ترکی کے حالیہ سفر‘ ستمبر 2021 میں سلطان احمت میں کئی دن قیام رہا۔ روز صبح اور شام کئی کئی میل پیدل چلنا ہوتا تھا۔ پچھلے سفروں کے واقعات ذہن میں تازہ ہوتے رہتے تھے اور مناظر بھی۔ استنبول کو دیکھنے کا صحیح لطف پیدل چل کر دیکھنے کا ہے‘ اور ظاہر ہے پیدل چلنے کیلئے ہمت اور صحت دونوں چاہئیں۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ میدانی شہروں میں پیدل چلنا بالکل اور معنی رکھتا ہے اور پہاڑی شہروں میں بالکل الگ‘ چنانچہ سات پہاڑیوں پر بسا ہوا استنبول پیدل چلنے کی قیمت بھی وصول کرلیتا ہے۔ لیکن بھئی! کیا خوشگوار کام ہے وہاں پیدل چلنا۔ خوبصورت سڑکیں اور گلیاں۔ صفائی کا بہترین انتظام۔ تمام سہولیات میسر اور خوشگوار موسم جس میں بہت پیدل چلا جائے تو پسینے کے کچھ قطرے آپ کی پیشانی پر نمودار ہوں گے لیکن آپ پسینے میں تر بتر نہیں ہوتے۔ میں کوشش کرتا تھا کہ تاریخی آثار کی طرف زیادہ وقت گزارا جائے چنانچہ سلطان احمت میں گل ہانے ہر وقت آپ کو بلاتا رہتا تھا۔ میرے سابقہ سفروں کے کئی واقعات گل ہانے سے متعلق ہیں جنہیں دہرا دینے میں کوئی حرج نہیں۔ یاد کیجیے کہ بزرگوں نے کہا ہے: گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را (کبھی کبھار اس پرانی داستان کو دہرا لیا کرو) سو قصۂ پارینہ ایک بار پھر سن لیجیے۔
آپ سب پڑھے لکھے دوست ہیں۔ جانتے ہیں کہ ترکی میں خ کا حرف ہ سے بدل جاتا ہے یعنی خلیل کو اگر ''ہلیل‘‘ اور خزانے کو ''ہزانے‘‘ لکھا یا بولا جائے تو بالکل پریشان نہ ہوں۔ خ کو ''ہ‘‘ بنا دینے اور 'ر‘ کو 'ڑ‘ سے بدل دینے کا یہ کام تو ہمارے بہت سے لاہوری اور سیالکوٹی دوست بھی بخوبی کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر میں آپ کو بتائوں کہ ایک سہ پہر میں ''گل ہانے‘‘ پارک جانے کے لیے نکلا تو سمجھ لیجیے کہ یہ لفظ ''گل خانے‘‘ ہے۔ یہ کھلا اور حسین تاریخی شاہی باغ آیا صوفیہ سے کچھ ہی پیدل فاصلے پر ہے۔ باغ کی بیرونی دیوار اسی قدیم انداز کی ہے‘ جیسے ہمارے جہانگیر کے مقبرے کی۔ میں باغ میں داخل ہوا تو بوندا باندی کا آغاز ہوچکا تھا‘ لیکن یہ رم جھم ایسی نہیں تھی کہ چہل قدمی میں حائل ہوسکے۔ یہ ایک کھلا باغ ہے جس کے قدیم حسن میں نئی روشوں، پھولدار پودوں، جدید فواروں، ریسٹورنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے۔ باغ کو دو حصوں میں تقسیم کرتی نیم پختہ سڑک کے دائیں بائیں گھنے اونچے لمبے درخت ہیں۔ اس سڑک سے ہٹ کر سبزہ زار ہیں‘ جو پہاڑی پر چڑھتی ڈھلوانوں کی شکل میں ہیں اور ہموار قطعات کی صورت میں بھی۔ پھولوں کے تختے اور کیاریاں پورے باغ میں پھیلی ہوئی تھیں۔ گل خانہ اس کا نام ہی نہیں اس باغ کا احوال بھی تھا۔
سڑک لمبی تھی، میں چلتا رہا۔ آگے چل کر ایک راستہ دائیں طرف کے ڈھلوان سبزہ زار سے ہوتا ہوا پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ اس راستے کو رکاوٹوں سے بند کیا گیا تھا۔ معلوم ہواکہ پہاڑی کی بلندی پر ایک خوبصورت ریسٹورنٹ ہے جس کی تعمیر نو ہورہی ہے۔ مرکزی راستے پر ذرا سا اور آگے بڑھا تواندازہ ہونے لگا کہ باغ کا دوسرا سرا سامنے ہے۔ کچھ ہی دیر میں نیلے پانی کی ایک جھلک نے بتادیا کہ آگے خوبصورت منظر ہمارا منتظر ہے۔ پہاڑی کی بلندی پر جہاں باغ ختم ہوتا ہے، ایک پلیٹ فارم بنا تھا اور سیاح اس پر کھڑے تھے۔ نیچے، کافی نیچے، جہاں پہاڑی ختم ہوتی تھی، ایک سڑک تھی اور اس کے ساتھ بحر مرمرا شروع ہوتا تھا۔ کالی گھٹا کے ٹکڑے چیرکر کہیں کہیں سے روشنی کے چوڑے دھارے نیچے گرتے تو نیلے پانیوں میں عصر کے وقت کا سونا جھلملانے لگتا تھا۔ اس نیلے سونے میں کشتیاں اور بحری جہاز مرغابیوں کی طرح تیررہے تھے۔ ہم اس منظر کا حصہ تھے جو خود ایک بہت بڑے منظر کا حصہ تھا۔ سیاح اس لمحے کو کیمرے کی آنکھ سے اس کے دل میں محفوظ کررہے تھے۔ میں نے سیاحوں کا ایک مختصر سا گروپ دیکھا جو ایک مرد اور دو عورتوں پر مشتمل تھا اور اس تلاش میں تھاکہ کوئی ان تینوں کی اکٹھے تصویریں کھینچ دے۔ مجھ اکیلے کو بھی اپنی تصویر کھنچوانے کیلئے کسی ساتھی کی ضرورت تھی؛ چنانچہ ہم نے ایک دوسرے کی تصویریں کھینچیں‘ لمحات منجمد کیے اور اس کے بعدرخصت ہوئے۔
