پچاس برس بیت گئے، لیکن بھارت کا لاہور پر قبضے کاخواب شرمندۂ تعبیر ہوا نہ کبھی ہوگا،انشاء اللہ۔ چھ ستمبر 1965ء نے بھارت کے عزائم کو ہمیشہ کے لئے بے نقاب کر دیا تھا۔ لاہور کو روندنے کی منصوبہ بندی قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ شاید یہی بنیادی وجہ تھی کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو لاہور کی سرحد پر بھارت کو تاریخی مُکہ دکھانے کی ضرورت پیش آئی اور1948ء کی جنگ کشمیر تک ہی محدود رہی۔اگست 1965ء میں کشمیر کے محاذ پردوبارہ چنگاریاں بھڑکنا شروع ہو گئیں۔ مجاہدین اورآزاد کشمیر سے افواج نے کامیابیاں حاصل کیں تو اندازہ ہو گیا کہ بھارت بین الاقوامی سرحد عبور کرے گا؛ تاہم پاکستانی وزارت خارجہ عسکری قیادت کو مسلسل یقین دلاتی رہی کہ یہ ممکن نہیں، نیز پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی سرحد کے قریب اپنی افواج کی غیر معمولی نقل و حرکت سے بھارت کو جنگ چھیڑنے کا موقع مل جائے گا۔ شاہین فاؤنڈیشن پاکستان کی شائع کردہ ''دی سٹوری آف دی پاکستان ایئر فورس‘‘ (سال ِاشاعت1988ء) میں عسکری نقطہ نظر سے دو اہم واقعات درج ہیں۔ پہلا واقعہ مقبوضہ کشمیر میں برسرِ پیکار مجاہدین اور آزاد کشمیر سے پیش قدمی کرنے والی افواج کی امداد سے متعلق ہے۔ یہ 23 اگست 1965ء رات دو بجے کا ذکر ہے۔ پاکستان کے ایک فضائی اڈے سے ایک سی ون تھرٹی نے مقبوضہ کشمیر کی جانب پرواز کی۔ اس دیوہیکل جہاز میں''ضروری سازوسامان‘‘ تھا جسے ہر قیمت پر مصروف عمل مجاہدین تک پہنچایا جانا تھا۔ مشن کی اہمیت کے پیش ِنظر پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل نور خان نے ذاتی طور پر قیادت کا فیصلہ کیا۔ اُنہیں پاک فضائیہ کی کمان سنبھالے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود بیالیس برس کے ایئر چیف کا حوصلہ اُن چوٹیوں سے بھی بلند تھا جن کے بیچوں بیچ پاک فضائیہ کا سی ون تھرٹی شب کی اتھاہ تاریکی میں اپنی منزل کی جانب گامزن تھا۔ ایئر مارشل نور خان کی جہاز میں موجودگی سے عملے کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور حوصلے کو تقویت ملی اور مشن توقعات سے بڑھ کر کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
دوسرا واقعہ 30 اگست 1965ء کا ہے جب انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی ) میں انڈیا ڈیسک کے انچارج ایئر کموڈور عزیز احمد نے اعلیٰ ترین سطح پر یہ غیر معمولی اطلاع پہنچائی کہ بھارتی افواج بین الاقوامی سرحد کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں اور فی الحال اُن کے ہدف لاہور اور سیالکوٹ ہے۔ راجستھان میں بھی نقل و حرکت کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے آئی ایس آئی سے یہ سگنل موصول ہوتے ہی اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کر لیا جو رات گئے تک جاری رہا؛ تاہم اس موقع پر بھی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا استدلال تھا کہ بھارت بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا، ان کی افواج محض عسکری طاقت ''دکھانے‘‘کے لئے نقل و حرکت کر رہی ہیں، اصل جنگ کشمیر تک ہی محدود رہے گی۔''دی سٹوری آف دی پاکستان ایئر فورس‘‘ کے مطابق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان میٹنگ کے اختتام تک شش و پنج میں مبتلا نظر آئے۔ اُنہوں نے بری افواج کو بین الاقوامی سرحد کی حفاظت کے لئے ''غیر معمولی‘‘جنگی اقدامات کی واضح ہدایت نہ کی، شاید اُنہیں وزارت خارجہ کے تجزیے سے زیادہ اتفاق تھا۔ میٹنگ کے شرکاء میں سے صرف ایئر مارشل نور خان واحد شخصیت تھے جن کا اندازہ ، رویہ اور اقدام دیگر شرکاء سے مختلف تھا۔ اُنہوں نے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے واپس آتے ہی''جنگ‘‘ کی تیاری کے لئے احکامات صادر کر دیئے۔ متعدد لڑاکا اور بمبار طیارے حالت ِجنگ میں آگئے اور پائلٹس نے دشمن کے عزائم کو آغاز سے ہی ناکام بنانے کے لئے کمر کس لی۔ یہ ایئر مارشل نور خان کا
تاریخی کارنامہ تھا جس کے باعث بھارتی فضائیہ کے مقابلے میں کئی گنا محدود ذرائع اور ساز و سامان کی حامل پاک فضائیہ نے آغاز سے ہی دشمن کو جکڑ کر رکھ دیا۔ جنگ ستمبر کے دوران فضائی برتری پاک فضائیہ کے پاس رہی۔ خدانخواستہ اگر پہلے سے تیاری نہ ہوتی تو دشمن شدید نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں تھا، جس کے منفی اثرات میدانی لڑائی میں بھی نمایاں ہوتے۔ ہمارے بہادر اور ماہر لڑاکا پائلٹس نے میدانی افواج کو بے مثال مدد فراہم کی۔ فضا میں بھارتی فضائیہ کو من مانی نہیں کرنے دی۔ یہ درست ہے کہ زمین پر بھی بری افواج چند گھنٹے کے نوٹس پر مورچہ زن ہو گئی تھیں۔ دشمن کو دست بدست جنگ کے باوجود بی آر بی نہر عبور کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ بی آر بی نہر کے اُس پار میجر شفقت بلوچ کی زیر کمان انفنٹری کمپنی نے دشمن کے لشکر کو اُس وقت تک روکے رکھا جب تک بھر پور دفاعی اقدامات مکمل نہیں کر لئے گئے۔ بہادری ، جرأت اور مثالی لگن کی یہ ایک بے مثال کہانی ہے جسے بار بار لکھنا اور سنانا چاہئے۔
جنگ ستمبر میں لاہوریوں نے متعدد بار پاکستان اور بھارت کے لڑاکا طیاروں کی''مڈبھیڑ‘‘ کا نظارہ کیا۔ مرد و زن، بچے، بوڑھے سب کھلے میدانوں اور چھتوں پر کھڑے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے یہ کشمکش دیکھا کرتے تھے۔ اُس زمانے کے اخبارات میں ایک معمر شخص کے بارے میں خبر شائع ہوئی جو سڑک پر بیٹھا ''بے خبری‘‘ کے عالم میں فضائی جنگ دیکھ رہا تھا۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ آپ کھلی جگہ پر کیوں ہیں؟ خطرہ ہے، لڑاکا طیاروں میں جنگ ہو رہی ہے تو اُس نے بے ساختہ جواب دیا: ''ستّے خیراں نیں، ساڈے جہاز اچ بابا نور خان بیٹھا اے‘‘۔ یہ بابا نور خان بیالیس برس کے ایئر مارشل نور خان تھے جو جنگ کے آغاز سے ہی پاکستانیوں کے دل میں گھر کر چکے تھے۔
جنگ ستمبر کی ایک اور اہم ترین شخصیت میڈم نور جہاں ہے جن کی آواز نے چھ ستمبر کے ابتدائی لمحات میں تذبذب اور بے یقینی کو حوصلے اور مقابلے کی کیفیت عطا کر دی۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی تاریخی تقریر اور میڈم نور جہاں کی آواز میں فضا میں بکھرنے والے ملی نغمات نے بھارت کو ابلاغی محاذ پر پہلے روز ہی شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ اِس محاذ پر دشمن دوبارہ سنبھل نہیں سکا۔ خاص طور سے ریڈیو پاکستان کے ''تابڑ توڑ‘‘ حملوں کا اُس کے پاس بھرپور جواب نہیں تھا۔ ریڈیو پاکستان، پاک افواج کی مانند دشمن کی ''جھلک‘‘ دیکھتے ہی اس انداز میں نبرد آزما ہوا جیسے برسوں سے چھ ستمبر کا انتظار تھا۔ بہرحال، جنگ ستمبر کے پہلے اڑتالیس گھنٹے فضا میں بابا نور خان اور میڈیم نور جہاں کی ''فیصلہ کن حکمرانی‘‘ رہی۔ یہ حقیقت پچاس برس گزرنے کے باوجود چھ ستمبر کے نورکی مانند روشن ہے۔