آپ خود انصاف کیجیے کہ جب آپ کو لگ بھگ 13گھنٹے کسی ایئر پورٹ پر گزارنے پڑیں‘ آپ تنہا ہوں‘ وائی فائی صرف ایک گھنٹے کا ملتا ہو اور گیارہ گھنٹے کی تھکا دینے والی فلائٹ آپ کے سامنے منہ چڑا رہی ہو‘ تو انسان خوش مزاجی کیسے بحال رکھے؟ صرف خوش مزاجی ہی نہیں بلکہ اپنی توانائی بھی۔ اگر کوئی ہم سفر ہو تو ایسے میں آپ اس سے اور وہ آپ سے بار بار لڑے۔ میں نے اس بارے میں سوچا تو اپنا اکیلا پن ہی نعمت لگنے لگا۔ کم از کم مجھ سے کوئی جھگڑ تو نہیں رہا۔ میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک کا یہ سراسر ظالمانہ رویہ ہے کہ وہ مسافر سے وائی فائی‘ سامان کی ٹرالی اور کھانے‘ پینے تینوں کے لیے کافی پیسے خرچ کرواتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ مجبوری میں یہ مسافر پیسے خرچ کرکے انہی کے حوالے کرے گا۔ وہ ٹرالی‘ وائی فائی جو پاکستان جیسے ترقی پذیر یا کم حیثیت ملکوں میں مفت ہے‘ امیر ملک انہیں بھی پیسے سمیٹنے کا دھندا بنا لیتے ہیں۔ استنبول ایئر پورٹ پر بھی ایسا ہی ہے۔ ایک تو ایئر پورٹ اتنا بڑا ہے کہ چلتے چلتے جی چاہتا ہے کہ بندہ دھرنا دے کر بیٹھ جائے۔ وائی فائی چاہیے تو پہلے چل پھر کر اس کی مشینیں تلاش کیجیے۔ استنبول ایئر پورٹ پر وائی فائی کے لیے کیوسک (Kiosk) مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ آپ اپنا پاسپورٹ ایک دراڑ میں اوپر ڈال کر نیچے تک کھینچئے‘ یعنی سویپ (swap) کیجیے‘ مشین اسے سکین کرکے ایک گھنٹہ وائی فائی مفت یا مزید گھنٹے خریدنے کی صورتیں آپ کے سامنے پیش کردے گی۔ ہم ٹھہرے مفتے‘ سو کوئی ارادہ نہیں تھا کہ اپنی جان و دل سے عزیز تر کمائی مشین کے سپرد کردیں۔ ایک گھنٹہ حاصل کیا‘ خوش وقت ہوئے اور چل نکلے۔ لیکن بھئی! گزارنے تو تیرہ گھنٹے تھے‘ اس زیرے سے اونٹ کی کیا تسلی ہوتی۔ ایئر لائن کے کھانے کا کوپن مل گیا تھا‘ سو فوڈ کورٹ کا رخ کیا۔ سات آٹھ فاسٹ فوڈ طعام گاہیں تھیں‘ لیکن ان میں صرف دو ہی جزوی مہربان ہوئیں۔ دونوں نے ایک ایک خاص مینو کی طرف اشارہ کردیا کہ میاں! اس کوپن پر تو یہی مل سکے گا۔ باقی کسی پر دل للچا رہا ہو تو بٹوہ نکالو۔ ہم ایک اڑیل‘ اس لیے ان دونوں کے علاوہ تیسرا مینو پسند کیا جو انہیں بہرحال دیتے ہی بنی۔ فاسٹ فوڈ کوئی خاص پسند نہیں لیکن توانائی تیزی سے خرچ ہورہی ہو‘ آنکھوں کے سامنے ترمرے ناچنے شروع ہو چکے ہوں۔ اور کھانا اپنے پلے سے نہ ہو تو پھر فاسٹ فوڈ میں بھی ایک دم دل لگنے لگتا ہے۔ کھانا کھایا اور ایک کاؤچ پر ڈھیر ہوکر ایک گھنٹہ وائی فائی میں سے بچا ہوا وقت خرچ کرنا شروع کردیا۔ ایک گھنٹہ ہوتا ہی کتنا ہے۔ منٹوں میں گزر بھی گیا اور پھر وہی بیکاری۔ میرا کئی بار کا تجربہ ہے کہ دورانِ سفر بہت سے وائی وائی کنکشنز میں سے کوئی ایک آدھ ایسا مل جاتا ہے جس پر پاس ورڈ کی ضرورت نہ ہو۔ تلاش پر ایک ایسا ہی کنکشن‘ جو کسی ایئر پورٹ لاؤنج کا تھا‘ مجھے مل گیا۔ بس پھر کیا تھا‘ مزے سے اس سے جڑا اور دنیا سے پھر جڑ گیا۔
انتظار تھا کہ بورڈ پر جہاز کے گیٹ کا اعلان ہو تو اس کی طرف جایا جائے۔ سات آٹھ گھنٹے انتظا رکے بعد یہ اعلان ہوا تو پتا چلا کہ یہ گیٹ بہت دور ہے۔ لہٰذا سکون سے بیٹھیے مت‘ مزید چلئے۔ شاید استنبول ایئرپورٹ کے مسافر کے لیے یہ شعر کہا گیا تھا؛
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا چلنا، مدام چلنا
اسی سال مارچ میں جب استنبول ایئر پورٹ سے امریکہ گیا تھا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ گیٹ پر ایسی سخت تلاشی کی جاتی ہے کہ انسان خود کو مفرور مجرم سمجھنے لگتا ہے۔ اس بار بھی صورت حال وہی تھی۔ لبوں پر مسکراہٹیں لیے مگر خونخوار نظروں سے دیکھتے سکیورٹی عملے نے جامہ و سامان تلاشی لی اور صرف کپڑے اورکتابیں نکلنے پر خاصا مایوس نظر آیا۔ ایک نے میری دواؤں کا بیگ کھولا اور اس میں سے داڑھی مونچھیں تراشنے والی بہت چھوٹی قینچی برآمد کرکے مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔ ''یہ کیا ہے‘‘؟ اس نے پوچھا۔ اس لغو اور احمقانہ سوال کا جواب دینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی‘ سو میں بھی منہ سے کچھ نہیں بولا اور اس کی بڑی بڑی مونچھوں کی طرف اشارہ کردیا۔ وہ خوش نہ ہونے کے باوجود قائل ہوگیا اور قینچی دوبارہ بیگ میں ڈال دی۔ لیکن میں سوچتا رہا کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو کیا وہ پھر بھی قائل ہو جاتا؟
اب صرف جہاز پر بورڈنگ کا انتظار تھا۔ مسافر مسلسل آرہے تھے۔ ایک نوجوان خاتون جو شکل سے عرب لگتی تھی‘ اپنی ایک سالہ بچی کے ساتھ آئی‘ اس کے دونوں ہاتھوں میں سامان تھا اور کچھ پیکٹس جو اس سے سنبھل نہیں رہے تھے۔ بچی بھی مسلسل روئے جارہی تھی۔ ان سب کو سنبھالتے سنبھالتے وہ جب میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھی تو اس کے ایک دو پیکٹ راستے میں گر چکے تھے جن کا اسے احساس نہیں ہوا تھا۔ اس کی پیاری سی بچی نشست پر بیٹھتے ہی چپ ہوگئی تو اس نے سکون کا سانس لیا۔ میں اٹھا۔ وہ پیکٹ اٹھا کر اسے دیے اور نسبتاً بھاری بیگ اٹھاکر نشست پر رکھنے میں اس کی مدد کی۔ اس نے میری طرف متشکرانہ نظروں سے دیکھا اور شکریہ کہا۔ میرا اندازہ درست تھا‘ وہ عرب تھی۔ اس نے میرا تعارف پوچھا اور پاکستان کا نام سنتے ہی کھل اٹھی۔ ''واہ پاکستان! میرے بہت دوست ہیں پاکستانی اور میرا شوہر تو پاکستانی کھانوں کا دیوانہ ہے۔ پاکستانی بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں‘‘۔ اس نے اپنائیت سے کہا۔ اب میرے کھل اٹھنے کی باری تھی۔ دیارِغیر میں کوئی اجنبی اور غیرپاکستانی‘ ہمارے ملک‘ ہمارے لوگوں کی اس طرح تعریف کرے تو کتنی خوشی ہوتی ہے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے؟ اس کا نام روعہ تھا اور وہ شام کے ایک بڑے شہر حمہ سے تھی۔ اب بہت مدت سے اپنے عراقی شوہر کے ساتھ نیو جرسی میں رہتی تھی اور دبئی سے اپنے گھر واپس جارہی تھی۔ ہم نے ایک یادگاری تصویر کھنچوائی اور ایک دوسرے کے نمبر حاصل کیے۔ بورڈنگ شروع ہوئی تو اس نے ایئر ہوسٹس سے کہہ کر سیٹ میرے ساتھ کروالی۔ وہ پاکستان سے بہت محبت کرتی تھی۔ میں نے باتوں باتوں میں شام کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ ''اب تھوڑا امن ہے لیکن شہر بہت اجڑ گئے ہیں اور لوگ ملک سے ہجرت کرکے مختلف ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ ہمارے شہر میں بجلی سرے سے ہے ہی نہیں اور جنہیں چاہیے وہ جنریٹر پر مجبور ہیں۔ بے حد مہنگائی ہے اور ملازمتیں نایاب۔ حکومت کو اس کی پروا نہیں کہ لوگ کس حال میں ہیں۔ ہمارے لوگ مر گئے‘ ہمارے خاندان بکھر گئے‘ ہم دنیا میں مہاجر بنے ٹھکانے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ میں اپنے خاندان‘ اپنے ملک کو بہت یاد کرتی ہوں لیکن وہاں جانا نہیں چاہتی‘‘۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں بھی آنکھوں میں نمی لیے گم سم بیٹھا تھا۔ مہاجرت اور دربدری جو چکھتے ہیں‘ انہیں ہی اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ ''آپ پاکستانی بہادر لوگ ہیں۔ ڈٹ جاتے ہیں اور اپنی سلامتی پر سودا نہیں کرتے۔ آپ عراق اور شام کے حکمرانوں کی طرح جھکنے والے لوگ نہیں ہیں‘‘۔ روعہ کہہ رہی تھی۔ میں نے روعہ سے کچھ نہیں کہا لیکن سوچ رہا تھا کہ کاش اس کی یہ باتیں میرے ہم وطن بھی جان لیں جن کا وظیفہ رات دن اپنی مٹی‘ اپنے لوگوں کو برا بھلا کہنا اور دنیا میں سب سے بدبخت ثابت کرنا ہے۔ ''روعہ! آپ کے نام کا مطلب کیا ہے؟‘‘ میں نے بات بدلنے کی کوشش کی۔ ''اس کا مطلب ہے پیارے خواب‘‘۔ وہ مسکرائی۔ میں سوچنے لگاکہ کیا یہ لفظ میں نے پہلے سنا ہے۔ وہ میرا تذبذب سمجھ گئی۔ بولی ''کیا آپ نے رویاء کا لفظ سنا ہے‘‘۔ ''ارے ہاں! یہ تو میں خوب جانتا ہوں۔ اس کا تو مطلب ہے خواب‘‘۔ ''بس میں وہی خواب ہوں‘‘۔ وہ ہنس کر بولی۔
روعہ تم واقعی ایک خواب ہو۔ استنبول اور نیو جرسی کے بیچ دیکھا جانے والا ایک خواب۔ زندگی میں ایک بار چند گھڑیوں کے لیے دیکھا جانے والا خواب۔