رمضان المبارک ہر سال اپنے اختتام کی طرف آتا ہے تو بھرپور استفادہ نہ کر سکنے کا افسوس، تازہ جدائیوں کے ملال، اس ماحول کے بچھڑنے کا دکھ، آئندہ نہ مل پانے کا خوف سب کچھ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مہینے میں دوسرے مہینوں سے بڑھ کر نعمتیں بھی میسر آتی ہیں اور کم حیثیت طبقات کا خیال بھی زیادہ کیا جاتا ہے۔ کتنے ہی معمولات ہیں جو اس کے ساتھ خاص ہیں۔ اس لیے اسے بارہ مہینوں کا سلطان کہا جاتا ہے تو بجا طور پر کہا جاتا ہے۔
اس سال بھی یہی سب کچھ ہے لیکن ان سب میں کچھ اضافی ملال شامل ہو گئے ہیں۔ ایسے دکھ جو رمضان المبارک کے پچھلے مہینوں کے ساتھ منسلک نہیں تھے۔ اس مہینے نے پی ٹی آئی اور عمران خان کی حکومت کو تخت سے خاک پر آتے دیکھا۔ ہر قسم کی سیاسی، آئینی، غیرآئینی زور آزمائیاں دیکھیں، نئے لوگوں کو‘ جو سب پرانے تھے، تخت نشین ہوتے دیکھا۔ روز عدالتیں لگتی دیکھیں۔ وہ کشمکش دیکھی جو گدی سے اتارنے اور خود بیٹھنے، گدی سے چمٹے رہنے کی زور آزمائی سے زیادہ کچھ نہیں تھی‘ اور جس میں مذہب، قانون، آئین کی دہائیاں دی جاتی تھیں‘ لیکن یہ تینوں ہی سب سے زیادہ مظلوم تھے۔ ان سے زیادہ بے انصافی کسی اور کے ساتھ نہیں ہوئی تھی۔ متحدہ اپوزیشن اب متحدہ حکومت ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تصفیہ ہنوز باقی ہے لیکن جس طرح عدالتیں لگ کر فیصلے دے رہی ہیں، یہ بھی دنوں کی بلکہ گھنٹوں کی بات لگتی ہے۔
کہنے دیجیے کہ عمران خان اس مہینے میں جس طرح بے نقاب ہوئے ہیں، ایسے گزشتہ 4 سالہ حکومت میں بھی نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے ہر جتن کیا لیکن کرسی چھن کر رہی۔ وہ جتن جو وہ نہ کرتے تو زیادہ بھرم رہتا۔ وہ فیصلے جو ان کی سمجھ بوجھ کے اچھے ثبوت نہیں ہیں۔ ایک معاصر باخبر اور بہت متوازن کالم نگار جناب حبیب اکرم نے تازہ ملاقات کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے قریبی مشیروں نے انہیں سپیکر رولنگ کے غلط مشورے دئیے اور انہیں باور کرایا کہ عدالت عظمیٰ اس رولنگ میں مدا خلت نہیں کرے گی، کر سکتی بھی نہیں۔ یہ بات غلط ثابت ہوگئی‘ لیکن ایسے مشیر خود عمران خان کے منتخب کردہ ہیں تو ان کا الزام بھی کسی اور کو نہیں دیا جاسکتا۔ کچھ بھی تاویلات کی جائیں، خان صاحب کا مجسمہ بری طرح ٹوٹا اور خود انہیں کے گرزِ بت شکن سے۔ اس انہدام میں باقی لوگوں کا دخل اتنا ہی تھا جتنی گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے کا ہوتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں بے شک اچھے کام بھی تھے اور وہ گنوائے جا سکتے ہیں‘ لیکن انہوں نے آئندہ انتخابات کے لیے غیر ملکی سازش کہہ کر مظلومیت کا سہارا بہتر سمجھا۔ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جس سے وہ جتنی جلد پیچھا چھڑا لیں اتنا ہی اچھا ہے۔ ان کا پہلا بیانیہ سب کو چور اور ڈاکو کہنے کا تھا، جسے سنتے سنتے کان پک گئے تھے۔ اب دوسرا بیانیہ غیر ملکی سازش کا ہے جس کے نتائج بہت دور مار ہیں، اور شدید خطرہ ہے کہ یہ بیانیہ انہیں عوام میں جتنا بھی مقبول بنا دے، آئندہ ممکنہ اقتدار سے بہت دور لے جائے گا‘ لیکن انہیں کسی طرح قرار نہیں آرہا ہے۔ وہ اب بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ میں شریف برادران کے پردے چاک کردوں تو بازی پلٹ جائے گی؛ چنانچہ انہوں نے شریف برادران پر قرطاس ابیض یعنی وائٹ پیپر شائع کرنے کا اعلان کیا ہے‘ یعنی وہ ہنوز اسی انتقام میں گرفتار ہیں جو انتقال پر منتج ہوا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی اس وائٹ پیپر میں دلچسپی لے گا یا اس کا کوئی فائدہ ہوگا یا اس میں کوئی ایسی بات ہوگی جو ان کی گزشتہ تقریروں سے اضافی ہوگی ۔
خا ن صاحب !گلستان میں سعدی شیرازی نے ایک شعر لکھا ہے
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ می روی بہ ترکستان است
(اے اعرابی! مجھے ڈر ہے کہ تو کبھی کعبہ تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اس لیے کہ جس راہ پر تو ہے، وہ ترکستان کی طرف جاتی ہے)۔
خان صاحب! یہ راہ کعبہ کی طرف ہرگز ہرگز نہیں جاتی۔ راستہ بدلیں، مزاج بدلیں اور ساتھی بدلیں۔ تبدیلی چاہیے تو اصل تبدیلی یہیں سے شروع ہو گی۔ آپ نے 27 رمضان المبارک کی مبارک رات میں دعا کا اعلان کیا۔ آپ اور آپ کے ساتھی اس دعا میں اپنے سیاسی نظریے کے ساتھ شریک ہوئے۔ سچ یہ ہے کہ اس مبارک رات میں دعا کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن دعا کو سیاسی نظریے کے لیے استعمال کرنا کسی کو بھی اچھا نہیں لگا؛ چنانچہ یہ قدم اسی طرح غیر مؤثر رہا جیسے امر بالمعروف کی اصطلاح کا اپنی تحریک کے لیے استعمال۔ میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ مبارک رات تو آپ کے دور اقتدار میں چار بار آئی، اور ان تمام سالوں میں پاکستان شدید مسائل کا شکار بھی تھا، آپ کو اس رات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شریک ہونے کا خیال پہلی بار اب کیوں آیا۔ کیا دعائیں اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد ہی قبول ہوا کرتی ہیں؟
اور کل رات تو جیسے دل ہی مسل کر رہ گیا۔ مسجد نبوی کے صحن اور قرب مسجد میں جو کچھ ہوا، اس کا نقصان زیادہ عمران خان اور ان کے حامیوں کو پہنچا۔ لوگوں کے دل ہل کر رہ گئے۔ قرآن کریم کی آیت کا مفہوم ہے کہ اس میں سوچنے والوں کے لیے بہت عبرت ہے۔ یہ سہ طرفہ عبرت کا واقعہ ہے، خود عمران خان کے لیے، نون لیگ اور دیگر جماعتوں کے لیے، اور پوری قوم کے لیے۔ خان صاحب کی طرف سے اس واقعے کی تادم تحریر کوئی مذمت نہیں آئی‘ جو ایک اور غلط فیصلہ ہے۔ پوری قوم کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں‘ لیکن ایک معاملہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ پبلک مقامات میں ایسے کتنے ہی واقعات ہو چکے ہیں۔ ریسٹورنٹس، سٹیڈیم، مساجد، سڑکیں، پارکس وغیرہ۔ یہ سوچنا اور کہنا غلط ہو گا کہ ہر جگہ پی ٹی آئی کے ورکرز یہ ہنگامہ آرائی کرتے ہیں اور چور‘ ڈاکو، غدار کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ عام آدمی کے ذہن میں ان سب کے بارے میں یہ راسخ ہو چکا ہے کہ یہ سب بکاؤ اور لٹیرے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ سوچنے کی بات نہیں ہے۔ عمران خان نے اس تاثر کو بہت شہ دی ہے لیکن یہ تاثر بہت پہلے کا ہے۔ مسٹر ٹین پرسنٹ کا نعرہ عمران خان کا نہیں تھا اور شریف برادران پر الزامات کا سلسلہ بھی ان سے پہلے کا ہے۔ جو بھی کچھ ہے، مسجد نبوی کے اس واقعے نے خون کے آنسو رلا دیا۔ ایسے میں جو کچھ میرے دل نے کہا، وہی میں نے اس نظم میںکہہ دیا:
بدو لوگو!
گالی دیتے ہو؟
اس مسجد کے صحن میں آ کر گالی دیتے ہو؟
اونچا بولتے ہو؟
سب سے بڑے انسان کے گھر میں اونچا بولتے ہو؟
عمرے کرتے ہو؟
لُوٹ کے سکے جیب میں بھر کر سجدے کرتے ہو؟
غیر عرب میں رہنے والے بدو لوگو!
اپنے زعمِ خوش بختی میں جینے والے بدو لوگو!
تم سے بڑھ کر کون بھلا بدقسمت ہوگا
دیکھو! خوش بختوں کو دیکھو!
جو دوری میں رہتے ہیں اور ایک حضوری میں رہتے ہیں
ان سے پوچھو
طرز حضوری کیا ہوتی ہے
ان سے سمجھو
جیب میں سکے کیسے ہوں گے
ان سے سیکھو
اس دربار میں دھیمے لہجے کیسے ہوں گے