"SUC" (space) message & send to 7575

موزوں ترین خطاب

ان کے لیے کوئی لقب، کوئی خطاب شاید محسنِ پاکستان سے زیادہ موزوں نہیں ہوگا۔ یہ لقب اس مٹی کی ڈھیری کے اوپر جگمگا رہا ہے جس کے تلے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ابدی نیند جا سوئے۔ ان تمام تر محبتوں کو ساتھ لیے جو قوم نے ہی نہیں پوری امت مسلمہ نے ان پر نچھاور کیں۔ ان تمام تر اعزازات کے ساتھ جو ان کے کارناموں سے بہرحال کم تھے‘ لیکن صرف یہی کچھ ان کے نام کے ساتھ تہ خاک نہیں گیا۔ کچھ اور اعزازات بھی ساتھ تھے۔ وہ تمام منافقتیں جو بڑے کارناموں کے ساتھ نتھی ہوجاتی ہیں۔ وہ سب مخالفتیں جو بڑے کارناموں کے کریڈٹ لینے والوں کے ہجوم کی طرف سے ہوتی ہیں۔ اور وہ تمام ناقدریاں جو بعد کے ادوار میں سرکردہ عہدوں کے چہروں اور لباس پر داغوں کی طرح واضح ہیں۔
ناقدری۔ اس حد تک کہ محسن پاکستان کے جنازے میں بھی مقتدر افراد نے شرکت کرنے کی زحمت نہیں کی۔ دور دور سے غم اور افسوس کے پیغامات داغ دئیے گئے اور یہ بیانات بھی داغ ہیں جو ان چہروں اور پوشاکوں پر ہمیشہ واضح رہیں گے۔ ایک بات کی خوشی بہرحال ان ناقدریوں کے بیچ بھی موجود ہے۔ عام پاکستانیوں اور مسلمانوں نے یہ ناقدری نہیں کی۔ انہوں نے تو اس شخص کو ٹوٹ کر چاہا جس نے انہیں آہنی حصار بناکر دیا تھا۔ عام پاکستانی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر اڑائے گئے چھینٹوں اور گردوغبار کی کبھی پروا نہیں کی، نہ کبھی ان پر اعتبار کیا۔ ان سے ٹی وی پر کروائے گئے اعتراف جرم کے باوجود کسی دل میں ان کے لیے میل نہیں آیا۔ اس لیے کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر کو، ان کی نیت کو جانتے تھے۔ ان کی حب الوطنی پر انہیں کوئی شک نہیں تھا۔ ان کے کیے ہوئے کاموں پر انہیں اعتماد تھا۔ ایک ہیرو کو زیرو کرنے کی کوششوں کو سب پاکستانیوں نے نفرت سے دیکھا اور جب وقت کا گردوغبار چھٹا تو ان سے مغربی آقاؤں کے حکم پر زبردستی اعتراف جرم کروانے والے زیرو ہوئے نظر آئے۔ عبرت کی مثال بنے دکھائی دئیے۔ لوگ جانتے تھے کہ یہ سب ان کے کیے ہوئے کام کی اہمیت کم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ ایک غیرمتنازعہ ہیرو کو متنازعہ بنانے کی سرتوڑ کوشش ہے۔ یہ وہی کام تھا جو قوم کے ہر غیرمتنازعہ ہیرو کے ساتھ مسلسل کیا جاتا رہا ہے۔
وہ دور یاد آیا جب ڈاکٹر عبدالقدیر جوہری بم بنانے اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کا ناقابل فراموش کام کررہے تھے۔ ہم کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم کیسے اس کام کے بارے میں جاننے اور مستند معلومات کیلئے پرجوش ہوتے تھے۔ دل چاہتا تھاکہ یورینیم کی افزودگی‘ جو صبرآزما سالوں پر محیط ہے، کسی طرح، کسی فارمولے سے، کسی تکنیک سے سمٹ کردنوں میں پوری ہوجائے۔ پرجوش مکالمے ہوتے تھے کہ اگر یہ وقت کم ہوجائے تو یہ جو پاکستان پر دشمن طاقتوں کا دباؤ ہے وہ کم محسوس ہوگا۔ دوسرے یہ کہ اس وقت تو اس دباؤ کا مقابلہ پہلے بھٹو صاحب، پھر جنرل ضیاالحق اور غلام اسحق خان وغیرہ کرتے رہے لیکن کسی عہدے کا کچھ پتہ نہیں۔ کوئی مہرہ آگیا تو یہ سب پروگرام دھرا رہ جائے گااور یہی دشمن چاہتے ہیں۔ چونکہ ماڈرن فزکس بھی میرے نصابی مضامین میں شامل تھی اس لیے یہ تواندازہ تھا کہ وقت کی سرعت کی یہ خواہش ممکن نہیں۔ یورینیم کی طرح وقت بھی اپنے وقت پر ہی افزودہ ہوتا ہے۔ وہ سخت وقت تھا۔ ایک طرف جوہری پروگرام روکنے کیلئے دنیا کا سخت دباؤ تھا‘ دوسری طرف روس افغانستان میں داخل ہوچکا تھا۔ تیسری طرف اس پروگرام کیلئے جو ضروری سازوسامان اور پرزے درکار تھے، ان کا عالمی مارکیٹ سے ملنا بہت مشکل ہوگیا تھا‘ اور جوہری پروگرام کو تکمیل کیلئے جو ضروری وقت درکار تھا، اس وقت تک ان عمارتوں اور علاقے کا تحفظ بھی لازمی تھا اور پروگرام کی درست معلومات پوشیدہ رکھنا بھی نہایت اہم تھا‘ لیکن قدرت ہر شر میں خیر کا پہلو بھی شامل کرسکتی ہے۔ روس کی افغانستان میں موجودگی ہی اس پروگرام کو آگے بڑھانے کا ایک سبب بننے لگی۔ روس سے خائف اور اسے ہر ممکن شکست سے دوچار کرنے کا خواب دیکھنے والا امریکہ اس پروگرام سے صرف نظر کرنے پر مجبور ہونے لگا۔ وہ مغربی دنیا جو ویسے بہت زیادہ شور مچاتی، اس کا واویلا اتنا مؤثر نہ رہا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قدرت نے ایک بڑے کام کے لیے چن لیا تھا۔ بڑا ہی نہیں بہت بڑا کام‘ یعنی پہلی مسلم جوہری قوت کی تشکیل‘ اور یہ اسلامی جوہری طاقت کی تعبیر بھی دشمنوں کی پیش کردہ تھی ورنہ اس سے پہلے بننے والوں میں نہ کوئی عیسائی بم تھا، نہ یہودی، نہ اشتراکی اور نہ ہندو بم۔ خیر یہ تو الگ بات لیکن آپ اس تمام وقت اور اس میں پیش آنے والے نشیب و فراز کو پڑھیں جو بھٹو صاحب کے زمانے سے اگلے کم و بیش بیس سال پر محیط ہے تو اندازہ ہوگا کہ اللہ نے کن کن لوگوں سے اس عظیم مقصد میں کام لیا۔ یہ لوگ اپنی پوری زندگی میں کوئی اور کام نہ کرتے، تنہا یہی کام سرانجام دیا ہوتا تو ان کی سربلندی کیلئے کافی تھا۔ یہ کمال ڈاکٹر عبدالقدیر کا ہی تھا کہ تکنیکی میدان میں انہوں نے یہ کام رکنے نہیں دیا۔ نیوکلیئر پلانٹ کے ڈیزائن سے لے کر پرزوں اور آلات کی دستیابی تک کوئی ایک شخص بھی وہ معلومات نہیں رکھتا تھا جوان کے پاس تھیں۔ اس کہانی پر مضمون نہیں، کتابیں لکھی گئی ہیں کہ پاکستان نے یہ ایٹم بم کیسے بنایا۔ اس کے پرزے کس کس طریقے سے اور کہاں کہاں سے حاصل کیے گئے۔ جو مل نہیں سکتے تھے وہ پاکستان کے اندر ریسرچ لیبارٹریز میں کیسے تیار کیے گئے۔ ان سب میں دیگر سائنسدانوں اور انجینئرز کا بھی بہت کمال تھا اور اس کا بجا طور پر انہیں کریڈٹ ملنا بھی چاہیے لیکن اگر ایک ڈاکٹر عبدالقدیر نہ ہوتے اور یہ سب موجود ہوتے تو یہ ناممکن ہوتا۔ قیادت، رہنمائی اور بنیادی علم انہی کے پاس تھا۔ کیا آپ نے کبھی یہ تفصیل پڑھی ہے؟ کیا آپ نے اس غیرمعمولی مہم اور اس کی دشواریوں پر کبھی غور کیا ہے؟ کیا کبھی آپ نے کہوٹہ کی ٹھیک معلومات اور اسے ختم کرنے کیلئے دشمن ایجنسیوں کی کارروائیوں اور ان کی روک تھام کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے۔ میں نے کئی بار یہ تفصیلات پڑھیں اور ہر بار سر فخر سے بلند ہوا۔ ہم کتنے ہی اختلافات کی باتیں سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی وہ کہانی بھی سنی جس نے سیاسی، عسکری، شخصی اور نظریاتی اختلافات سے بلندتر ہوکر ایک حقیقت کا روپ دھارا تھا۔
اس حقیقت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر بھی اس پروگرام سے منسلک ہوکر امر ہوگئے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ وہ ہالینڈ میں جوہری تحقیق اور پروگرامز میں ساری عمر صرف کرکے اسی مٹی میں مل جاتے تو انہیں کتنے لوگ جانتے۔ کتنے پاکستانی ان کیلئے گریہ کرتے؟ کتنے مسلمان ان کیلئے سوگوار رہتے۔ وہ سینکڑوں ایٹمی سائنسدانوں میں سے ایک ہوکر رہ جاتے۔ ایک ایسا نام بن کر ختم ہوجاتے جواکثر سائنسدانوں کو بھی یاد نہیں رہتا۔ یکتا نہ ہوتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اگر محسن پاکستان بنے تو اس پروگرام سے منسلک ہوکر۔ اس سے باہر وہ کسی بھی لقب سے پہچانے نہیں جاسکتے تھے۔
جوہری پروگرام ہماری تاریخ کے روشن ترین اور سنہرے ترین ابواب میں سے ہے۔ اس دن جب میں ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ اس تاریخ کو دفن ہوتے دیکھ رہا تھا۔ وہ شخص جو تہ خاک جا سویا، ہمارے گرد ایک ایسا ناقابل عبور آہنی حصار قائم کرگیا۔ ہر پاکستانی کا سربلند کرگیا۔ ڈاکٹر صاحب! آپ مٹی تلے آسودہ رہیں کہ آپ نے ہمیں زمین کے اوپر آسودہ کردیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں