تمام رات دھماکے ہوتے رہے۔ توپوں کے گولے گرتے رہے اور مسلسل فائرنگ جاری ہے۔ جو لوگ ہسپتالوں میں لائے جارہے ہیں‘ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی تعداد ان کی مدد سے قاصر ہے۔ بازاروں میں غذا موجود نہیں ہے۔ شمال کا جنوب سے رابطہ مکمل منقطع ہے۔ پورے غزہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں جو محفوظ ہو اور جہاں پناہ لی جا سکے۔ غزہ پر کیا قیامت گزر رہی ہے‘ اس کا اندازہ خبروں‘ وڈیوز اور تصاویر سے بھی نہیں ہو سکتا۔ غزہ کی شمالی پٹی میں قیامت بپا کرنے کے بعد اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کا رُخ کیا ہے۔ خان یونس کا علاقہ جو جنوبی غزہ میں ایک اہم شہر ہے‘ محاصرے میں ہے اور وہاں سے شدت کی لڑائی کی اطلاعات ہیں۔ چند روزہ جنگ بندی کے دوران جس پر اسرائیل اور حماس قطر کی مسلسل کوششوں کے باعث متفق ہوئے تھے اور جس میں فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا تھا‘ اب غزہ پھر بموں اورگولیوں کی آوازوں سے گونج رہا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے بیچ چھڑنے والی تازہ جنگ سات اکتوبر کو شروع ہوئی تھی اور اب ساٹھ دن طویل ہو چکی ہے۔ اسرائیلی کمانڈر نے کہا ہے کہ جنوبی غزہ میں زمینی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلیوی نے کہا ہے کہ ''ہم نے خان یونس کا محاصرہ کر لیا ہے۔ شمالی غزہ میں ہم نے حماس کے اہم ٹھکانوں کو قبضے میں لیا ہے اور اب ہم جنوبی غزہ میں ان ٹھکانوں کو ختم کریں گے۔ جس کسی کو یہ غلط فہمی تھی کہ ہم جنگ بندی کے بعد کارروائیاں ختم کردیں گے‘ وہ اپنی غلطی درست کر لے‘‘۔
حماس کے اسامہ حمدان نے بیروت میں کہا ہے کہ اسرائیلی حملے کے خاتمے تک کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا مقصد دراصل تمام فلسطینیوں کو ملیا میٹ کرنا ہے‘‘۔ حماس کے عسکری بازو القسام بریگیڈ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس پٹی کے تمام علاقوں میں منگل کی صبح سے اسرائیل سے گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے۔ القسام بریگیڈ کے ٹیلی گرام چینل کے مطابق القسام بریگیڈ نے خان یونس کے علاقے میں 24 اسرائیلی گاڑیاں تباہ کرنے اور آٹھ اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک یا زخمی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ خود اسرائیل نے بھی اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے لیکن اصل قیامت عام شہری آبادی پر گزر رہی ہے۔ شمالی غزہ سے سمٹ کر جنوبی غزہ میں پناہ لینے والے دس لاکھ فلسطینیوں کو ایک بار پھر یہاں سے نکلنا پڑ رہا ہے۔ اس گھمسان کی جنگ اور فضائی حملوں میں اب تک 16ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اب یہ سب فلسطینی گھرانے ایک بار پھر سمٹ کر رفح کے علاقے میں ہجرت پر مجبور ہیں جو مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد ہے۔ لگ بھگ پندرہ لاکھ لوگوں کو یہاں ہجرت کرنا پڑ رہی ہے۔ بارش کے دوران لوگ بے سائبان سڑکوں پر پڑے ہیں۔ رفح ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اور یہاں پہلے ہی کافی لوگ موجود ہیں۔ رفح‘ جس کی آبادی دو لاکھ اسی ہزار ہے‘ اس وقت چار لاکھ ستر ہزار سے زیادہ لوگوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ پہلے ہی لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ ان کے پاس پانی اور ضروری حاجات کی سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ اگرچہ رفح غزہ کا جنوبی ترین سرحدی علاقہ ہے لیکن یہاں بھی اسرائیلی فضائی حملے مسلسل جاری ہیں۔ تھامس وائٹ‘ جو اقوامِ متحدہ کے یونائیٹڈ نیشنز ریلیف اینڈ ورکس (UNRWA) کے ڈائریکٹر ہیں‘ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس مزید لوگوں کے لیے سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ جبکہ عدنان ابوحسنہ جو UNRWAکے ترجمان ہیں‘ انہوں نے کہا ہے کہ ''دس لاکھ سے زیادہ مزید فلسطینیوں کی یہاں آمد اور سکونت متوقع ہے۔ پہلے ہی ہزاروں گھرانے سڑکوں پر ہیں جو نائیلون اور لکڑی کے سائبانوں تلے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ ان دنوں یہاں بارشیں ہیں اور تباہی سر پر کھڑی ہے۔ اگرچہ پچاس سے ستر ٹرک روزانہ امداد لے کر رفح کی سرحد سے آرہے ہیں تاہم یہ امداد ہماری ضرورت کے قریب قریب بھی کہیں نہیں ہے‘‘۔ رچرڈ پیپرکرون‘ جو عالمی ادارۂ صحت کے ترجمان ہیں‘ یہ صورتحال بتاتے ہیں کہ ہر گزرتے گھنٹے میں صورتحال ابتر ہورہی ہے۔ جنوبی علاقوں سمیت ہر طرف بمباری ہے‘‘۔ ڈبلیو ایچ او بار بار وارننگ دیتا رہا ہے کہ ان حالات میں کسی بیماری یا بیماریوں کا پھوٹ پڑنا فضائی حملوں سے بھی زیادہ مہلک ہوگا۔ ڈائریا‘ متعدی بیماریاں اور سانس کی بیماریاں پھوٹ پڑنے کا شدید اندیشہ ہے۔
قیامت اور کس آشوب کا نام ہے۔ اور اس سے بڑا آشوب یہ کہ دنیا گم سم یہ تباہی دیکھ رہی ہے اور اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہر ایک کا ضمیر سو رہا ہے اور سب سے زیادہ عالمِ اسلام کا‘ جو محتاط بیانات سے زیادہ کسی اقدام پر قادر نہیں۔ اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ ایسے میں قطر کے حوصلے کی داد دینی چاہیے جو مصلحتوں اور مفادات سے بے نیاز ہوکر دوسروں سے زیادہ کھل کر بات کر رہا ہے۔ دوحہ‘ قطر میں حال ہی میں منگل کے دن منعقد ہونے والی گلف کوآپریشن کونسل (GCC) میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے اسرائیل کو ایک پوری نسل کے قتلِ عام کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ پوری عالمی دنیا کی توہین ہے کہ وہ ان بہیمانہ جرائم کی اجازت دے۔ یہ ایک منظم اور خاص مقصد کے تحت بے گناہ اور غیرمسلح شہریوں کا قتلِ عام ہے۔
معاملہ صرف جنوبی غزہ ہی کا نہیں‘ شمالی غزہ میں بربریت کے ایک طوفان کی لپیٹ میں ہسپتال‘ سکول‘ مساجد وغیرہ سب ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر نے کمال عدوان ہسپتال میں ایک انٹرویو دیا ہے۔ کمال عدوان ہسپتال میں ہزاروں پناہ گزین پناہ کی تلاش میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ''اسرائیلیوں نے ہر طرف سے پورے ہسپتال کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ جتنے لوگ یہاں ہیں‘ وہ خوف و ہراس کی حالت میں ہیں۔ اسرائیلی فوجی یہاں سے زبردستی لوگوں کو نکال رہے ہیں جن میں مریض‘ زخمی اور دربدر افراد سب شامل ہیں‘‘۔ ڈبلیو ایچ او نے بتایا ہے کہ سات اکتوبر سے 28نومبر تک ہسپتالوں پر دو سو تین حملے کیے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی مبصر نے کہا ہے کہ ہسپتالوں میں قتلِ عام فوری بند کیا جائے۔ انڈونیشین ہسپتال‘ جو شمالی غزہ میں تھا‘ اس پر حملوں کے بعد سٹاف کو وہاں سے نکلنا پڑا اور اب وہ جنوب کے ایک سکول میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
ساٹھ دن۔ ساٹھ قیامت کے دن۔ کوئی بھی لفظ اس خوف‘ دہشت اور بے بسی کو بیان کر ہی نہیں سکتا جو اس وقت غزہ میں فلسطینیوں کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ کس کام کی ہے اقوام متحدہ‘ کس مصرف کی ہے سلامتی کونسل‘ کیا فائدہ ہے عالمی عدالتوں کا اور کہاں ہے انسانی ضمیر۔ سب ایک دہشت گرد کے ہاتھوں یا بکے ہوئے ہیں یا یرغمال ہیں۔ اب اس بات میں کوئی شک و شبہ ہے کہ آڑ حماس کو ختم کرنے کی ہے لیکن دراصل فلسطینیوں کو ختم کرنا اصل مقصد ہے۔ ان کی مزید زمین کو ہتھیانا ہے۔ عملاً اسرائیل نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ پوری دنیا‘ دنیا کے ملک‘ عالمی ادارے سب میرے جوتے تلے ہیں‘ کر لو جو کرنا ہے۔ میں وہی کروں گا جو مجھے کرنا ہے۔ دنیا نے حالیہ تاریخ میں ایسی بہیمیت‘ درندگی‘ سفاکی اور بے رحمی کہاں دیکھی ہوگی۔ اور ہوگی بھی تو وہ بھی اسرائیل ہی کے حصے میں آئی ہوگی۔ ہے کوئی جو ننھے بچوں کو بھیڑیوں سے بچالے؟ نہیں کوئی نہیں۔
گریۂ گرگ ہے‘ گونجتی رات ہے‘ کون انسان زادوں کی چیخیں سنے
ننھے بچوں کے خوں میں نہاتے رہے اور روتے رہے رات بھر بھیڑیے
پھر سے یوسف کا ملبوس ہے خوں میں تر اور سعودؔ اب یہ جھوٹا لہو بھی نہیں
اب کے یعقوب کو بھی یقیں آگیا‘ لے گئے اس کا لختِ جگر بھیڑیے