رینجرز کے نامعلوم اہلکار

سندھ پولیس کی جانب سے جاری کئے گئے اشتہارات کی اشاعت کا ایک اہم فائدہ یہ ہوا کہ کراچی آپریشن کے تناظر میں ''نا معلوم رینجرز اہلکاروں‘‘ سے آشنائی ہوگئی ہے ۔ ا س سے قبل عوام تک یہ اطلاعات پہنچ رہی تھیں کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ صاحب کی کپتانی میں جاری آپریشن میں صرف ''وہ‘‘ شریک ہیں جو صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں باقاعدہ شرکت کرتے ہیں۔ ہماری مراد سندھ حکومت سے ہے جو آج کل تن ِتنہا پیپلز پارٹی کے سپرد ہے ۔ اس کے علاوہ آرمی، رینجرز، پولیس اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیو ں کے اعلیٰ حکام بھی سندھ بالخصوص کراچی کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت کی شب و روز کاوش کے نتیجے میں ایک لائحۂ عمل ترتیب دیا گیا تھا۔آغاز میں دادوتحسین کے ڈونگر ے برسائے گئے‘لیکن جونہی قانون نافذ کرنے والوں نے مریض کی '' لیب رپورٹس‘‘ بے نقاب کیں تو خاص حلقے نے کہرام برپا کر دیا۔ یہ سلسلہ حیلے بہانے سے زور پکڑ رہا ہے ۔ کبھی جمہوریت کی دہائی دی جاتی ہے اور کبھی انسانی حقوق کے موضوع پر واویلا شروع ہو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون نافذکرنے والے اداروں بالخصوص رینجرز نے سیاسی قیادت کی بھرپور اجازت اور قانونی سرپرستی کے بعد پیش قدمی کی تھی ۔ پولیس پہلے سے مورچہ زن تھی۔بدقسمتی سے کراچی میں مدت سے جاری شورش کے اثرات ہر شعبے پر مرتب ہوئے ہیں۔ قانون شکنی کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری تھا۔ روشنیوں کے شہر کی صورت بگاڑ نے میں سیاست کار پیش پیش رہے ۔ شاید اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے تین بڑی سیاسی جماعتوں میں ''عسکری ونگز‘‘ کی برملا نشاندہی کی۔ سماجی اور سیاسی لحاظ سے کسی بھی مہذب ملک میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس رائے کے بعد متعلقہ جماعتوں کی قیادت کو تاحیات جیل میں ٹھونس دیا جاتا کہ جن کی رہنمائی میں شہر کی سڑکوں ، بازاروں اور گلیوں میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی لیکن بھلا ہو ''پاک جمہوریت‘‘ کا جو ہر قسم کی بدبو دار اور متعصبانہ سیاست کو اپنے حفاظتی حصار میں لئے ہوئے ہے ۔ ایسے ماحول میں گڈ گورننس کی توقع خود فریبی کے مترادف ہو گی۔ سیاسی عزم میں واضح منفی رجحانات اور مجرم پرستی کے عنصر نے دیگر سرکاری اداروں کو کھوکھلا اور نکما کر دیا ہے ۔ ذاتی اور موروثی ایجنڈے عوامی مفادات پر غالب آگئے ہیں۔ یہ سانحہ ملک گیرپیمانے پر رونما ہوا ہے ۔ اس میں بیرونی عوامل کو بھی دخل ہے ۔ سیاستدان گلے پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے کو '' بیرونی ایجنٹ‘‘ قرار دے رہے ہیں ۔ اُنہیں شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے دور میں سا ٹھ فی صد سے کم خواندگی کی شرح والے ملک میں عام آدمی ایسے الزامات سن کر کیا محسوس کرتا ہے۔ بد قسمتی سے حکمرانوں کی کارکردگی ، رویے اور کوتاہ اندیشی کو زیر بحث لایا جائے تو اُسے جمہوریت دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ 
بات رینجرز کے بارے میں اشتہارات کی اشاعت سے شروع ہوئی تھی۔ کراچی میں جاری آپریشن کے بیچوں بیچ یہ شرمناک حرکت غیر متوقع نہیں ہے ۔ 1992ء کے آپریشن کے دوران بھی ''سیاسی متاثرین‘‘ کی جانب سے متعدد بار ابلاغی یلغار کی گئی ۔ آپریشن میں مصروف آرمی اور سول آرمڈ فورسز کے دستے خاص نشانہ تھے ۔ اُس زمانے میں پرنٹ میڈیا کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ رات کی شفٹ پر تعینات اخباری کارکنوں کو اُن کے اہل و عیال کے حوالے سے ڈرانا دھمکانامخصوص نفسیاتی ہتھیار تھا۔ ایسے ماحول میں صحافیوں کی بھاری اکثریت نے پُرسکون کراچی اور پُر امن سندھ کے لئے کی گئی ہر کاوش میں ابلاغی لحاظ سے اپنا کردار ادا کیا۔ اس عمل میں اہم ترین عنصر میڈیا اور قانون نافذ کرنے اداروں کے مابین پیشہ ورانہ اعتماد تھا۔ میڈیا کو یہ حقیقت باور کرائی گئی تھی کہ شہروں میں جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی سمیت دیگر اندرونی سلامتی کا فریضہ ادا کرنا انتہائی پیچیدہ عمل ہے ۔ یہ بین الاقوامی سرحد کی شب و روز حفاظت سے کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اس ''جنگ‘‘ میں دشمن بھیس بدل بدل کر گھر، محلے ، بازار، عبادت گاہ، تعلیمی ادارے ، میڈیا آفس اور سیاسی دفاتر بھی میں بسیرا کرسکتا ہے ۔ سماجی ، سیاسی، مذہبی ، عسکری اور ابلاغی لحاظ سے بھٹکے ہوئے افراد دشمن کا عظیم سرمایہ ہوتے ہیں۔اُن پر نظر رکھنا صرف آرمی، رینجرز اور پولیس کا کام نہیں ہر محب وطن شہری کو آگے بڑھ کر یہ فرض ادا کرنا ہو گا۔
اکیسویں صدی میں وطن عزیز کی اندرونی سلامتی کے لئے جنگ میں میڈیا کی براہ راست حمایت کے بغیر کامیابی حاصل کرنا نا ممکن ہے ۔ رینجرز کے خلاف سندھ پولیس کی جانب سے جاری کردہ اشتہار دانستہ حرکت تھی یا نادانستہ غلطی‘ دونوں صورتوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پریس رابطہ افسروں کے لئے ''جاگتے رہو‘‘ کا پہلا بلاوا ہے ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایسے متنازعہ اشتہارات محکمہ اطلاعات سندھ سے کیونکر اخبار تک پہنچے اور شائع ہونے سے قبل رینجرز کے متعلقہ حکام تک اطلاع کیوں نہیں پہنچ سکی ۔
موجود صورت حال کا تقاضا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا کے مابین پیشہ ورانہ اعتبار کے رشتے کو مضبوط کیا جائے ۔ خاص طور سے پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے سرکردہ صحافیوں کو آپریشن کے مسائل کے بارے میں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے محض کامیابیوں پر مبنی پریس ریلز جاری کرنے سے یہ ہدٖف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ رینجرز کو درپیش پیچیدہ صورتحال سے مکمل آگاہی سے میڈیا ابلاغی لحاظ سے ''ناگہانی‘‘ صورت میں رینجرز کی مدد کے لئے از خود آگے ہو گا۔ ظاہر ہے کہ امن ، اور سکون سب کی خواہش ہے ۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں