"SUC" (space) message & send to 7575

کسی کنارۂ روشن کو ڈھونڈتے ہوئے لوگ

ہمارے مقدر میں یہی لکھ دیا گیا ہے کہ ہر دو تین سال بعد اپوزیشن کی ساری جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں اور اس جماعت کے خلاف ایکا کرلیں جو تختِ حکومت پر بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ تمام جماعتیں جو آپس میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی رہی ہیں، اور ایک دوسرے کے حلف پر بھی اعتبار نہیں کرتیں، وہ سب اس جماعت کی ٹانگ کھینچنے میں لگ جائیں جو کل تک انہی میں سے کسی جماعت کے خلاف ان کی حلیف تھی۔
جو ساری عمر سے اک دوسرے کی زد پر تھے
انہیں مفاد نے شانہ بہ شانہ کر دیا ہے
جہانگیر بدر مرحوم کہا کرتے تھے، اور کہنے والوں میں وہ اکیلے بھی نہیں تھے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ اس حسن کا تماشا دنیا دیکھ رہی ہے۔ ایسے ایسے بیانات اور ایسے تماشے سامنے آ رہے ہیں کہ بندہ اپنے سامنے والے سے شرماکر منہ پھیر لے۔ افضل چن پی ٹی آئی چھوڑ کر دوبارہ پیپلز پارٹی سے جاملے ہیں اور بلاول نے انہیں خوش آمدید کہا ہے۔ اتحادی جماعت قاف لیگ کے جناب پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ اگرچہ ہم نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن حالات سو فیصد عمران خان کے خلاف ہیں اور ان کے اراکین ان سے ٹوٹ چکے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ خبر ہے کہ مونس الٰہی لندن پہنچ گئے ہیں۔ ظاہر ہے سیر‘ تفریح کے لیے نہیں۔ غالباً وعدے اور ضمانتیں لینے کیلئے۔ نون لیگ‘ جو چوہدری برادران کو کبھی پسند نہیں کرتی رہی، کتنے اور کیسے وعدے اور ضمانتیں دے سکتی ہے، اور وہ کتنی گول مول اور مبہم ہوں گی، معلوم نہیں۔ سندھ ہاؤس اور منحرفین کا معاملہ کھل کر سامنے آ چکا۔ اب یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ پارلیمنٹ لاجز میں انہیں ارکان کی بازیابی کیلئے حکومتی چھاپہ مارا گیا تھا، لیکن وہ بازیاب نہیں ہوئے۔ کہا یہ گیا کہ انصارالاسلام کے لوگوں کو پکڑنے کیلئے پولیس کارروائی کی گئی تھی۔ وزیر اعظم سمیت بہت سے وزیروں نے لوٹوں اور ضمیر فروشوں کا بار بار ذکر کیا ہے جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ان منحرف ارکان سے اب پی ٹی آئی بھی مایوس ہو چکی ہے۔ عمران خان کہہ تو یہی رہے ہیں کہ تسلی رکھیں، جیت ہماری ہی ہوگی لیکن نمبر اور اعدادوشمار اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ اصل معاملہ اس وقت سپیکر کے کورٹ میں ہے کہ وہ کب اجلاس بلائیں گے اور کب عدم اعتماد پر گنتی کروائیں گے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ ان باغی ارکان کے خلاف اگر پی ٹی آئی سپیکر سے کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے تو کیا وہ نااہل ہو سکتے ہیں‘ اور ان کا ووٹ ڈالنے کا حق باقی رہے گا؟ فرض کر لیجیے وہ نااہل ہو جاتے ہیں تو ان کی نااہلی سے تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہوگا؟ یہ تو پی ٹی آئی ہی کے ارکان تھے، ان کی تعداد کم ہوگی؛ البتہ یہ ہے کہ اتحادیوں کی اہمیت اور بڑھ جائے گی اور نمبر گیم کی تعداد بھی بدل جائے گی۔
خان صاحب نے اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کیا‘ اور جوابی وار کے طور پر اپوزیشن نے بھی اسلام آباد کے لانگ مارچ کی خبر دے دی۔ پہلی بات یہ کہ عمران خان اگر دس لاکھ لوگ جمع کرنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو اسمبلی میں اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ اس طاقت کی دھاک سے کس کو پیغام دینا مقصود ہے؟ مقتدر فیصلہ ساز قوتوں کو، اپوزیشن کو، اتحادیوں کو، یا عوام کو؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے نمبر گیم پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اگر اثر پڑ سکتا ہے تو ملک و قوم کو کہ وہ مزید انارکی کی طرف چلے جائیں گے۔ اسی طرح اپوزیشن اپنی طاقت کے مظاہرے سے جن مقتدر قوتوں کو پیغام دینا چاہتی ہے، بظاہر ان کا فی الوقت کسی بھی جماعت کی طرف رجحان نہیں ہے۔ اندیشہ یہ ضرور ہے کہ ملک میں لڑائی جھگڑے اور انارکی کی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے جس میں جمہوری بساط لپیٹ دینے کا خطرہ شدید تر ہو جائے۔
