آرمرڈ کور کے تین سپوت!…(1

ماہ آزادی کے تیسرے ہفتے میں بری فوج کے تین سپوت جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ تینوں مایہ ناز آرمرڈ کور سے تعلق رکھتے تھے‘ جسے عسکری انداز میں ''میدان جنگ کا بادشاہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی گھڑ سوار دستے کو فوج کے دیگر شعبہ جات پر برتری حاصل رہی ہے۔ جدید زمانے میں مہلک ترین ٹینک کے سوار روایتی آن بان شان کے ساتھ فرائض ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مذکورہ تین سپوت بھی زندگی بھر چاق و چوبند گھڑ سوار کی مانند مصروف عمل رہے۔ ان میں سر فہرست جنرل محمد ضیاالحق ہیں۔ اْن کے بعد لیفٹیننٹ جنرل حمید گل (مرحوم) اور کرنل شجاع خانزادہ (شہید) ہیں۔ سترہ اگست 1988ء کو صدر جنرل محمد ضیاالحق بہاولپور کے علاقے میں ٹینکوں کی تربیتی مشق کا معائنہ کرنے کے بعد واپس راولپنڈی آ رہے تھے کہ جہاز کو حادثہ پیش آ گیا... یا... جہاز کو فضا میں تباہ کر دیا گیا۔ یہ معمہ آج بھی حل طلب ہے۔ اْن کے عسکری جانشین جنرل مرزا اسلم بیگ نے وعدہ کیا تھا کہ اس حادثے کے بارے میں ''دو ٹوک‘‘ رائے سے قوم کو مطلع کریں گے‘ لیکن شاید جنرل ضیاالحق کے بعد بحال ہونے والی ''جمہوریت‘‘ کو ''آمریت‘‘ کے انجام کا کھوج لگانے کی فرصت نہیں ملی۔ جنرل محمد ضیاالحق نے باوردی حالت میں نیک دل بادشاہ کی مانند حکمرانی کی۔ ریاست کے تمام ستون‘ بشمول چوتھا ستون‘ سب اْن کی مٹھی میں تھے۔ جہلم روڈ راولپنڈی پر قائم آرمی ہائوس جنرل محمد ضیاالحق کی سرکاری قیام گاہ تھی۔ اس عمارت میں ''صاحبِ مکاں‘‘ کے وجود سے چہل پہل دیدنی تھی۔ خاص طور سے مذہبی تہوار اور مملکتی مصروفیات کے موقع پر خیراندیشوں کا شمار کرنا دشوار ہوتا تھا۔ 
عید کے موقع پر عوام کے لئے آرمی ہائوس کے دروازے کھول دیے جاتے تھے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے مذکورہ ''صلائے عام‘‘ کی کوریج خصوصی جانفشانی کی متقاضی تھی۔ جنرل محمد ضیاالحق کو ٹوٹ کر چاہنے والوں میں ''علمائے حق‘‘ سے لے کر فلمی دنیا کے ''تابندہ‘‘ ستاروں تک‘ سب شامل تھے۔ سیاست کار اْس دور میں کسی شمار میں نہیں تھے۔ یہ سب قطار اندر قطار سربراہ مملکت سے حصہ بقدر جْثہ مصافحہ اور معانقہ کے لئے بے چین رہتے تھے۔ جنرل محمد ضیاالحق کا سراپا ایک ''دیسی‘‘ حکمران کا تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر پیپلز پارٹی کے بانی رکن احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ چلا۔ سپریم کورٹ نے پھانسی کا حکم برقرار رکھا۔ صدر جنرل محمد ضیاالحق نے دنیا بھر سے موصول ہونے والی رحم کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔ اس ''سانحے‘‘ کے باوجود جنرل ضیاالحق کے حامیوں کی پوشیدہ لابی بے حد متحرک رہی۔ مارشل لا 
کے کڑے ضوابط اپنی جگہ لیکن سیاستدانوں، ادیبوں، صحافیوں اور معاشرے کے دیگر بااثر خواتین و حضرات کو باوردی حکمران کے ارشادات عالیہ پر والہانہ انداز میں تالیاں پیٹنے پر کسی نے کبھی مجبور نہیں کیا۔ مجھے کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں متعدد غیر فوجی اجتماعات یاد ہیں جہاں جنرل محمد ضیاالحق کے پیروکار دادِ تحسین سے آسمان سر پر اْٹھا لیتے تھے۔ مملکت خداداد کی داخلہ پالیسی ہو یا خارجہ اْمور... آخری فیصلے کا اختیار جنرل محمد ضیاالحق نے کسی کو تفویض نہیں کیا۔ مرنجاں مرنج وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے ذریعے پارلیمانی جمہوریت رواں رکھنے کا تجربہ باوردی صدر کی موجودگی میں کامیاب نہیں رہا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں رہی کہ جب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے اقتدار میں اپنے ہی وزیراعظم کو آئین کے مطابق شریک اختیار نہیں ہونے دیا۔ جنرل محمد ضیاالحق کا دور ایک بھرپور ریسرچ کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں وطن عزیز کو درپیش لاتعداد سیاسی اور سماجی سوالات کے جواب پوشیدہ ہیں۔ ہم محض 'ڈکٹیٹر‘‘کا آوازہ کس کر حقائق سے مْنہ نہیں موڑ سکتے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آمریت اور ڈکٹیٹر کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی بھاری اکثریت کی سیاسی رونمائی‘ گمنامی میں تبدیل ہو جاتی اگر جنرل محمد ضیاالحق اور اْن کے قریبی رفقا بعض شخصیات پر دست شفقت نہ رکھتے۔ بدقسمتی سے سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے سے بوجوہ گریزاں ہے‘ شاید مطلوبہ صلاحیت، اہلیت اور قوت ارادی کا فقدان ہے۔ بات جنرل محمد ضیاالحق سے شروع ہوئی تھی۔ اْنہوں نے اپنے دور میں دہلی، کابل، تہران اور سری نگر کو نظروں سے اْوجھل نہیں ہونے دیا، اْن کا خیال تھا کہ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے مذکورہ شہروں کو محض نقشے پر دیکھنا کافی نہیں ہو گا بلکہ دوچار قدم آگے بڑھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اْنہوں نے پاکستان کی ایٹمی قوت کو راز نہیں رہنے دیا۔ علاقے کے شریکوں تک بات اس انداز میں پہنچائی کہ اْن کے پسینے چھوٹ گئے۔ ہر حکمران اپنی سیاسی، سماجی اور معاشرتی باقیات چھوڑ جاتا ہے جو برسوں قوم کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ ان میں مثبت اور منفی دونوں اقسام کے تاثرات شامل ہیں۔ جنرل محمد ضیاالحق کو بھی اس اصول سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ 
آرمرڈ کور کے دوسرے سپوت لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل کا شمار مدبر، دور اندیش اور پیشہ ورانہ سوجھ بوجھ کی حامل کرشماتی عسکری شخصیات میں ہوتا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی تاریخی عسکری مشق ''ضرب مومن‘‘ کے موقع پر پاکستان بھر سے صحافیوں ، لکھاریوں اور دیگر بااثر شخصیات کو ''میدان جنگ‘‘ میں دعوت نظارہ دی گئی۔ مجھے کراچی سے تعلق والے صف اول کے صحافیوں اور اہم شخصیات کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا۔ ''ضرب مومن‘‘ میں قیام ایک علیحدہ قصہ ہے تاہم واپسی پر اکثریت کا اتفاق تھا کہ فوج میں جنرل حمید گْل کی صورت ایک ستارہ طلوع ہوا ہے۔ اْن کی بریفنگ، قلمکاروں سے بالمشافہ گفتگو اور طعام و قیام کے مواقع پر نشست و برخاست‘ یہ سب انداز رائے عامہ کو متاثر کرنے والوں کے دل میں اْتر گئے۔ کسی نے جنرل محمد ضیاالحق کی تربیت کا اثر قرار دیا؛ البتہ کراچی والے مْصر تھے کہ موصوف جنرل مرزا اسلم بیگ کی دریافت ہیں۔ جنرل حمید گْل کا فوج میں والہانہ سفر جاری رہا۔ کور کمانڈر ملتان کی حیثیت سے بھرپور فرائض ادا کر رہے تھے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آگیا۔ (جاری)

فوج اور عوام نئے آرمی چیف کے منتظر تھے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کے چاہنے والوں کو یقین تھا کہ ''تمغہ جمہوریت‘‘ کے حامل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے گی؛ تاہم صدارتی کیمپ اور وزیر اعظم ہائوس سے خبریں توسیع کے حق میں نہیں تھیں۔ حسب توقع اخبارات میں قیاس آرائیاں عروج پر تھیں۔ کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز تھے۔ اْن کا نام بھی متوقع آرمی چیف کے طور پر اْبھرنے لگا۔ ایک روز ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک فری لانس صحافی آئی ایس پی آر آفس میں داخل ہوئے اور ایک ''دو ورقہ‘‘ میرے حوالے کیا جس میں کسی تنظیم کی جانب سے صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے اپیل کی گئی تھی کہ ''مدبر‘‘ جنرل کو آرمی چیف مقرر کیا جائے۔ چند روز بعد لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور دریافت کیا کہ نئے آرمی چیف کے بارے میں پریس میں کیا ''کھچڑی‘‘ پک رہی ہے۔ میں نے کہا: سر! کراچی پریس کلب والوں کا اندازہ ہے کہ ملتان زون (لیفٹیننٹ جنرل حمید گل) اور کراچی زون (لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز) میں فوٹو فنش کا امکان ہے۔ کور کمانڈر نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے کہ راولپنڈی میں گپ ہے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ کو توسیع مل جائے گی۔ دو ایک روز بعد لیفٹیننٹ جنرل آصف نوازکو آرمی چیف تعینات کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ ابھی جنرل مرزا اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ میں چند ہفتے باقی تھے۔ اس اعلان کا مقصد اخباری قیاس آرائیوں کا خاتمہ تھا۔ جنرل حمید گل بدستور کور کمانڈر ملتان رہے۔ جنرل آصف نواز نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھال لیا۔ مجھے کراچی سے راولپنڈی طلب کر کے اْن کے ساتھ آئی ایس پی آر افسر کی حیثیت سے تعینات کر دیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست، صحافت اور دیگر شعبوں سے متعلق افراد کی بھاری اکثریت کو اْمید تھی کہ جنرل حمید گل ہی آرمی چیف ہوں گے۔ یہ حلقہ حکومت کے اِس فیصلے سے ناخوش تھا جس کا اظہار مختلف مضامین اور کالموں وغیرہ میں کیا جانے لگا۔ اْدھر جنرل آصف نواز کے اردگرد کچھ لوگ اْنہیں یقین دلا رہے تھے کہ یہ سب کچھ ''ملتان‘‘ کے اشارے پر ہو رہا ہے؛ تاہم جنرل آصف نواز نے اس سرگوشی کو خاص اہمیت نہیں دی۔ اْن کی معلومات کے اپنے ذرائع بھی تھے تاہم معاملات درست سمت کی جانب نہیں جا رہے تھے۔ جنرل آصف نواز کے آرمی چیف تعینات ہونے کے بعد پہلی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس تھی۔ ہم بغلی کمروں میں پریس ریلیز تھامے اختتام کے منتظر تھے۔ شاید کانفرنس کے اختتام پر ہی آرمی چیف نے لیفٹیننٹ جنرل حمید گْل کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل جہانگیر کرامت کو ملتان بھیجنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جنرل حمید گْل حسب معمول کانفرنس پر چھائے رہے۔ اْن کی مدلل گفتگو اور دلنشیں پیرائے سے ''کمان‘‘ میں رخنہ اندازی کا اندیشہ تھا۔ سب سے پہلے اْنہیں ٹینک ساز ادارے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے سربراہ کے عہدے کی پیشکش کی گئی جو اْنہوں نے مسترد کر دی۔ اس کے بعد نیشنل ڈیفنس کالج (اب یونیورسٹی) کے کمانڈنٹ کے طور پر تعینات کیا گیا لیکن اْنہوں نے عسکری روایات کے مطابق باعزت ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی۔ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے بھرپور عوامی زندگی کا آغاز کیا۔ اْن کے مداحوں کی کمی نہیں تھی وہ جہاں بھی جاتے اْن کو دیکھنے اور سننے کے لئے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہوتے۔ خاص طور سے نوجوانوں میں اْن کے لئے کشش تھی۔ بدقسمتی سے جنرل آصف نواز دوران ملازمت انتقال کر گئے۔ اْن کے جنازے میں تازہ دم لیفٹننٹ جنرل (ر) حمید گْل کو دیکھ کر اسلام آباد کے ایک صحافی نے کہا کہ کاش جنرل حمید گْل این ڈی سی چلے جاتے تو آج آرمی چیف تعینات ہو سکتے تھے‘ لیکن شاید اْن کے لئے جہاں اور بھی تھے۔ پندرہ اگست کو بقائمی ہوش و حواس دارِ فانی سے کوچ کرنے والے جنرل حمید گل کی زندگی کے حالات بھی قلمبند ہونا چاہیے۔ وہ اہم ترین عسکری اور سیاسی فیصلوں میں براہ راست شریک رہے۔ اْنہوں نے کبھی اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی نہیں کی بلکہ سر عام اقرار کیا۔ یہ ایک سچے عسکری اور محب وطن پاکستانی کی نشانی ہے۔
آرمرڈ کور کے تیسرے سپوت کرنل (ر) شجاع خانزادہ تھے‘ جنہوں نے سولہ اگست کو اپنے آبائی گائوں شادی خان (ضلع اٹک) میں جام شہادت نوش کیا۔ کرنل خانزادہ اٹک کے ایک اہم سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اْنہوں نے فوج کی آرمرڈ کور میں مختلف عہدوں پر قابل فخر خدمات انجام دیں۔ اس دوران آرمی انٹیلی جنس سے بھی سات برس تک منسلک رہے۔ اپنے سینئرز جنرل محمد ضیاالحق اور لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کی مانند اْنہیں بھی افغانستان اور بھارت سے متعلق اْمور پر دسترس حاصل تھی۔ پاکستان میں غیر ملکی ''تخریبی‘‘ اداروں کے اثرونفوذ کی جہتوں سے آگاہی رکھتے تھے۔ اس علم اور تجربے کی بنیاد پر جب اْنہیں صوبہ پنجاب میں دہشت گردوں کی بیخ کنی کی ذمہ داری سونپی گئی تو اْنہوں نے ایک دلیر اور نڈر آرمرڈ کور کمانڈر کی مانند اپنا ''ٹینک‘‘ سب سے آگے رکھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک تجربہ کار انٹیلی جنس افسر ہونے کے باوجود اْنہوں نے خطرات کی قبل از وقت وارننگ کو خاص اہمیت نہیں دی اور اپنے اردگرد سکیورٹی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ شاید اْنہیں کسی نے یہ باور نہیں کرایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اْن کے علم اور تجربے نے ابھی کئی اور معرکے سر کرنے تھے۔ کرنل شجاع خانزادہ کی شہادت کے ساتھ متعدد ٹھوس سوالات نے جنم لیا ہے جن میں سب سے اہم دہشت گردی کی واردات کے بعد متعلقہ محکموں اور اداروں کی امدادی کارروائیاں ہیں۔ سانحہ اٹک کے بعد مختلف اہلکاروں کا جم غفیر ٹیلی ویژن سکرین پر نمایاں تھا‘ لیکن حرکت آہستہ آہستہ تھی شاید مطلوبہ صلاحیت، سازوسامان اور کمان کی کمی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی شہادت نے دہشت گردی کے خلاف قومی مہم جوئی کو ایک نئی طاقت اور حکمت عطا کی ہے۔ اللہ کرے کہ یہ خوبیاں جلد میدان عمل میں بھی دکھائی دیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں