"SUC" (space) message & send to 7575

شکست اور کسے کہتے ہیں

مغربی ذہن‘ یہودی اثر و رسوخ اور مغربی صحافتی تاریخ مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات معمولی نہیں سمجھنی چاہیے کہ اب مسلسل نامور اخبارات اور صحافی اسرائیل اور مغربی دنیا کی اسرائیلی حمایت پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور غزہ کی حالیہ جنگ کو مغرب اور اسرائیل کی مسلسل شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی کم اہم نہیں ہے کہ برطانیہ‘ جہاں یہودی اثر و رسوخ میڈیا پر سب سے زیادہ رہا ہے‘ اب اس کے مؤقر اخبارات بھی وہ مضامین شائع کر رہے ہیں جن میں اسرائیلی غلطیوں کی واضح نشان دہی اور اعتراف کیا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک مضمون معروف برطانوی اخبار دی گارڈین کی 2 جنوری 2024ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے جس کے مضمون نگار Lord Peter Hian ہیں۔ لارڈ پیٹر ہین سابقہ برطانوی وزیر برائے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی آئر لینڈ کے سیکرٹری آف سٹیٹ بھی رہے ہیں۔ ان کے الفاظ میں ''مغربی مشترکہ پالیسی ایک بھیانک ناکامی سے دوچا ر ہے۔ یہ ممکن نہیں ہو گا کہ حماس کو مستقل طور پر ختم کر دیا جائے یا اسرائیل کیلئے سکیورٹی خطرات ختم ہو جائیں‘‘۔ لارڈ پیٹر ہین نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ نیتن یاہو نے بالواسطہ حماس کو مضبوط کیا ہے اور دو ریاستی فارمولے پر مذاکرات سے انکار کرکے اور غزہ کا مکمل اور مستقل محاصرہ کرکے حماس کیلئے موجودہ جنگ چھیڑنے میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ ''حماس کو غزہ کی مستقبل کی حکومت میں حصہ دینا چاہیے اور مغرب کو چاہیے کہ غزہ کی مکمل تباہی کے مناظر دیکھنے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے بجائے حماس سے مذاکرات کرے۔ مذاکرات وہ کام کر سکتے ہیں جو بم نہیں کر سکتے۔ لارڈ ہین کہتے ہیں کہ مغربی رہنماؤں کو ادراک ہونا چاہیے کہ دنیا انہیں دوغلے اور منافق چہروں کی حیثیت میں دیکھتی ہے جب وہ ایک طرف یوکرین کی حمایت کرتے ہیں اور دوسری طرف غزہ کی آبادی کا یہ حق ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار ہے۔ کرۂ ارض کے جنوبی حصے میں تکلیف دہ معاملات گہرے اور وسیع ہورہے ہیں اور بالآخر لندن‘ واشنگٹن اور برسلز کو ایک ایسی صورتحال میں دھکیل دیں گے جس میں دنیا افراتفری اور جنگ کا شکار ہو گی۔ مغربی دنیا اپنی ناکام پالیسیوں کو تباہی سے دوچار ہوتا دیکھنے کے بجائے سعودی عرب‘ حماس‘ ایران‘ اسرائیل‘ عرب امارات جیسے خطے کے اہم ممالک کو ایک کانفرنس میں اکٹھا کرکے یہ دیکھے کہ کیا دو ریاستی فارمولے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ حماس کو مذاکرات میں شریک کرنا چاہیے کہ اس کے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے۔ لارڈ ہین کو یقین ہے کہ غزہ کو تباہ کرکے اسرائیل حماس کو ختم نہیں کر سکتا۔ حماس کو بے شک کافی نقصان بھی پہنچ چکا ہو اور اس کے وسائل مسدود بھی کردیے گئے ہوں لیکن وہ ایک تحریک ہے اور اس کا ایک نظریہ ہے۔ اور نیتن یاہو بالواسطہ اس نظریے کو مضبوط کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اسرائیل کی موجودہ دائیں بازو کی حکومت سات اکتوبر کو اپنے شہریوں کے دفاع میں ناکام رہی ہے اور غزہ پر ظلم و ستم کی انتہا کرکے انہیں اور زیادہ خطرے میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔
اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں بھی جھگڑے کی خلیج واضح ہو چکی ہے۔ امریکی صدر کے مطابق غزہ کا سیاسی مستقبل فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں دینا چاہیے۔ نیتن یاہو یہ بات ماننے سے انکاری ہے۔ اسرائیلی سرکاری کاغذات سامنے آچکے ہیں جس میں وہ فلسطینیوں کو مصر یا اردن کی طرف دھکیل کر غزہ کو مختلف صوبوں یا پٹیوں میں بانٹ دینا چاہتا ہے۔ ہر صوبے پر اسرائیل کا چنا ہوا اور من پسند گھرانہ حکمران ہوگا۔ فلسطینی اتھارٹی نے کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ میں حکومت بنا کر اس کا نظم و نسق چلا سکتی ہے لیکن اس کے فیصلے آزادانہ ہوں گے‘ اسرائیل کے مسلط کردہ نہیں۔
یہ تو لارڈ پیٹر ہین کے مضمون کا خلاصہ تھا۔ گارڈین کی دو جنوری ہی کی اشاعت میں Patrick Wintourکا آرٹیکل بھی شائع ہوا ہے جس میں اس نے لارڈ پیٹر ہین کے اہم نکات کی تائید کی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں بڑ ے اختلاف کی ایک خبر دو جنوری ہی کی ہے جس میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دو اسرائیلی وزیروں کے ان بیانات کو رد کیا ہے جن میں انہوں نے فلسطینیوں کو غزہ سے باہر مصر اور اردن میں بسانے کی بات کی تھی اور غزہ میں یہودی بستیوں کو دوبارہ آباد کرنے کے اعلان کیے تھے۔ ان کی مراد وہ یہودی تھے جو 2005ء میں نکال لیے گئے تھے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ کہا اور یہ بھی کہ غزہ فلسطینیوں کی زمین تھی‘ انہی کیلئے ہے اور رہے گا۔ یہ بیان خود بتاتا ہے کہ اسرائیل کی تاریخی اور غیرمشروط حمایت کے باوجود اس موجودہ جنگ میں امریکہ عالمی دباؤ کے تحت ایک حد سے آگے نہ جانے پر مجبور ہے۔
حماس کے ایک رہنما صالح العروری بیروت میں ایک دھماکے میں شہید ہوئے ہیں اور حزب اللہ نے ان کے قتل کا انتقام اسرائیل سے لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس حملے میں ان کے ساتھ القسام بریگیڈ کے دو اور رہنما سمیر فندی اور عزام الاقرا بھی شہید ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے اس حملے کی ذمہ داری تاحال قبول نہیں کی ہے‘ جس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہ لبنان کے علاقے بیروت میں حملہ تھا۔ لبنانی حکومت نے بھی اس پر رد عمل دیا ہے لیکن وہ سلامتی کونسل میں شکایت لے کر جانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ غزہ میں خان یونس اور جنوبی غزہ میں مسلسل لڑائی جاری ہے اور حماس کی طرف سے وہ وڈیوز بھی روزانہ کی بنیادپر سوشل میڈیا پر شامل ہو رہی ہیں جن میں اسرائیلی بکتربند گاڑیوں اور ٹینکوں کو تباہ ہوتے دکھایا جا رہا ہے۔ یہ بات بذاتِ خود بہت بڑا سوال ہے کہ اتنے دن گزر جانے کے بعد جنوبی غزہ اب تک اسرائیلیوں سے تسخیر کیوں نہیں ہو سکا۔ میں نے اپنے ایک پچھلے کالم میں سوال اٹھایا تھا کہ سات اکتوبر سے اب تک ہلاک شدہ اسرائیلی فوجیوں کی کل تعداد ہے کتنی؟ کچھ روز قبل اسرائیلی روزنامے Yedioth نے اسرائیلی وزارتِ دفاع کے شعبے فوجیوں کی بحالی کے اعداد و شمار کے حوالے سے اطلاعات دی تھیں۔ شعبۂ بحالی کی سربراہ لیمور لوریا نے کہا تھا کہ جنگ کے بعد اب تک دو ہزار سے زیادہ اسرائیلی فوجی رجسٹر کیے گئے ہیں جن میں 58فیصد شدید مجروح ہیں۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد سرکاری بیان کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ نیز ٹائمز آف اسرائیل نے فوجیوں‘ پولیس اور سکیورٹی کے عہدے داروں کے زخمیوں کی تعداد 6125ذکر کی ہے۔ اتنی بڑی تعداد خود بتا رہی ہے کہ اصل ہلاکتیں کہیں زیادہ ہیں۔ تو ہلاک شدہ اسرائیلی فوجیوں کی اصل تعداد ہے کیا؟ اسرائیلی بیان تو ہم دیکھ چکے۔ اب حماس کے بیان کی طرف چلتے ہیں۔ کئی دن پہلے ان کے ایک ترجمان کے مطابق 720 اسرائیلی گاڑیاں تباہ کی جا چکی تھیں۔ نمر نامی اسرائیلی ٹینک میں بارہ اور دیگر ٹینکوں میں دس فوجی بیٹھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہلاک فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار سے بھی اوپر بننی چاہیے۔ کیا کسی طرح بھی اس تعداد کی مطابقت 154عدد سے بنتی ہے جو اسرائیلی سرکاری تعداد ہے؟
سچ یہی ہے کہ غیرجانبدار مبصرین کو صورتحال نہ دیکھنے کی اجازت ہے‘ نہ بیان کرنے کی ۔ کیا یہی پابندی اسرائیلی خوف اور شکست کو ظاہر نہیں کر دیتی؟ حد تو یہ ہے کہ جو اسرائیلی یرغمالی رہا ہوئے تھے‘ ان سب پر بھی پابندی ہے کہ وہ کسی سے بات نہیں کر سکتے۔ جن کونوں کھدروں سے حقیقی خبریں نکل کر آتی ہیں‘ ان کا بھی سوشل میڈیا پر صفایا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان سب کوششوں کے باوجود ان اسرائیلی فوجیوں اور اہم عہدے داروں کی وڈیوز گردش میں ہیں جو اپنے ساتھیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ اسرائیل حماس رہنماؤں پر حملوں‘ غزہ کی بربادی اور 22ہزار سے زائد بے گناہ انسانوں کے قتل کے باوجود یہ جنگ جیت نہیں پا رہا۔ شکست اور کسے کہتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں