"SUC" (space) message & send to 7575

کرسی سے اترنے کے بعد

خان صاحب قومی اسمبلی کی چھ نشستیں جیت گئے لیکن میرے ذائقے کی تلخی ختم نہیں ہوسکی۔ جو بات ہمیشہ میرے منہ کا ذائقہ تلخ کردیتی ہے‘بلکہ اشتعال کی اس کیفیت میں پہنچا دیتی ہے جہاں ناملائم الفاظ نکل جانا بعید نہیں ہوتایہ ہے کہ کرسی سے اترنے کے بعد کسی بڑے عہدے دار کا بہادربننا اور واعظ کی مسند سنبھال لینا‘ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا۔ وہ بڑے افسر‘ وزیر‘ عہدے دارجو فیصلہ ساز نشستوں پر مدتوں براجمان رہے‘جب ایک طرف ملک و قوم پر برس رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ایک لفظ اس بارے میں بتانا پسند نہیں کرتے کہ ان کے دور میں‘ان کی مزعومہ قابلیت‘صلاحیت اور دیانت کے ہوتے ہوئے ان کی وزارتیں‘ شعبے‘ اور ادارے پاتال میں کیسے لڑھکتے گئے۔وہ تمام انقلاب آفریں تجاویز‘جاودگر منصوبے اور ملک کا قالب بدل دینے والے کام ان کے دور میں کہاں تھے۔یہ سب ان کے بعد ہی کھمبیوں کی طرح کیوں اُگتے ہیں ؟جب وہ رہنماؤں اور فیصلہ سازوں کو مشورے دے رہے ہوتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ ان کا گریبان پکڑ کر پوچھا جائے کہ وہ کون سے ناگزیر معاملات تھے جن کی وجہ سے آپ اس صراطِ مستقیم پر نہیں چل سکے تھے جن کی تلقین دوسروں کو کی جارہی ہے۔
عمران خان صاحب نے بھی اب آکر وہ مکا لہرایا ہے جو بعد از وقت ہے۔ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا عموماً اپنے منہ پر لگتا ہے یا اپنے ساتھیوں کے منہ پر۔ لڑائی کا دورانیہ بھی ختم ہوچکا ہوتا ہے اور مقابل بھی وہاں سے جاچکا ہوتا ہے ؛چنانچہ یہ مکا اپنے ہی منہ پر لگاہے لیکن مکے کی چوٹ اتنی تکلیف دہ نہیں جتنی تکلیف دہ یہ بات ہے کہ ایک ایک کرکے وہ تمام باتیں درست ثابت ہوتی جارہی ہیں جن کا خان صاحب اور تحریک انصاف مسلسل انکار کرتے آئے تھے۔خان صاحب بھی موم کا ایک دیو قامت مجسمہ نکلے۔احسان دانش کا شعر ہے
کل دھوپ کے میلے سے خریدے تھے کھلونے
جو موم کا پتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا
اس بیان کے بعد کس منہ سے خان صاحب یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ میں ڈکٹیشن نہیں لیتا‘ اپنی رائے اور اپنی طاقت پر بھروسا کرتا ہوں‘ کیسے ان کی اس بات کا یقین کیا جائے کہ میں امپائر کو ساتھ ملا کر نہیں کھیلتا۔ کیسے یہ مانا جائے کہ وہ نظام بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے واحد سیاست دان ہیں۔ ایک عام پاکستانی کا تصور کریں جو عمران خان کا مداح بھی ہے اور ان سے بھرپور توقعات لگائے ہوئے ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ عمران خان کسی کی ناجائز بالادستی قبول نہیں کرتے۔وہ اپنے کام کے لیے کسی سے ہدایات نہیں لے سکتے۔وہ کٹھ پتلی نہیں بن سکتے اور سب سے بڑی بات کہ وہ امپائر کو ساتھ ملا کر نہیں کھیل سکتے۔کرکٹ کے دنوں میں بھی وہ چیئر مین پی سی بی تک کی دھونس اور ناجائز مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔ عمران خان کی یہ خصوصیت کروڑوں لوگوں کو ان کا مداح بنائے ہوئے تھی۔ کرکٹ کا زمانہ بھی کافی پیچھے رہ گیا۔خان صاحب کی سیاست کے دنوں پر آ جائیے۔ کتنی بار ہم نے سنا کہ پرویزمشرف نے خان صاحب کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی لیکن خان صاحب نے جن وجوہات پر اسے رد کیا ان میں کٹھ پتلی حکومت کے کردار سے انکار بھی تھا۔سچ یہ ہے کہ مقتدر حلقوں سے ان کے گٹھ جوڑ کا راز اس وقت فاش ہونا شروع ہوگیا تھا جب انہوں نے 2014ء کے دھرنے کا فیصلہ کیا تھا اور ان کے قریبی ساتھی جاوید ہاشمی نے پریس کانفرنس کرکے ساری کہانی واضح کر دی تھی۔ اس کے بعد سے خان صاحب نے پے در پے وہ فیصلے کیے جو ساری عمر میں ان کی ڈکٹیشن نہ لینے کی عادت کے متضاد تھے حتیٰ کہ 2018ء کے انتخابات کا وقت آگیا اور ہر طرف سے یہ آوازیں سنائی دینے لگیں کہ پی ٹی آئی کے مخالف امیدواروں کو ہموار کرنے کے لیے ترغیب و ترہیب کی ساری طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔ پی ٹی آئی جیت کر اسمبلی میں سب سے بڑی طاقت بن گئی لیکن اس طرح کہ ایوان میں عمران خان پر سلیکٹڈ کی پھبتی چپک کر رہ گئی۔سچ یہ ہے کہ اس کا جواب خان صاحب کے پاس تھا بھی نہیں کہ نادیدہ طاقتوں کی مدد سے کرسی پر بیٹھنا ان کے اپنی سابقہ روایات اور بیانات سے کیسے لگا کھاتا ہے۔عمران خان اقتدار تک تو پہنچ گئے لیکن اس طرح کہ ایوانوں میں ان کی نیّا ڈانواں ڈول تھی۔ چند نشستوں کی اکثریت بھی بھلا اس ملک میں کوئی اکثریت ہوسکتی ہے جہاں امیدواروں کی جھولی میں ہر وقت ہر پارٹی کے جھنڈے رہتے ہوں۔ کیا خبر کس وقت کس کی ضرورت پڑ جائے۔ قومی اسمبلی میں اکثریت اس مصرعے کی طرح تھی کہ ہر چند کہیں کہ ہے‘نہیں ہے۔ ذرا سی اونچی لہر اس کشتی کو کسی وقت بھی الٹا سکتی تھی۔ یہ بندو بست کہ پی ٹی آئی زیادہ طاقتور نہ بن پائے‘کیا گیا تھا یا اتفاق سے ایسا ہوگیا تھا‘خدا ہی جانے لیکن 2022 ء کے اوائل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے بالآخر یہ کشتی الٹا دی اور یہ رائے یقین کی حد تک مستحکم ہوگئی کہ شروع ہی سے اس کمزور بنیاد کا اہتمام کیا گیا تھا۔یہ اتفاقات کا کرشمہ نہیں بلکہ اختلافات کا نتیجہ تھا۔
لیکن یہ اختلافات کے معاملات تو بعد میں شروع ہوئے۔ آپ 2018ء سے وزراء اور خود عمران خان کے وہ مسلسل راگ اور اونچی سُروں کے الاپ یاد کریں جن میں ہر روز یہ بتایا جاتا تھا کہ حکومت اور ادارے ایک ہی صفحے پر ہیں۔ سب اچھا ہے کی ہر وقت گردان کرنے والے اس وقت یہ بتایا کرتے تھے کہ ہم کتنے بااختیار ہیں‘ اور کتنے بڑے فیصلہ ساز۔ جو کوئی بہتر کام نظر آیا اس کا سہرا حکومت کے سر باندھا گیا۔ بھول کر بھی یہ جملہ کہیں سنا نہیں گیا کہ عمران خان اصل حاکم نہیں ہیں۔ اصل حکمرانی کسی اور کی‘ اصل فیصلے کہیں اور ہورہے ہیں۔
اور اب خان صاحب کے منہ سے یہ جملے کہ میں تو بااختیا رنہیں تھا۔ میرے پاس طاقت ہوتی تو میرا موازنہ شیر شاہ سوری سے کرتے۔ یہ ایسا شکست خوردہ جملہ ہے کہ اس کے سامنے ضمنی انتخابات میں خان صاحب کی چھ نشستیں جیت لینا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔کہنہ مشق صحافی جناب مجیب الرحمٰن شامی نے بہت درست نکتہ اور سوال اٹھایا ہے کہ جب فی الحقیقت عمران خان کی حکمرانی اور فیصلوں کی طاقت تھی ہی نہیں تو امریکہ کی جانب سے سازش کی کیا ضرورت تھی؟ پھر تو یہ تمام بیانیہ ہی بکھر کر رہ جاتا ہے۔خان صاحب کے جذباتی مقلد خواہ کچھ بھی تاویل کریںیہ بیان دے کر عمران خان اپنے انہی حریفوں جیسے ہوگئے ہیں جو کرسی سے اتر کر یہی بیان دیا کرتے تھے۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا کہ خان صاحب عروج کا زمانہ گزار چکے۔ ہر اصول‘ ہر آدرش‘ہر نظریہ توڑنے کے بعد‘ہر وہ کام کرچکنے کے بعد جن کے الزامات وہ مخالفین پر لگایا کرتے تھے‘ہر اس شخص کو ساتھ ملا لینے کے بعد جسے وہ بدترین القاب سے نواز چکے تھے۔ وہ عمران خان تو بہت سال پہلے بچھڑ چکا جسے سب جانتے اور مانتے تھے۔‘ اب خان صاحب محض اپنی پرچھائیں ہیں اور پرچھائیں کتنی بھی اصل جیسی ہو‘بہرحال پر چھائیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں