ اورغائب دماغی ایک ہی جگہ اس طرح مقیم تھے جیسے صدیوں کے ساتھی ہوں۔ اکیلا پن اچھا لگنے لگا تھا۔ کیونکہ تنہائی ہی وہ یکسوئی بخشتی تھی جس سے اس دنیا میں جانے کا راستہ تھا، جو میرا انتظار کرتی تھی اور جس کا میں انتظار کرتا تھا۔ وہی دنیا، جس میں کوئی نہیں تھا سوائے میرے اور اس کے۔
میں اس زمانے میں زیادہ دیر ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ میں بے سمت چل پڑتا تھا۔ کسی بھی طرف۔ ایک بگولا، ایک گرد باد مجھے لیے پھرتا تھا۔ بیٹھتا تھا تو لگتا تھا میرے ہاتھ پاؤں اینٹھ رہے ہیں۔ لگتا تھا کہ ٹک کر بیٹھنا بڑی غلطی ہوگی۔ ایک جھلک، ایک جملہ، ایک مسکراہٹ۔ شاید کہیں مل جائے۔ بس ایک۔ صرف ایک۔ بس یہ للک مجھے لیے پھرتی تھی۔ ٹریفک سگنلوں پر، پارکوں میں، بازاروں میں، شاپنگ مالز میں‘ لیکن یہ جھلک کبھی ملتی نہیں تھی، یہ جملہ کبھی سنائی دیتا نہیں تھا۔ میں نے جب یہ شعر کہا تھا کہ ؎
مجھے تو چین نہ پڑتا تھا جب محبت تھی
یہ شخص بیٹھ نہ پائے، اگر محبت ہو
تو میں نے قال نہیں حال بیان کیا تھا۔ وہ حال جو پڑھا ہوا نہیں، دیکھا ہوا نہیں، سنا ہوا نہیں، برتا ہوا، چکھا ہوا، گزارا ہواتھا۔
بے سبب اور بے سمت پھرنا بس اسی کیفیت، اسی زمانے میں نصیب ہوتا ہے۔ سمت اور سبب متعین ہوجائیں، یعنی عقل آجائے تو کیفیت چلی جاتی ہے۔ پتہ نہیں ایک کا آنا دوسرے کے جانے سے کیوں مشروط ہے۔ اور دل؟ دل کا تو پوچھو نہیں۔ حال یہ تھا کہ کسی نے ذرا سا چھوا نہیں اور آنسو ٹپکے نہیں۔ اک آبلہ سا رکھا رہتا تھا سینے میں۔ ایک گھٹا تھی جو ہر وقت تلی کھڑی تھی۔ برستی تھی لیکن لگتا تھا برسی نہیں۔ لگتا تھا صحرا اسی طرح خشک ہے، تشنہ ہے۔ اورکون سی غلط بات محسوس ہوتی تھی بھئی۔ خشک اور تشنہ ہی تو ہوتا تھا۔
زندہ رہنا ہو تو محبت کرنی چاہیے۔ یہ چھوڑ دیں کہ حقیقی کہ مجازی۔ اور اس کا رخ کیا ہو۔کسی طرح بھی محبت ہو پر محبت ہو۔
تمام عمر بھلا کون زندہ رہتا ہے
سوائے اس کے جسے عمر بھر محبت ہو
یاد رکھیے گا۔ پہلی محبت، پہلی برف باری اور پہلا سفر بھولتے نہیں ہیں۔ اور اگر ان تینوں میں کسی ایک کو منتخب کرنا ہو تو کس کو کیجیے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں