ایک آدمی کی تلاش ہے جو غیر متنازع بھی ہو‘ صائب الرائے بھی‘ سب جماعتوں کے لیے قابلِ احترام بھی اور غیر جانبدار بھی۔ ایک آدمی‘ صرف ایک آدمی چاہیے جو کناروں کو ملانے کے لیے پل کا کام کرے۔ لیکن وہ ایک آدمی ہی تو نہیں مل رہا۔ غیر متنازع‘ غیر جانبدار‘ صائب الرائے‘ قابلِ احترام۔ بظاہر یہ صفات آسان لگتی ہیں لیکن بائیس کروڑ کے اس ملک میں ایک آدمی ایسا نہیں مل رہا۔ قحط الرجال اور کسے کہتے ہیں؟ دریا کے دو کناروں کو ملانے والا پل کسی ایک کنارے کا نہیں ہوا کرتا۔ دونوں کنارے اسے مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں۔ اس کی اہمیت اور اس کے کام کا ادراک کرتے ہیں‘ اور اسے ضائع نہیں ہونے دیتے۔ اس سے قطع نظر کہ دوسرے کنارے سے ان کی کتنی دوری ہے۔ اس وقت بپھرے دریا پر کوئی پل نہیں ہے۔ اس بائیس کروڑ کے ملک میں ہے کوئی ایسا آدمی جودوریوں کو ملا دے۔ حفاظت سے پار اتارنے کا کام کردے؟
میرے عظیم المرتبت دادا حضرت مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے‘ اور اسی طریقے پر ان کا عمل تھا‘ اور یہی طریقہ انہوں نے اپنے سیکھنے والوں کو بتایا تھا کہ عالم دین کو غیر جانبدار‘ غیرمتنازع ہونا چاہیے۔ اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہونے چاہئیں۔ اس سے ملنے‘ اس سے استفادہ کرنے میں کسی کو جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے جو ایک عام آدمی‘ صحافی‘ ڈاکٹر‘ سیاست دان وغیرہ کو اس تک پہنچنے نہ دے۔ الفاظ میرے سہی‘ لیکن ان کی بات کا مفہوم یہی تھا؛ چنانچہ دینی طبقات میں یہ سلسلہ نسل در نسل چلا آتا ہے اور الحمدللہ اب بھی ان صفات کے حامل علما موجود ہیں۔ لیکن کیا سیاست میں بھی ایسا ہی ہے؟ کیا کوئی سیاست دان ہے جو صائب الرائے بھی ہو‘ محب وطن بھی اور غیر جانبدار بھی؟ میں تلاش کرتا ہوں اور اپنا بچپن یاد کرتا ہوں۔
ذرا1973 ء میں واپس چلیے اور اس سال کے بیچوں بیچ کھڑے ہوکر چاروں طرف کا جائزہ لیجیے۔ دو سال پہلے ملک دو لخت ہو چکا ہے۔ باقی ماندہ کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت موجود ہے۔ ہندوستان اپنی فتح کے جشن منا رہا ہے اور باقی پاکستان کو ترنوالہ جانتا ہے۔ وہ ایٹمی طاقت بننے سے صرف ایک سال دور ہے۔ ادھرملک کا کوئی دستور ہے ہی نہیں۔ جو تھا وہ آمر روند کر پھینک چکے۔ مرکز‘ پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ذہنیت حزبِ اختلاف کو ڈرائے ہوئے ہے۔ بلوچستان میں فوجی ایکشن ہورہا ہے۔ خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کی صوبہ سرحد میں طاقت موجود ہے اور وہ بھٹو کے سخت مخالف ہیں۔ مولانا مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں اور صوبے اور مرکز کی آپس میں ٹھنی ہوئی ہے۔ مخالفت ہی نہیں‘ نفرت اس حد تک موجود ہے کہ مخالفین کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے ایوان اسمبلی سے باہر پھنکوایا جاتا ہے۔ حزبِ مخالف میں بھی باہم رنجشیں اور بد اعتمادیاں موجود ہیں۔ ہر ایک ملک کے لیے فکر مند ہے لیکن اپنی اپنی سوچ کے ساتھ اور اپنے اپنے تحفظات کے ساتھ۔ ملک کے سامنے جو مسائل کا پہاڑ ہے وہ ایک طرف اور یہ بھیانک حقیقت ایک طرف کہ ملک کا کوئی آئین ہی نہیں ہے۔ ایسے میں جب اسمبلیوں میں جوتم پیزار چل رہی ہو‘ دستور اور وہ بھی متفقہ دستور کیسے بنے اور کون بنائے۔
ملک میں بہت سے غیر متنازع‘ غیر جانبدار لوگ موجود ہیں جو اس کشتی کو گرداب سے نکالنا چاہتے ہیں لیکن وہ سیاست اور اسمبلی میں موجود نہیں ہیں۔ نگاہیں اس وقت بھی ان لوگوں کو تلاش کرتی ہیں جو پل کا کام کر سکیں۔ مولانا ظفر احمد انصاری ایک ایسے ہی آدمی ہیں۔ کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی بھی ہیں اور قیام پاکستان کے زمانے میں سرگرم رکن بھی۔ انہیں فکر ہے کہ دستور سازی اس وقت نہ ہو سکی تو ملک کا شیرازہ مزید بکھر ے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ دستور متفقہ طور پر منظور ہو۔ تمام صوبے‘ تمام جماعتیں‘ تمام نظریات اس دستور پر متفق ہوں۔ یہ اساس ہے اور عمارت کی پائیداری اسی پر استوار ہوگی۔
میں اس وقت بہت کم عمر تھا لیکن چونکہ مولانا انصاری ہمارے گھر ایک مستقل مہمان ہوا کرتے تھے۔ اس لیے میں بہت سے معاملات کا چشم دید گواہ بھی ہوں۔ جناب ظفر احمد انصاری سرکاری قیام گاہیں چھوڑ کرہمارے گھر رہا کرتے تھے اور اس لحاظ سے ہمارے گھر کے ایک فرد سمجھے جاتے تھے۔ ان سے ملنے ان سے سیکھنے والے تو ہر دور میں بکثرت ہمارے گھر آیا کرتے تھے لیکن دستور سازی کے زمانے میں ان ملاقاتوں میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ ایک طرف اسمبلیوں میں سخت مخالفت کی فضا تھی دوسری بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ ان کا نام تاریخ میں ایک دستور ساز حکمران کے طور پر لکھا جائے۔ وہ اس منزل سے گزرنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں موبائل کا کیا سوال‘ لینڈ لائن فون بھی کم کم ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں وزیراعظم بھٹو صاحب‘ وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب سمیت پیپلز پارٹی کے بڑے رہنماؤں کے فون ہمارے گھر مستقل آیا کرتے تھے۔ مشورے دیے اور لیے جاتے تھے اور مشکل راستوں میں راہیں تلاش کی جاتی تھیں۔ جماعت اسلامی‘ جمعیت العلمائے اسلام‘ مسلم لیگ سمیت جماعتوں سے مسلسل رابطہ رہتا تھا۔ یقینا اور لوگ بھی ایسے رہے ہوں گے جو جوڑنے کا یہی کام اس زمانے میں کر رہے ہوں گے لیکن میں اس بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب دستور پر سب کے دستخط ہوئے اور وہ نافذ العمل ہوگیا۔ انصاری صاحب اس کے بعد پہلی بار لاہور آئے تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔وہ مبارک دے رہے تھے اور وصول کر رہے تھے۔ایک بہت بڑا مرحلہ بخیر و خوبی انجام تک پہنچ گیا تھا۔
اب آپ جولائی 2022ء میں واپس آجائیے ۔تختِ لاہور بالآخر چودھری پرویز الٰہی کے قبضے میں آگیاہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی ایک دوسرے سے کھلی مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں ایک ایسے سنگین دور کا آغاز ہونے کے اندیشے ہیں جس میں پنجاب اور کے پی کے مل کر مسلسل مرکز سے محاذ آرائی کریں گے۔وفاقی وزیر داخلہ پنجاب میں گورنر راج لگانے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ خود مرکز میں صدر اور وزیر اعظم ایک دوسرے کے حریف ہیں۔اس لیے مرکز کے اندر بھی کشاکش چل رہی ہے۔حریفوں کی بات تو چھوڑ دیجیے خود حلیفوںکو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد نہیں ۔ عمران خان کو مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت یہودی ایجنٹ کہتی ہے اور نام سننا تک گوارا نہیں ۔عمران خان اپنے سو اہر ایک کو چور ڈاکو سمجھتے بھی ہیں اور مسلسل کہتے بھی رہتے ہیں۔وہ شہباز شریف سے ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں ۔ ملک کے حالات یہ ہیں کہ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک جو معاشی بد حالی کی ڈھلوان پر تیزی سے لڑھکتا جارہا ہے‘ پاتال میں جا گرے گا۔صنعتکار اور تاجر ہاتھ جوڑ جوڑ کر سیاسی رہنماؤں سے ہوش کے ناخن لینے کی التجائیں کر رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ رہی ہے کہ آرمی چیف کو امریکی سیکرٹری سے آئی ایم ایف کی قسط جاری کرنے کے عمل کو تیز کرنے کی درخواست کرنا پڑ رہی ہے ۔ مہنگائی کا عفریت بہت کچھ ہڑپ کرچکا اور باقی کے درپے ہے۔لوگ سکتے میں ہیں ‘ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہونے والا ہے او رکون انہیں اس گرداب سے نکالے گا۔
میں بھی ایک سکتے میں یہ سب مناظر دیکھ رہا ہوں اور میری نظریں ایک ایسے سیاست دان کو ڈھونڈ رہی ہیں جو غیر جانبدار بھی ہو‘غیر متنازع بھی ‘ صائب الرائے بھی اور سب کیلئے قابلِ احترام بھی ۔اور مجھے وہ ایک آدمی نہیں مل رہا ۔رومی یاد آتے ہیں ،گفت آنکہ یافت می نشودآنم آرزوست(اس نے کہا کہ وہ جو نہیں ملتا مجھے اسی کی آرزو ہے)