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ عمران خان نہ استعفیٰ دیں گے نہ اسمبلیاں تحلیل کریں گے۔ وہ مقابلہ کریں گے۔ تاثر بھی یہی ہے کہ عمران خان آخر تک مقابلہ کرنے والے شخص ہیں لیکن یہ صفت اور دوسری صفات مثلاً لچک، مفاہمتی رویہ، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش وغیرہ کے ساتھ ہوتی تو بہت کامیاب ہو سکتی ہے۔ تنہا یہ کسی بھی کام کی نہیں۔ اس وقت چو مکھے محاذ‘ جس میں متحدہ اپوزیشن، باغی ارکان، اتحادی جماعتیں اور عوامی غیر مقبولیت‘ سب اپنے عروج پر ہیں‘ کا مقابلہ آسان نہیں ہو گا۔ ترین گروپ اور علیم خان گروپ کا مؤقف بھی اب تک واضح نہیں ہے۔ واضح ہے تو بس یہ بات کہ وہ عمران خان سے خوش نہیں ہیں اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ اپنے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن کیا وہ اس حد تک جائیں گے کہ عدم اعتماد کے دن ووٹ اپوزیشن کے حق میں ڈالیں، لگتا ہے انہیں اس میں ابھی تذبذب ہے۔ ان کے معاملات دونوں طرف چل رہے ہیں اور ابھی اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔ یاد آیا کہ مولانا مودودی سے ایوب خان کے زمانے کی سیاست کے بارے میں کسی نے پوچھا کہ مولانا! یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ انہوں نے کہا یہ اونٹ ہے ہی نہیں کہ بیٹھے، یہ تو گدھا ہے اور گدھا بیٹھتا نہیں لوٹتا ہے۔ سو اب سیاست کا گدھا کب لیٹتا ہے اور کب لوٹتا ہے، اسی کا انتظار ہے۔
میں ذاتی طور پر اس بات کا حامی ہوں کہ کسی منتخب حکومت کو، خواہ وہ کتنی ہی بری کارکردگی دکھائے، پانچ سال پوری کرنے کی مہلت ملنی چاہیے۔ عمران خان کی بہت سی خرابیوں اور کئی شعبوں میں ناقص کارکردگی کے باوجود میں یہی بات ان کے لیے بھی درست سمجھتا ہوں۔ اب جبکہ ان کی مقبولیت کا گراف خاص طور پر کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے نیچے آیا ہے، اور ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں، انہیں ڈیڑھ سال کا دورانیہ پورا کرنے دینا چاہیے تاکہ یہ کہنے کا موقع نہ ہو کہ ہم کام کرنا چاہتے تھے لیکن کرنے نہیں دیا گیا۔ جیسا کہ اس وقت دیوار کی تحریر بتا رہی ہے کہ عمران خان کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہو جائے گی، یہ علیحدگی اپوزیشن کے لیے وبال جان بھی بن سکتی ہے۔ اس ڈیڑھ سالہ اقتدار میں ایک مخلوط حکومت‘ جس میں اکثر جماعتوں کی ایک دوسرے سے نہیں بنتی، کیا کرشمہ کر سکتی ہے؟ ظاہر ہے اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ڈیڑھ سال میں عوام کو کوئی ریلیف نہ مل سکا اور حالت بہتر نہ ہو سکے تو اگلا انتخاب عمران کے لیے شر میں سے خیر کا پہلو نکال کر سامنے لے آئیں گے۔ جو انتخاب متوقع ہیں، وہ دوبارہ ایک لہر کی صورت میں عمران کے حق میں پلٹ سکتے ہیں۔
لیکن ہم نے ایک اور کرشمے کے امکانات پر بات نہیں کی‘ اور وہ ہے تحریک عدم اعتماد کا ناکام ہو جانا۔ اگر یہ کرشمہ رونما ہو جاتا ہے جس کے امکانات اس وقت نظر نہیں آ رہے تو یہ اپوزیشن کی ایسی بد ترین شکست ہو گی جس کے اثرات آئندہ انتخابات پر بھی پڑیں گے۔ مختصر یہ کہ ملک ایک طویل سرنگ میں داخل ہو چکا ہے جس کا کنارہ نظر نہیں آتا۔
کسی کنارۂ روشن کو ڈھونڈتے ہوئے لوگ
مگر سفر کوئی اندھی سرنگ ہوتا ہوا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں