فوج اور عوام نئے آرمی چیف کے منتظر تھے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کے چاہنے والوں کو یقین تھا کہ ''تمغہ جمہوریت‘‘ کے حامل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے گی؛ تاہم صدارتی کیمپ اور وزیر اعظم ہائوس سے خبریں توسیع کے حق میں نہیں تھیں۔ حسب توقع اخبارات میں قیاس آرائیاں عروج پر تھیں۔ کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز تھے۔ اْن کا نام بھی متوقع آرمی چیف کے طور پر اْبھرنے لگا۔ ایک روز ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک فری لانس صحافی آئی ایس پی آر آفس میں داخل ہوئے اور ایک ''دو ورقہ‘‘ میرے حوالے کیا جس میں کسی تنظیم کی جانب سے صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے اپیل کی گئی تھی کہ ''مدبر‘‘ جنرل کو آرمی چیف مقرر کیا جائے۔ چند روز بعد لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور دریافت کیا کہ نئے آرمی چیف کے بارے میں پریس میں کیا ''کھچڑی‘‘ پک رہی ہے۔ میں نے کہا: سر! کراچی پریس کلب والوں کا اندازہ ہے کہ ملتان زون (لیفٹیننٹ جنرل حمید گل) اور کراچی زون (لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز) میں فوٹو فنش کا امکان ہے۔ کور کمانڈر نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے کہ راولپنڈی میں گپ ہے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ کو توسیع مل جائے گی۔ دو ایک روز بعد لیفٹیننٹ جنرل آصف نوازکو آرمی چیف تعینات کرنے کا اعلان
کر دیا گیا۔ ابھی جنرل مرزا اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ میں چند ہفتے باقی تھے۔ اس اعلان کا مقصد اخباری قیاس آرائیوں کا خاتمہ تھا۔ جنرل حمید گل بدستور کور کمانڈر ملتان رہے۔ جنرل آصف نواز نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھال لیا۔ مجھے کراچی سے راولپنڈی طلب کر کے اْن کے ساتھ آئی ایس پی آر افسر کی حیثیت سے تعینات کر دیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست، صحافت اور دیگر شعبوں سے متعلق افراد کی بھاری اکثریت کو اْمید تھی کہ جنرل حمید گل ہی آرمی چیف ہوں گے۔ یہ حلقہ حکومت کے اِس فیصلے سے ناخوش تھا جس کا اظہار مختلف مضامین اور کالموں وغیرہ میں کیا جانے لگا۔ اْدھر جنرل آصف نواز کے اردگرد کچھ لوگ اْنہیں یقین دلا رہے تھے کہ یہ سب کچھ ''ملتان‘‘ کے اشارے پر ہو رہا ہے؛ تاہم جنرل آصف نواز نے اس سرگوشی کو خاص اہمیت نہیں دی۔ اْن کی معلومات کے اپنے ذرائع بھی تھے تاہم معاملات درست سمت کی جانب نہیں جا رہے تھے۔ جنرل آصف نواز کے آرمی چیف تعینات ہونے کے بعد پہلی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس تھی۔ ہم بغلی کمروں میں پریس ریلیز تھامے اختتام کے منتظر تھے۔ شاید کانفرنس کے
اختتام پر ہی آرمی چیف نے لیفٹیننٹ جنرل حمید گْل کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل جہانگیر کرامت کو ملتان بھیجنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جنرل حمید گْل حسب معمول کانفرنس پر چھائے رہے۔ اْن کی مدلل گفتگو اور دلنشیں پیرائے سے ''کمان‘‘ میں رخنہ اندازی کا اندیشہ تھا۔ سب سے پہلے اْنہیں ٹینک ساز ادارے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے سربراہ کے عہدے کی پیشکش کی گئی جو اْنہوں نے مسترد کر دی۔ اس کے بعد نیشنل ڈیفنس کالج (اب یونیورسٹی) کے کمانڈنٹ کے طور پر تعینات کیا گیا لیکن اْنہوں نے عسکری روایات کے مطابق باعزت ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی۔ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے بھرپور عوامی زندگی کا آغاز کیا۔ اْن کے مداحوں کی کمی نہیں تھی وہ جہاں بھی جاتے اْن کو دیکھنے اور سننے کے لئے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہوتے۔ خاص طور سے نوجوانوں میں اْن کے لئے کشش تھی۔ بدقسمتی سے جنرل آصف نواز دوران ملازمت انتقال کر گئے۔ اْن کے جنازے میں تازہ دم لیفٹننٹ جنرل (ر) حمید گْل کو دیکھ کر اسلام آباد کے ایک صحافی نے کہا کہ کاش جنرل حمید گْل این ڈی سی چلے جاتے تو آج آرمی چیف تعینات ہو سکتے تھے‘ لیکن شاید اْن کے لئے جہاں اور بھی تھے۔ پندرہ اگست کو بقائمی ہوش و حواس دارِ فانی سے کوچ کرنے والے جنرل حمید گل کی زندگی کے حالات بھی قلمبند ہونے چاہئیں۔ وہ اہم ترین عسکری اور سیاسی فیصلوں میں براہ راست شریک رہے۔ اْنہوں نے کبھی اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی نہیں کی بلکہ سر عام اقرار کیا۔ یہ ایک سچے عسکری اور محب وطن پاکستانی کی نشانی ہے۔
آرمرڈ کور کے تیسرے سپوت کرنل (ر) شجاع خانزادہ تھے‘ جنہوں نے سولہ اگست کو اپنے آبائی گائوں شادی خان (ضلع اٹک) میں جام شہادت نوش کیا۔ کرنل خانزادہ اٹک کے ایک اہم سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اْنہوں نے فوج کی آرمرڈ کور میں مختلف عہدوں پر قابل فخر خدمات انجام دیں۔ اس دوران آرمی انٹیلی جنس سے بھی سات برس تک منسلک رہے۔ اپنے سینئرز جنرل محمد ضیاالحق اور لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کی مانند اْنہیں بھی افغانستان اور بھارت سے متعلق اْمور پر دسترس حاصل تھی۔ پاکستان میں غیر ملکی ''تخریبی‘‘ اداروں کے اثرونفوذ کی جہتوں سے آگاہی رکھتے تھے۔ اس علم اور تجربے کی بنیاد پر جب اْنہیں صوبہ پنجاب میں دہشت گردوں کی بیخ کنی کی ذمہ داری سونپی گئی تو اْنہوں نے ایک دلیر اور نڈر آرمرڈ کور کمانڈر کی مانند اپنا ''ٹینک‘‘ سب سے آگے رکھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک تجربہ کار انٹیلی جنس افسر ہونے کے باوجود اْنہوں نے خطرات کی قبل از وقت وارننگ کو خاص اہمیت نہیں دی اور اپنے اردگرد سکیورٹی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ شاید اْنہیں کسی نے یہ باور نہیں کرایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اْن کے علم اور تجربے نے ابھی کئی اور معرکے سر کرنے تھے۔ کرنل شجاع خانزادہ کی شہادت کے ساتھ متعدد ٹھوس سوالات نے جنم لیا ہے جن میں سب سے اہم دہشت گردی کی واردات کے بعد متعلقہ محکموں اور اداروں کی امدادی کارروائیاں ہیں۔ سانحہ اٹک کے بعد مختلف اہلکاروں کا جم غفیر ٹیلی ویژن سکرین پر نمایاں تھا‘ لیکن حرکت آہستہ آہستہ تھی شاید مطلوبہ صلاحیت، سازوسامان اور کمان کی کمی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی شہادت نے دہشت گردی کے خلاف قومی مہم جوئی کو ایک نئی طاقت اور حکمت عطا کی ہے۔ اللہ کرے کہ یہ خوبیاں جلد میدان عمل میں بھی دکھائی دیں۔ (ختم)