اُس کیفیت کا اندازہ کریں جب اچھی خبر بھی اچھی نہ لگے بلکہ خنجر چبھوتی ہوئی گزرے۔ آج کل میری طرح بہت سے لوگوں کی یہی کیفیت ہے۔ سمجھ نہیں آتا انہیں اچھی خبریں کیسے کہیں۔ یہ اہلیت جو نااہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ اس پر داد دیں یا برا بھلا کہیں۔ یہ جو نگران حکومت کے اقدامات ہیں‘ انہیں کس کھاتے میں ڈالیں۔ ان کی لیاقت یا اُن کی نالائقی جو یہ سب کرکے چلے گئے تھے۔ آپ جس وزیر اور عہدے دار سے پوچھیں وہ ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈال کر فارغ ہو جاتا ہے اور اس کے بعد داد طلب نظروں سے دیکھتا ہے کہ ہمارے اقدامات کی شاباش تو آپ نے دی ہی نہیں۔
چلئے فیصلہ آ پ کر لیجئے۔ حکومت کے سخت احکامات کی وجہ سے کئی سمت سے خبریں آرہی ہیں۔ خبریں یہ ہیں کہ کرنسی ڈیلرز پر سخت ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ کافی کرنسی ایکسچینجر سیل کردیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے نے فہرست بنا کر ان لوگوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ 257چھاپے مار کر 361افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ غیرقانونی کرنسی ڈیلرز کے خلاف 250مقدمات درج ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ چھاپے خیبر پختونخوا میں مارے گئے ہیں۔ پشاور کی کرنسی مارکیٹ بند کروا دی گئی ہے۔ کوئٹہ میں صرف ایک گھر سے ایک کروڑ ڈالر برآمد ہوئے ہیں۔ ہنڈی اور حوالے کا کام کرنے والوں اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں جاری ہیں۔ ڈالر مسلسل نیچے آرہا ہے۔ کہاں چند ہی دن پیشتر اوپن مارکیٹ میں 322روپے کا ریٹ تھا‘ کہاں آج ہی مجھے ایک کرنسی ڈیلر نے 295روپے کا نرخ بتایا ہے اور اس نرخ پر بھی کوئی خریدار نہیں مل رہا۔ انٹر بینک میں 300روپے نرخ ہے اور سب کی توقع ہے کہ ڈالر کا نرخ اور نیچے آئے گا۔ دل کو بہلانے کے لیے ہی سہی‘ کسی کا یہ بیان بھی پڑھ لیں کہ ڈالر 250تک واپس آسکتا ہے۔ افغان سرحد پر سخت اقدامات کیے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے ڈالرز کی سمگلنگ کم ہو گئی ہے۔ ڈالر کی بے تحاشا خریداری بھی رُک گئی ہے اور ایکسچینج کمپنیاں سٹیٹ بینک کو ڈالرز فروخت کر رہی ہیں۔
بجلی کی طرف آجائیے۔پورے ملک میں بجلی چوروں کے خلاف مہم شروع ہے۔ یہ سمجھ لیجئے کہ کراچی شہر کو بجلی فراہم کرنے والی کے الیکٹرک کے علاوہ باقی پورے ملک میں بجلی کی دس ترسیلی کمپنیاں قائم ہیں جنہیں ڈیسکوز کہا جاتا ہے۔ ان میں ہر ایک میں چوری ہو رہی ہے۔ البتہ چوری کا تناسب مختلف ہے۔ اب ان سب ڈیسکوز میں بجلی چوروں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ بجلی چوروں پر 35کروڑ 20لاکھ روپے کے جرمانے عائد کیے جا چکے ہیں۔ ایک کروڑ دس لاکھ روپے وصول کر لیے گئے ہیں۔ 194افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سیکرٹری پاور ڈویژن کے مطابق آٹھ کروڑ یونٹ بجلی چوری کیے جانے کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ نگران وزیر توانائی کہتے ہیں کہ بجلی کی سالانہ چوری 589ارب روپے ہے۔ پشاور‘ حیدرآباد‘ سکھر‘ کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں جو بجلی فراہم کی جاتی ہے اس میں 60فیصد چوری یا لائن لاسز کی مد میں ضائع ہو جاتی ہے۔ صرف 40فیصد کی رقم حکومت کو واپس ملتی ہے۔ صوبہ سندھ میں شکار پور وہ علاقہ ہے جہاں 82سے 84فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے۔ نگران حکومتی وزیر فرماتے ہیں کہ بجلی چوری کے ایکٹ پر کام ہو رہا ہے‘ دو سے تین ہفتوں میں یہ ایکٹ منظوری کے لیے بھیج دیا جائے گا۔ بجلی چوری کی خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ مزید یہ کہ جو بھی بجلی چوری ہوتی ہے یا ترسیل میں ضائع ہوتی ہے‘ اس سب کا بل ان صارفین کو ادا کرنا پڑتا ہے جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔
تیسری طرف نگاہ ڈالیے تو معاملہ پٹرول کا آپ کے سامنے ہے۔ نگران وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ لگ بھگ تین کروڑ لٹر پٹرول سالانہ پاکستان میں سمگل ہوکر آتا ہے۔ پٹرول کی اس سمگلنگ سے ملک کو سالانہ ساٹھ ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ 995 پمپ ایرانی تیل فروخت کرتے ہیں۔ اس کاروبار میں 90 سرکاری افسران ملوث ہیں اور 29سیاست دان بھی سمگلنگ کا یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ تیل کی سمگلنگ میں سرکاری گاڑیاں بھی استعمال ہو رہی ہیں جبکہ دہشت گرد بھی تیل کی اس آمدن کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مجھے فی الحال ایسی کوئی خبر نہیں ملی جس میں اس رپورٹ کے بعد اس کی روک تھام کے اقدامات کا اعلان کیا گیا ہو۔ یعنی معاملہ ابھی نشستند و گفتند سے آگے نہیں بڑھا۔
یہ سب اقدامات کتنے دور رَس اور کتنے وقتی ثابت ہوں گے‘ کچھ بھی کہنا مشکل ہے لیکن جو ہوتا آیا ہے اس کی بنا پر شاید یہ چند روزہ ہنگامہ ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ان خبروں کو کس کھاتے میں ڈالوں؟ کیا انہیں اچھی خبریں کہہ کر دل خوش کر لوں؟ کیا میں یہ سوال نہ پوچھوں کہ یہ جو ایف آئی اے اس وقت کرنسی ڈیلرز کی پکڑ دھکڑ کر رہی ہے‘ اسی ملک میں برسوں سے قائم نہیں تھی؟ کیا سب کو معلوم نہیں تھا کہ ڈالر پانی کی طرح افغانستان سمگل ہو رہا ہے اور اس کا خمیازہ پاکستانیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے؟ کیا جن کرنسی ڈیلرز کی فہرست بنائی گئی ہے‘ وہ برسوں سے یہیں کام نہیں کر رہے تھے؟ کیا ملک کے اندر اور باہر ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی‘ کوئی ڈھکی چھپی بات تھی؟ یہ سب ادارے‘ یہ سب محکمے کہاں تھے جب ڈالر سینکڑوں کی حدوں کو پار کر رہا تھا۔ اگر انٹر بینک میں ڈالر اس وقت ان اقدامات کی وجہ سے نیچے آسکتا ہے تو پہلے کیوں نہیں آسکتا تھا۔ یہ ایس ڈی او‘ یہ ایکسین‘ یہ لائن مین‘ یہ امیگریشن عملہ یہ ایف آئی اے حکام کیا وہی نہیں ہیں جو عشروں سے اسی جگہ بیٹھے یہ تماشا دیکھتے رہے ہیں؟ اس چوری‘ اس نااہلی‘ اس بددیانتی کا کون ذمہ دار ہے؟ اگر وزیراعظم اور وزرا ہیں تو وہ کیوں ان عہدوں پر ڈھٹائی سے بیٹھے رہے؟ یہ جواب ہر سابقہ و حالیہ وزیراعظم‘ وزیر خزانہ‘ وزیر داخلہ کے ذمے ہے۔ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف زرداری‘ راجہ پرویز‘ یوسف رضا گیلانی‘ عمران خان سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ تمام وزارتوں اور محکموں کے بڑے افسر اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس دور میں جب پٹرول اور ڈالر آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں‘ شہباز شریف اور اسحاق ڈار اس بات کا جواب دیں کہ جب وہ سابق دورِ حکومت میں ملکوں ملکوں اور آئی ایم ایف کے سامنے کاسہ لیے پھر رہے تھے‘ انہوں نے اپنے سرکاری عہدے داروں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا؟ ان سیاست دانوں سے قوم کی گردن کیوں نہیں چھڑائی جو ڈالر‘ پٹرول اور بجلی کی ہر چوری میں ملوث نکلتے ہیں۔ حالیہ دورِ حکومت میں شہباز شریف اور ڈار صاحب کے کتنے ہی بیانات موجود ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے دوست ملکوں سے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے اور خود انحصاری ہی اختیار کرنا پڑے گی۔ انہیں شرم اس بات پر بھی آنی چاہیے تھی کہ ان کے حالیہ اور سابقہ ادوار میں ان کے اپنے سیاست دان اور سرکاری عہدے داران چوریوں میں ملوث تھے‘ جن کی طرف سے آنکھ بند رکھی گئی تھی۔ یہ بات تو ایک ریڑھی والے کو بھی علم ہے کہ سیاست دان اُنہی حکام کے تبادلے کرواتے ہیں‘ سزائیں دلواتے ہیں جو ان کی چوریاں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب جو چوریاں پکڑی جارہی ہیں‘ جو افراد گرفتار ہو رہے ہیں‘ جو مقدمات قائم ہو رہے ہیں‘ جو جرمانے وصول کیے جارہے ہیں۔ تو کیوں اور کس لیے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ اس ملک کو لوٹنے کے لیے سب یکجا ہو جاتے ہیں لیکن سڑکوں کی صفائی سے لے کر چوروں کو پکڑنے تک ہر کام کی ذمے داری سے وہ فارغ ہیں۔ فراغت بھی عیاشی والی۔
مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ ان خبروں کا کیا تاثر لوں۔ ان پر داد دوں یا لعنت ملامت کروں۔ شکریہ ادا کروں یا ہاتھ میں پتھر اٹھاؤں۔ کوئی بتائے کہ ان پر ہنسنا ہے یا رونا ہے؟