مہاجر ، کراچی اور اسلام آباد

شہری سندھ خاص طور سے کراچی کے حوالے سے بے یقینی کی فضا گزشتہ چار دہائیوں سے سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہے ۔ اس کیفیت میں مختلف نوعیت کے منفی اور مثبت اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں ۔ کبھی ایک سیاسی جماعت حاوی اور پر جوش دکھائی دیتی ہے اور کچھ عرصے بعد کسی اور کا طوطی بولنے لگتا ہے ۔ سب سے اہم اور دوررس نتائج کے حامل ایسے شب و روز ہوتے ہیں جب پاکستان کے عروس البلاد کو فوج یا رینجرز کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ صورت ِحال قانون نافذ کرنے والوں کے صبر ، پیشہ ورانہ دیانتداری اور استقامت کو امتحان سے دوچار کر دیتی ہے ۔ بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں سے وابستگی کے دعویدار مسلح اور جرائم پیشہ عناصر کا وجود ابھی تک ریاست کی فیصلہ کن کاری ضرب کی زد میں نہیں آیا۔ شاید رائج الوقت جمہوریت میں یہ کارنامہ ممکن نہیں ہے ۔ سندھ رینجرز کے حالیہ آپریشن کی بدولت بلاشبہ کراچی کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے ۔ روشنیوں کے شہر کی روایتی رونقیں لوٹ آئی ہیں ۔ کاروبار ِ زندگی کے معمولات بحال ہو گئے ہیں ۔ عوام کی آزادانہ نقل و حرکت کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔ لیکن کراچی کے پرکشش چہرے پر یہ سوال نمایاں ہے کہ امن کے جاری دورانیہ کی مدت کیا ہو گی؟ کیا ماضی کی مانند اچانک ایک روز قانون شکن با اثر افراد کی '' قیادت‘‘ ظہور پذیر ہو جائے گی۔ اور وہ شہر میں بزورِ حرب و ضرب دوبارہ راج کریں گے ۔ اس صورت ِ حال کے خدانخواستہ نافذ ہوتے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے چُپ سادھ کر اپنی راہ لیں گے۔ ماضی اور حال کے تناظر میں کراچی کے معاملات بیک وقت 
پیچیدہ اور سہل ہیں۔ دراصل حکمران اشرافیہ کی نیت اس فرق کو نمایاں کرتی ہے ۔ پریشان کن حد تک پیچیدگی کا سبب ماضی کے ناخوشگوار واقعات کا تسلسل اور قانون شکن عناصر کے خلاف فوج اور رینجرز کے کامیاب آپریشن کے بعد سیاست کے میدان میں زمینی حقائق سے آنکھیں چُرانے کا رُجحان ہے ۔ اِ س کیفیت کے جوابد ہ کراچی کے معاملات سے منسلک تمام افراد اور ادارے ہیں۔ بد قسمتی سے وفاق کا کردار اِس حوالے سے غیر سنجیدہ اور ناقابل ِ فہم ہے ۔ آج تک اسلام آباد نے مختصر دورانیے کے ایسے اقدامات کئے جن سے وفاق میں قائم حکومت کو وقتی سکون میسر آیا، لیکن کراچی کے رہنے والوں کے لئے دیر پا امن کی ضمانت ہمیشہ ایک خواب ہی رہی ہے۔ مستقل حل کی عدم موجودگی کے باعث ہزاروں خاندان بد امنی کی نذر ہو چکے ہیں ۔ شہر کے بعض علاقے حالات و واقعات کے مطابق ''نو گو ایریاز‘‘ بن جاتے ہیں ۔ تعلیم کا تسلسل بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔ سکول بوائے کے بجائے سٹریٹ چائلڈ کا سراپا فروغ پذیر ہے ۔ شفاخانے ، عدالتیں ، کاروبار ی ادارے اور ادب و صحافت کے مراکز گھیراؤ ، جبر اور لوٹ مار کی اذیت برداشت کرتے ہیں ۔ مرض کی تشخیص کئی بار کی گئی ہے؛ تاہم طبیب کی طبیعت ہی مائل بہ کرم نہیں ۔ سندھ کی حکومت وفاق کی جانب سے نافذ کئے گئے مختصر دورانیے کے اقدامات کی'' ہاں میں ہاں ‘‘ ملاتی ہے اس سے آگے شاید پر جلنے 
لگتے ہیں ۔ کراچی کے رہنے والوں میں کثیر تعداد اردو بولنے والے مسلمانوں کی ہے جو قیام ِ پاکستان کے بعد بھارت سے ترک وطن کرکے کراچی سمیت وطن ِ عزیز کے دیگر شہروں میں بس گئے تھے؛ تا ہم اُن کی بھاری تعداد نے کراچی کا رُخ کیا ۔ کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ ملازمت اور حکومت کے زیادہ تر مواقع اسی ساحلی شہر میں ہی تھے ۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ہجرت اپنے دامن میں متعدد سیاسی ، سماجی اور معاشی پہلو سمیٹے ہوئے تھی ۔ 1857 ء تک دہلی میں مسلمان حکمران تھے ۔ اس کے بعد شکست در شکست کا دور چلا۔ مسلمانوں کے لئے سب سے اہم سبق یہ تھاکہ بھارت میں اُنہیں عددی برتری کبھی حاصل نہیں ہو گی اور انگریزوں کے جانے کے بعد اُن کی گزر بسر ہمیشہ ہندوؤں کی سیاسی ، سماجی اور معاشی غلامی میں ہو گی ۔ یہ صورت ِ حال کسی صورت مسلمانوں کو قابل ِ قبول نہیں تھی۔ مسلمانوں نے ایک علیحد ہ مملکت کا خواب دیکھا جس کی تعبیر 14 اگست 1947ء کو نصیب ہوئی۔ مشرقی بنگال کے علاوہ پاکستان جن علاقوں میں جغرافیائی لحاظ سے وجود میں آیا‘ وہاں پہلے سے مسلمان اکثریت میں تھے ۔ مذہبی ہم آہنگی کے بل بوتے پر چند برس آرام اور سکون سے بسر ہوگئے ‘ اس کے بعد جمہوری سیاست نے مثبت روایات کے برعکس نفاق اور منافقانہ طرز عمل کو فروغ دیا۔ 
سیاسی ماحول میں کراچی کے رہنے والوں کا منفرد طرز ِ فکر تھا۔ دارالحکومت کے باعث اردو بولنے والے ملک بھر میں اثر و نفوذ کے حامل تھے ۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان دارلحکومت کراچی سے راولپنڈ ی کے قریب لے گئے اور اسلام آباد کے نام سے ایک نیا شہر بسانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ فیصلہ اردو بولنے والے مہاجروں نے خوشدلی سے قبول نہیں کیا۔ رہی سہی کسر 1971ء کی جنگ میں سقوط ِ ڈھاکہ نے پوری کر دی۔ مغربی پاکستان پر سندھی سپوت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہو گئی ۔ اُن کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز علی بھٹو نے سندھی زبان کو فطری پھیلاؤ کے بجائے حکم نامے کے ذریعے نافذ کر دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں سندھ بھر میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے ‘سندھی اور غیر سندھی کی تفریق نمایاں ہو گئی۔ اُردو بولنے والے غیر سندھی کے رُوپ میں سب سے آگے تھے ؛حالانکہ اُس زمانے میں کراچی میں پنجابی اور پشتو بولنے والے بھی کثیر تعداد میں آچکے تھے ۔ قصہ مختصر! سندھ میں پیپلز پارٹی کے مد ِ مقابل لسانی بنیاد پر متحرک سیاسی تنظیم کے قیام کے اسباب موجود تھے ۔جنرل محمد ضیأ الحق نے ''سندھ کارڈ‘‘ کے مقابلے پر ''مہاجر کارڈ ‘‘ کا اجرأ کر دیا جو دیکھتے ہی دیکھتے اردو بولنے والوں کے وجود کا حصہ بن گیا ۔ مشرقی پنجاب میں سب کچھ لٹانے اور کٹانے کے بعد پاکستان کا رُخ کرنے والے کہتے ہی رہ گئے کہ ہم بھی مہاجر ہیں لیکن اُن کی کسی نے نہ سنی ۔ آج بھی مہاجر سیاست سے مراد الطاف حسین کے فرمودات ہیں ۔ گزشتہ تین دہائیوںمیں متعدد بار کوشش کی گئی کہ کراچی میں ایم کیو ایم سے پہلے کا دور لوٹ آئے ۔عارضی تعطل کے بعد دوبار ہ''پتنگ‘‘ آسمان پر اُڑنے لگتی ہے ۔ البتہ ڈور الطاف حسین کے ہاتھ میں ہی رہتی ہے ۔ 
اسلام آباد میں قائم ہر حکومت نے ایم کیو ایم کو اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کیا۔ الطاف حسین اِس خدمت کا مشاہرہ کمال مہارت سے وصول کرتے رہے ۔ حکومت آرمی چیف کی ہو یا پیپلز پارٹی اور نواز لیگ وغیرہ کی ‘ ایم کیو ایم سب کی ضرورت رہی ہے اور شاید آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس آنکھ مچولی کے اصل متاثرین کراچی کے عوام ہیں ۔ اُنہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے شہری ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن بنیادی سماجی سہولیات سے محروم ہیں اور ایک انجانے خوف میں شب و روز بسر کر رہے ہیں ۔ اس خوف کا اصل سبب غیر یقینی سیاسی صورت ِ حال ہے ۔ رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے اپنی ڈیوٹی بخوبی انجام دے رہے ہیں لیکن اسلام آباد کو کراچی کے حوالے سے اپنے آئینی ، اخلاقی اور سماجی فرائض کب یاد آئیں گے ؟ دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر رہنے والے کب تک روایتی بیانات اور پتھرائی ہوئی تصاویر سے دوسروں کے کہنے پر خود کو بہلاتے رہیں گے ؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں