سپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب

شریف برادران سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ قسمت کے دھنی ہیں۔ تندی باد ِ مخالف کے باوجود اُن کے اونچا اُڑنے کا کوئی نہ کوئی سبب پیدا ہو جاتا ہے ۔ مملکت خداداد میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم کا حلف اُٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ۔ یہ منفرد اعزاز حاصل کئے میاں نواز شریف صاحب کو اڑھائی برس سے زائد ہو گئے ہیں ۔ صوبہ پنجاب پر بلاشرکت غیر ے حکمرانی میں پیپلز پارٹی دور کے پانچ برس شامل کر لئے جائیں تو مدت سات برس سے زیادہ ہوجاتی ہے ۔، شریف برادارن کا پاکستان کے دیگر تین صوبوں سے بھی سیاسی احترام کا رشتہ برقرار ہے ۔ اُنہیں سندھ اور بلوچستان سے چند ایسے سیاست کار دستیاب ہو جاتے ہیں جن کے ذریعے کراچی اور کوئٹہ ایئر پورٹس پر نون لیگ کی ایک استقبالیہ قطار دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ ورنہ یہ اہم صوبے وفاق میں بر سر اقتدار سیاسی جماعت سے کوسوں دور دکھائی دے رہے ہیں ۔البتہ صوبہ پختون خوا میں صورت حال ن لیگ کے حوالے سے نسبتا بہتر ہے ۔ پشاور کے گورنر ہاؤس میں ن لیگ کے صف اول کے رہنما گورنر کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ یہ ''غیبی امداد‘‘ صوبہ خیبر پختون خوا کے ''غیر پختون خوا علاقے‘‘ ہزارہ کی مرہون ِ منت ہے ۔ وفاقی کابینہ کی موجودہ ترتیب پنجاب کی دوررس حکمرانی کی عکاسی کر رہی ہے ۔ اہم ترین وزارتیں داخلہ ، خزانہ ، دفاع، پانی و بجلی، اطلاعات اور ریلوے وغیرہ پر میاں نواز شریف نے پنجاب کے شہ دماغ تعینات کئے ہیں۔ صرف خارجہ کے مشیر سر تاج عزیز صاحب کا تعلق صوبہ خیبر پختون خوا سے بیان کیا جاتا ہے تا ہم وہ بھی براہ راست منتخب نمائندے نہیں ہیں۔ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے محترم وزرأ بھی کبھی کبھار اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں لیکن اس وجود کی اہمیت ''سنگل کالم‘‘ خبر سے زیادہ نہیں ہے ۔ اگر کسی کے ذاتی تعلقات ِ عامہ بہتر ہیں تو اُسے ہفتہ وار ٹاک شو میں چہرہ نمائی کا موقع مل جاتا ہے ورنہ ہر صوبے کی سیاسی لگام پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہنما شیروں کے ہاتھ میں ہے ۔ مستقبل کی ترجیحات کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چار اہم ترین آئینی عہدیدار صرف لاہور اور کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ کراچی کے ''ازلی‘‘ باشندے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی (تاد مِ تحریر معطل ) کا مستقل سیاسی ڈیرہ لاہور میں ہے۔ ایک عامیانہ اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت ہو توعرض کروں کہ یہ چاروں شہری بابو ہیں جن کا ستر فی صد پاکستان کے معاملات ،مسائل اور وہاں مقیم پاکستانیوں سے محض کتابی اور سرکاری واسطہ ہے ْ جمہوری اور وفاقی بنیاد کی آئینی دعویدار ریاست کا یہ سیاسی منظر نامہ دُور اندیش رہنماؤں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ تاہم جن کی ترجیحات ہر قیمت پر اقتدار کا تسلسل ہو اُنہیں شاید کوئی سیاسی بُرائی دکھائی نہیں دے گی۔ 
لاہور کے حلقہ این اے 122 کی بدلی بدلی صورت حال میاں نواز شریف کی خوش قسمتی پر دلالت کرتی ہے ۔ اُنہیں قدرت نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ چار اہم آئینی عہدوں میں کم از کم ایک عہدے پر کراچی یا لاہور سے باہر کے کسی اہم رہنما کو نمایاں کر سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی کے ''سابق‘‘ سپیکر سردار ایاز صادق صاحب ن لیگ کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اُنہوں نے ایوان کی کارروائی کو مثالی انداز میں رواں دواں رکھا ہے ۔ لیکن وطن عزیز کے وسیع تر قومی مفاد میں یہ عہدہ اگر بلوچستان کو تفویض کر دیا جائے تو کوئٹہ سے گوادر تک 
رہنے والوں کا وفاق سے سیاسی تعلق از سر ِنو مضبوط ہو جائے گا۔ اہم ترین قومی تقریبات کی صف اول میں بلوچوں کوبھی ''اپنا گرائیں‘‘ دکھائی دے گا جہاں آج کل صرف لاہور اور کراچی کے دمکتے چہرے براجمان ہیں ۔ میاں نواز شریف صاحب کے لئے سیاسی فیصلے نافذفرمانا قطعاَ دشوار نہیں ہے ۔ قومی اسمبلی کی سپیکر شپ بلوچستان کو ''عطیہ‘‘ کرنا ایک ایسا تاریخی فیصلہ ہو گا جس کے خوشگوار نتائج اعلان کے ساتھ ہی نمایاں ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ یہ اقدام بلوچستان کے شہروں ، قصبات اور دُور دراز علاقوں میں مصروف عمل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے حد درجہ آسانیاں پیدا کر دے گا۔ پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی ایک اور زہریلی نوک ٹوٹ جائے گی۔ آج کل بلوچستان کی ''ناراض‘‘ سیاسی قیادت کے حوالے سے خوشگوار اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ وہ دوبارہ قومی دھارے میں شامل ہو کر جمہوری نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں ۔ یہ صورت حال تقاضا کر رہی ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی وفاقی قیادت بڑے دل کا مظاہرہ کرے ۔ ظاہر ہے کہ سیاستدان ہی مستقبل شناس ہوتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ قومی اسمبلی کا سپیکر بر سر اقتدار جماعت کا قابل ِ اعتماد رہنما ہونا چاہیے ۔ 
سردار ایاز صادق اس معیار پر ہر لحاظ سے پورا اترتے ہیں تاہم موجودہ حالات میں بلوچستان سیاسی، سماجی اور عسکری لحاظ سے مرکز نگاہ ہے ۔ وفاق کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو قطعا نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ آج کل وزیر اعلی ٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کوئٹہ اور اسلام آباد کے مابین سیاسی پل بنے ہوئے ہیں ۔ اس پل کو بادی النظر میں عسکری حکام نے تھام رکھا ہے ۔ کمانڈر سدرن کمان لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ دن رات مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔اہم ترین ''غیر فوجی‘‘ اجلاس ہوں یا چودہ اگست کے موقع پر آزادی رقص، ہر تقریب میں اُن کی موجودگی سے ہی یقین ہوتا ہے کہ بلوچستان میں سب خیریت ہے ۔ یہ نسخہ زیادہ دیر پا نہیں ہے ۔ ناکے ، پکڑ دھکڑ، آپریشن اور حفاظتی حصار میں قائدین کی آمد و رفت عارضی اقدامات ہیں اُنہیں ہمیشہ کے لئے کسی انسانی معاشرہ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ سپیکر قومی اسمبلی کا خالی عہدہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور تاریخ شناسی کا کڑا امتحان ہے۔ ایک جانب (لاہوری) سیاست کا محدود ترین دائرہ ہے تو دوسری جانب وطن عزیز کے سیاسی افق پر دبیز روشنی کا ہالہ نمایاں ہونے کو ہے ۔ وقت گذر جائے گا البتہ تاریخ اس لمحے کو کبھی فراموش نہیں کرے گی ۔ اس کا ذکر بار بار کیا جائے گا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں