لاکھ شکر کیجیے کہ ملک ایک بہت بڑے حادثے اور اس کے بھیانک اثرات سے بال بال بچ گیا۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے میں ٹانگ پر گولیاں یا چھرے لگنے کے باوجود وہ محفوظ رہے۔ خان صاحب کے معالجین کی رپورٹ کے مطابق وہ ذرات آپریشن کے ذریعے نکال دیے گئے ہیں اور انہیں چہل قدمی کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
ایک خبر کی پرتیں‘ چاہے وہ ایک بڑے ہجوم کے بیچ کی خبر ہو‘ آہستہ آہستہ کھلتی ہیں۔ اس میں افواہیں بھی شامل ہو جائیں اور بھانت بھانت کے تبصرے بھی تو معاملات الجھنا فطری ہے لیکن یہ خبر ایسی ہولناک تھی کہ اس کے اثرات اور نتائج کے بارے میں سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ اس پر تو بعد میں بات ہوگی کہ صورت حال اس وقت ہے کیا لیکن پہلے ایک نظر اس پر کہ خدانخواستہ قاتل اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے تو ہمیں کیسی بھیانک صورت حال کا سامنا ہوتا۔ اس میں کیا شک ہے کہ عمران خان ملک بھر کے سب سے زیادہ ہردل عزیز اور مقبول سیاسی رہنما ہیں۔ اندرون و بیرون ملک بہت سے پاکستانیوں کی نظر میں تو ان کا درجہ واحد قابلِ اعتماد لیڈر کا ہے۔ یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ خان صاحب اپنے دور کے ہر مقبول رہنما سے زیادہ مقبول ہیں۔ ایسے مقبول رہنما کی اگر احتجاجی تحریک اور لانگ مارچ کے دوران خدانخواستہ اُس گولی کی وجہ سے سانسیں رک جاتیں تو یہ صورتحال کتنے بڑے بحران کو جنم دے سکتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا آخری دن یاد کیجیے۔ انہیں شہید کر دیے جانے کی خبر ملتے ہی ملک بھر میں چند منٹ کے اندر اندر کیا ہنگامے‘ فساد‘ لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہو گیا تھا۔ میں اس دن کراچی میں تھا۔ میں نے کبھی زندگی میں اس سے پہلے امن و امان کی ایسی بدترین صورت نہیں دیکھی تھی۔ سندھ میں تو خاص طور پر ایک دم آگ لگ گئی تھی۔ اس سے کہیں بدتر صورت حال یہاں بھی پیش آسکتی تھی۔ خان صاحب کے تمام مخالفوں کا نام قاتلوں میں شامل ہو جاتا اور وہ اس داغ کو کبھی مٹا نہ پاتے۔ مقتدر حلقے اور سیاسی حکومت سمیت ہر ایک اپنی صفائیاں پیش کر رہا ہوتا اور یہ صفائیاں کسی کام نہ آرہی ہوتیں۔ ملک میں جو نفرتیں ایک دوسرے کے خلاف اس وقت بھی بام عروج پر ہیں‘ مزید انتہائوں تک پہنچ جاتیں۔ حکومتی افراد کا سڑکوں پر نکلنا محال ہو جاتا اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگ خاص طور پر‘ پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنوں کا ہدف ہوتے۔ ملک جو اس وقت تقسیم در تقسیم اور نفرت در نفرت کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے‘ خدا نخواستہ ایسی خانہ جنگی کا سامنا کرتا جس کے سامنے تمام حفاظتی دیواریں ریت کی دیوار ثابت ہوتیں۔
ہم پاکستانیوں کو سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ملک ایسی صورت حال سے دوچا ر ہونے سے بچ گیا۔ یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ قدرت نے اگر سنبھلنے کا موقع دیا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر بار یہ موقع ملتا رہے۔ ملک اگر مسلسل ایک کھائی کے کنارے پر رہے گا تو ہر وقت اپنا کوئی غلط قدم‘ کوئی غلط فیصلہ یا دشمنوں کی کوئی چال‘ اسے اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔ ضروری یہ ہے کہ ایسی تنگ اور نازک راہ سے نکل کر اس راستے پر پہنچا جائے جہاں کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ملک اور قوم کو خطرے میں نہ ڈالے۔ یہ کام بھی کسی ایک طبقے کا نہیں‘ سب کا ہے ۔ اور اس لیے کہ غلطیاں بھی کسی ایک کی نہیں سب کی ہیں۔
