جہاز نے ایک وحشت میں دیوانوں کی طرح بھاگنا شروع کیا۔ ذرا سی دیر میں رن وے پر پہیوں کی آواز ختم ہوئی اور پوری طاقت سے گرجتے انجنوں کی آواز کے سوا ہر آواز دور ہوتی چلی گئی۔ جہاز ہوا بدوش ہوا تو منٹوں میں شہر پر رات کی پھیلی تاریکی میں مدغم ہوگیا۔ جہازکے اندر رات بھر کے انتظار سے تھکے مسافر کمر بستہ بیٹھے تھے۔ اس انتظار میں کہ کب بندھن کھولنے کا اشارہ ملے اور وہ کرسیوں کی پشت لمبی کرکے سونے کی ناکام کوشش کر سکیں۔ مکمل بھرے ہوئے جہاز میں سعود عثمانی نام کا مسافر بھی اس آس میں تھا کہ اگر کچھ نشستیں خالی ملیں تو کمبل اور تکیہ لے کر انہی کا رخ کرے گا۔ لیکن یہ تو بس آرزو ہی تھی۔ اب یہی ممکن تھا کہ اسی اکلوتی سیٹ پر کمر کے زاویے بدل بدل کر کسی طرح سونے کی کوشش کی جائے۔ خواجہ آتش! آپ کا شعر یاد رہتا ہے :
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
یہ شعر درست ضرور ہوگا لیکن شاید اس ایئر لائنز کے عملے نے کبھی سنا نہیں تھا۔ میں جلتا کڑھتا ٹانگیں دراز کرنے کی کوشش کرتا اب اس فکر میں مبتلا تھا کہ لاہور سے استنبول کی یہ 6 گھنٹے کی پرواز کی تو خیر لیکن استنبول سے نیو جرسی کی پرواز کے انتظار میں 12 گھنٹے کا وقت ایئر پورٹ پر کیسے گزرے گا؟ دراصل یہ ٹرانزٹ کا وقت 8 گھنٹے تھا جو اچانک 4 گھنٹے بڑھ کر 12 گھنٹے ہو چکا تھا۔ 13 جولائی کو لاہور سے جو پرواز صبح پونے چھ روانہ ہونی تھی، وہ اچانک رات 2:45 پر ہوگئی تھی۔ اور سب مسافر اس آخری وقت کی تبدیلی سے بھونچکا سے رہ گئے تھے لیکن یہ سفر قہر درویش بجان درویش والا ہی لگ رہا تھا۔
میرے ساتھ بیٹھے ہم سفر نے پہلو بدلا اور کھا جانے والی نظروں سے ترکی ایئر ہوسٹس کو دیکھا جو ہر کچھ دیر بعد آ کر ماسک سے نتھنے ڈھانپے رہنے کی ہدایت کر رہی تھی۔ پورے لاہور شہر میں کوئی ماسک نہیں پہن رہا تھا۔ ایئر پورٹ پر کوئی ماسک نہیں پہن رہا تھا لیکن ترک عملہ ماسک کے بغیر نہ جہاز میں داخل ہونے دے رہا تھا اور نہ سیٹ پر بیٹھے ہوئے ماسک ہٹانے دے رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ جہاز نہیں ہسپتال ہے جہاں ڈاکٹر نرسیں اور مریض سبھی ماسک پوش مخلوق ہیں۔
استنبول ایئر پورٹ کیوں اتنا بڑا بنایا گیا ہے؟ پتا نہیں۔ شاید مسافروں کو سزا دینے کے لیے۔ شاید ٹانگوں کے جوڑوں کو‘ جو جہاز میں بیٹھے بیٹھے اپناکام بھولنے لگتے ہیں‘ یاد دلانے کے لیے کہ وہ عضو معطل ہونا بھول کر فوراً کام شروع کردیں۔ جہاز سے نکلے اور اگلی پرواز کے ٹرمینل کا رخ کیا۔ لیکن یہ کوئی آسان ہے؟ کئی مرحلوں سے گزرے۔ کتنی لمبی لمبی مسافتیں طے کیں۔ کتنے زینے چڑھے اترے‘ کتنی ڈیوٹی فری دکانوں سے گزرے۔ کتنی اشتہا انگیز طعام گاہیں اور حسینائیں راستے میں آئیں۔ کچھ یاد نہیں۔ بس یہ یاد ہے کہ کمر اور ٹانگیں مسلسل احتجاج کیے جارہی تھیں کہ بھیا! کیا نیوجرسی پیدل جانا طے کر لیا؟ خواجہ آتش کے شعر کی دور حاضر میں مشکوک افادیت پر غور کرتے بالاخر اس جگہ پہنچ ہی گئے جہاں سے اگلی پرواز کے لیے بارہ گھنٹے گزارنے تھے۔ میں نے بے تابی سے ایئر لائنز کاؤنٹر کا پتا پوچھا۔ ایک دو زینے اُترا اور کاؤنٹر پر ایک دل کش مگر درشت خو حسینہ کے سامنے آپہنچا جس نے مجھ پر ایک غلط اندازِ نگاہ ڈالی ''وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم تھی‘‘۔
''میں یہاں ایئر پورٹ پر 12گھنٹے نہیں گزار سکتا۔ سخت تھکا ہوا ہوں اور اگلی پرواز بھی دس گھنٹے کی مزید سخت تھکا دینے والی ہے۔ مجھے ہوٹل فراہم کیا جائے‘‘۔ میں نے دونوں پروازوں کے بورڈنگ پاس اس کے سامنے لہرائے۔ اس نے ایک قہر آلود نگاہ مجھ پر ڈالی۔ ایک مکمل نگاہ جو جامع تو تھی ہی مگر مانع اس سے بھی زیادہ تھی۔ کچھ بڑبڑاتے ہوئے اس نے کمپیوٹر پر میرا بکنگ نمبر چیک کیا۔ کچھ حساب کتاب کیا۔ اچانک ایک آسودہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ ''ہم آپ کو ہوٹل نہیں دے سکتے۔ قاعدے کے تحت 12 گھنٹے ٹرانزٹ کے مسافروں کو ہوٹل فراہم کیا جاتا ہے جبکہ آپ کا ٹرانزٹ گیارہ گھنٹے پینتالیس منٹ بنتا ہے‘‘ اس نے پُر مسرت لہجے میں کہا۔ حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس سے قبل کہ اس سنگ دلی پر میرے آنسو نکل آتے‘ مجھے کچھ یاد آیا۔ ''مگر لاہور ایئر پورٹ پر ایئر لائنز کے عملے نے مجھے کہا تھا کہ آپ کو ٹرانزٹ کے دوران ہوٹل فراہم کیا جائے گا‘‘۔ ''تو پھر آپ فون کرکے لاہور کے عملے سے ہوٹل مانگ لیں‘‘ بے رحم حسینہ نے بے مروتی سے کہا۔ ایک اچھی آرام دہ نیند کے میرے خواب چکنا چور ہوکر میرے دل میں کرچیاں چبھو رہے تھے۔ ''یہ تو زیادتی ہے۔ آپ کچھ نہیں کرسکتیں؟‘‘ میں نے آخری کوشش کی۔ ''میں آپ کو صرف کھانے کے کوپن دے سکتی ہوں۔ پہلا کوپن ابھی لے لیں۔ پھر اگر چار گھنٹے بعد دوبارہ بھوک لگے تو دوبارہ یہیں آئیے گا۔ ہمارا قاعدہ ہے کہ ایک وقت میں کھانے کا صرف ایک کوپن دیتے ہیں‘‘۔ اس نے بات ختم کرتے ہوئے میرے پیچھے کھڑے مسافر کو بلایا۔ جو مجھ سے زیادہ اس حسینہ سے مکالمے کا خواہش مند تھا۔
ایک بات یاد رکھیں۔ قاعدوں کا جو پہاڑہ سنگ دل حسینہ نے مجھے سنایا تھا‘ اس سے صرف دو قاعدے برآمد ہوتے تھے اور وہ یہ کہ بے مروتی کسی خاص قوم‘ کسی ایک ایئر لائنز کی میراث نہیں ہوتی۔ اور دوسرا یہ کہ سنگ مرمر سے بنی ہوئی حسینہ کا دل سنگِ اسود سے بنایا جاتا ہے۔
ایک ایسے مسافر سے یہ بے لحاظ بے مروت سلوک‘ جو رات بھر کا جاگا ہوا ہو‘ بھوک سے ناتوانی کا شکار ہو‘ بارہ گھنٹے انتظار سے گزر رہا ہو اور گیارہ گھنٹے کی پرواز اس کی منتظر ہو‘ سراسر ظلم ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ کون سا ہم پر زندگی میں پہلی بار ظلم ہوا تھا۔ مجھے جالب کا شعر یاد آیا:
اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا
خواجہ آتش۔ یہ کیا کہا آپ نے۔ ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے۔ آپ کا یہ شعر نہیں‘ ایک دوسرا مصرع اس عہد میں زیادہ درست لگتا ہے
ہزار راہ زن امیدوار راہ میں ہے
یقینا آپ نے راہ زن اسی زنِ راہ کو کہا ہوگا لیکن یہ بدتمیز تو اس سے زیادہ سخت لقب کی حقدار تھی۔ کیا اسے زنِ ناکردہ کار نہیں کہا جا سکتا؟ خواجہ! اس مسئلے پر میرے نقطۂ نظر سے ہمدردانہ غور فرمائیں۔ کھانے کا کوپن ہاتھ میں پکڑے فوڈ چین کا رخ کرتے میں نے خواجہ کو پھر مخاطب کیا۔ کرچیاں بہت زور سے پھر چبھیں۔ اور اب یہ گھنٹوں چبھتی رہنے والی تھیں۔