واپسی تک مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ ابھی واپسی کا آدھا راستا طے کیا تھا کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ چھتری پاس نہیں تھی اس لیے ایک سائبان تلے ایک بینچ پر بیٹھ کر بارش رکنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے سامنے کے خوبصورت کیفے سے اس ترک نوجوان کو نکل کر اپنی طرف آتے دیکھا جس سے ابھی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ میرے پاس آیا اور دعوت دی کہ آپ ہماری ٹولی کے ساتھ کیفے میں آجائیں‘ باہر بہت بارش ہے۔ یہ مہربان دعوت غیرمتوقع تھی‘ لیکن میں ان کی بے تکلف دوستانہ گپ شپ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا تھا‘ لہٰذا اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے معذرت کرلی‘ تاہم اس کا اصرار جاری رہا۔ میں نے دو تین بار معذرت کی لیکن دیکھا کہ اس کا اصرارکم نہیں ہو رہا۔ مزید یہ کہ وہ سائبان سے باہر کھڑا میری وجہ سے بارش میں بھیگ رہا تھا۔ میں اٹھا اور اس کے ساتھ ہولیا۔ کیفے آتش دان اور سیاحوں کی گرمی سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک شیشے کی دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے اور وہیں سے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ کچھ دیر میرے اکیلے پن کا مداوا کر سکیں۔ نوجوان ترک بینکار تھا اور اس کا نام فردی دمیر (Ferdi Demir) تھا۔ نوجوان ترک لڑکی گربیٹ کارملتاس (Gurbet karmiltas) کسی سکول میں انگریزی پڑھاتی تھی۔ ان کی تیسری ساتھی سیام یعنی تھائی لینڈ سے ان کی دوست رونگمٹ ڈاوسانان (Roongmit Daosanan) استنبول گھومنے آئی ہوئی تھی اور اگلے روز اس کی اپنے وطن واپسی تھی۔ وہ استنبول سے بے حد متاثر تھی اور اس کا واپس جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ فردی ایک مہمان نواز ترک تھا اور اس نے کافی اور سینڈوچ کا بل ہم میں سے کسی کو ادا نہیں کرنے دیا۔ گربیٹ موجودہ حکومت اور اردوان کے سخت مخالفین میں سے تھی۔ شیشے کی دیوار کے باہر بارش مسلسل گرتی اور ترکی چائے کا لطف دوبالا کرتی رہی۔ دو گھنٹے کے بعد جب ہم رخصت ہوئے تو ان اجنبی دوستوں کی مہمان نوازی کا نقش محفوظ ہوچکا تھا۔ اگرچہ استنبول کے سیاحتی مراکز میں ٹورسٹس کے ساتھ دھوکے بازی کے کافی واقعات ہوتے ہیں اور مکمل اجنبیوں سے محتاط رہنا ہی بہتر ہے تاہم ترک عام طور پر خوش مزاج اور مہمان نواز قوم ہے۔ فردی دمیر اور گربیٹ کارملتاس اپنی قوم کے ایسے ہی چہرے تھے۔
لیکن چہرے اور بھی ہیں۔ اکیلے سیاحوں کو دیکھ کر انہیں گھیرنے اور لوٹنے والے۔ ٹورسٹ ایریاز میں روز ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔ میرے قریبی دوستوں نے اپنے لٹ جانے یا پیسے نکال لیے جانے یا متروک کرنسی دے دئیے جانے کے کئی واقعات سنائے۔ پولیس کے چکر کون لگائے اور بہت سی صورتوں میں پولیس بے بس ہے یا کاہل۔ پھر زبان کی مجبوری اور ٹھیک واقعہ بتانا ایک الگ مسئلہ ہے‘ حالانکہ ٹورازم پولیس کا ایک الگ شعبہ بھی قائم ہے لیکن ان کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔
لیکن استنبول مجموعی طور پر پرامن اور محفوظ شہر ہے‘ اور حکومت کو سیاحوں سے بڑی آمدنی ہے‘ چنانچہ وہ اسے محفوظ تر بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ اور حضور، سیاحتی مراکز میں محفوظ شہر ہے کون سا دنیا میں؟ ذرا نام تو لیجیے۔ ہم بھی جانیںاس ملکِ امن یافتہ کو۔ ہم بھی دیکھیں اس قریۂ خوش بخت کو۔