سیاست دان ہوں یا عام افراد۔ غلطیاں سبھی سے ہوئی ہیں۔ اس لیے درست بھی سبھی کو کرنا پڑیں گی۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔ ملک ہے تو یہ وارے نیارے ہیں۔ سب کچھ اسی کی مرہون منت ہے۔ یہ اتنی بڑی حقیقت ہے لیکن اپنی اَنا‘ اپنے زعم‘ اپنی طاقت اور اختلاف کو انتقام بنا دینے کی آگ یہ سب سوچنے سمجھنے نہیں دیتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑے حادثے سے بچا کر قدرت نے ہمیں پھر متنبہ کیا ہے۔ یہ تنبیہ ہمیں پہلے بھی بہت بار ہوئی ہے۔ بار بار مہلت ملنے کی بھی ایک مہلت ہوتی ہے۔ کیا یہ کبھی ختم ہونے والی نہیں؟ کیا مہلت کبھی ختم نہیں ہوا کرتی؟
عمران خان سے‘ ان کی طرز سیاست سے‘ ان کی سوچ سے‘ آپ کو مجھے ہزار اختلاف سہی‘ لیکن اُن کی شخصیت کی دیگر جملہ خصوصیات سے اختلاف نہیں ہو سکتا۔ میں نے اپنی تحریروں میں ان کی کھل کر حمایت بھی کی ہے اور اُن پر تنقید بھی لیکن وہ ایک قیمتی جان ہیں۔ کیا ان کی جان لینا کسی کے فائدے میں جاتا ہے؟ ذرا ایک غیر جانبدار ذہن سے اس قاتلانہ حملے کا تجزیہ کریں کہ ایسا کرنے سے کس طبقے یا کس فرد کا فائدہ ہو سکتا ہے؟ کیا طاقتوروں کا؟ ہرگز نہیں۔ سب سے پہلے تو انگلیاں اسی طرف اٹھتیں۔ اس واقعے کے نتائج سب سے زیادہ تو انہی کو بھگتنا پڑتے۔ سب سے زیادہ خطرے میں وہی پڑتے اور وضاحتیں بھی انہیں ہی دینا پڑتیں۔ تو پھر کیا پی ڈی ایم حکومت کو؟ جو حکومت اقتدار میں ہو وہ اتنا بھیانک خلفشار اپنے دورِ حکومت میں کیوں چاہے گی؟ یہ واقعہ اس کے حق میں کیسے ہوتا؟ سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ اس ممکنہ اقدام کا سب سے بڑا فائدہ کسے ہوتا؟ میں سمجھتا ہوں کہ صرف ملک دشمنوں کو فائدہ ہو سکتا تھا۔ اس سے بڑا فائدہ کسی دشمن کا کیا ہو سکتا ہے کہ طاقتور طبقات آپس میں لڑ رہے ہوں۔ اور ملک کمزور تر ہورہا ہو۔
تحریک انصاف کے لیے بھی اس میں سنبھلنے‘ سوچنے اور سمجھنے کے بہت سے پیغام ہیں۔ اس کا سارا محور ایک فرد یعنی خان صاحب کے گرد ہے۔ خان صاحب کی عدم موجودگی میں ان میں ایک شخصیت بھی ایسی نہیں ہے جس کے گرد لوگ جمع ہو جائیں۔ باہر کے لوگ تو الگ رہے‘ خود پی ٹی آئی کے اندر اتنے اختلافات ہیں کہ کوئی ایک شخص سب کولے کر نہیں چل سکتا۔ ایسے میں اگر کوئی یہ چاہے کہ پی ٹی آئی ہمیشہ کے لیے ملکی سیاست سے ختم ہو جائے تو اسے صرف ایک فرد کومنظر سے ہٹاناہے۔ یہ صورت حال نہ نون لیگ میں ہے‘ نہ پیپلز پارٹی میں‘ نہ قاف لیگ میں‘ نہ ایم کیو ایم میں‘ نہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام میں۔ تحریک انصاف کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ اس لیے اسے اندھی گلی میں جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
جب یہ تحریر آپ کی نظروں سے گزرے گی‘ اس تیزی سے بدلتی صورت حال میں کافی کچھ بدل چکا ہوگا۔ اعتراف جرم کرنے والا شخص اصل ہے یا ڈمی؟ ایک تھا یا ایک سے زیادہ؟ زمین سے کنٹینر پر فائرنگ ہوئی یا قریبی عمارتوں سے بھی؟ یہ سب سوال اپنے جواب مانگتے ہیں۔ اکثر مبصر اور ماہرین یہی کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔ جتنی جلدی اعترافِ جرم کی وڈیو سامنے آئی‘ وہ بذاتِ خود نہایت مشکوک ہے۔ پنجاب پولیس کے دائرہ کار میں یہ جرم ہوا اور علاقہ بھی وزیراعلیٰ پنجاب کاہے۔ اس لیے سب سے بڑی ذمہ داری پنجاب حکومت اور پولیس کی ہے کہ اگر یہ کوئی سازش ہے اور اس کے پیچھے کچھ اور چہرے ہیں تو وہ حقائق سامنے لائیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی پر بہت بڑی ذمہ داری بلکہ میرے خیال میں آزمائش یہ ہے کہ وہ اس موڑ پر ملک و قوم کا پہلے سوچتے ہیں یا سیاسی مفاد کا؟ ایک بڑے سیاسی رہنما کے لیے یہ آزمائش کوئی چھوٹی آزمائش نہیں ہے۔