دہشت گردی کی ایک اور لہر نے وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ چند روز کے دوران مختلف مقامات پر المناک واقعات پیش آئے ۔تادمِ تحریر سانحہ سیہون شریف کے واقعات اور اثرات زیرِ بحث ہیں ۔ نوے کے قریب زائرین لقمہ اجل بن گئے ۔ تین سو کے لگ بھگ زخمی ہیں ۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور افواج کی جانب سے سانحہ کے بعد صورت ِ حال کو معمول پر لانے کے لیے تندہی سے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ جمعہ کو وزیرِ اعظم نواز شریف ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، چند وزرا اور دیگر اعلیٰ ٰ حکام کے ساتھ سیہون شریف پہنچ گئے ۔یہ تمام اقدامات اور قائدین کی مصروفیات حسبِ سابق‘‘ ایکشن ری پلے '' کی واضح عکاسی ہے ۔ دہشت گرد اپنے ٹھکانے اور نشانے تبدیل کر لیتے ہیں ۔ لیکن حکومتی ردِ عمل میں کمال کی یکسانیت ہے ۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ دیکھنے والوں کے اعصاب شل ہو رہے ہیں۔ ریاست کے تمام ستوں قول وفکر کے لحاظ سے ایک ہی لکیر پیٹنے میں مصروف
ہیں ۔ سانحہ سیہون شریف سے قبل لاہور کے مرکزی مقام چیئرنگ کراس پر المناک واقعہ پیش آیا۔ جس میں ڈی آئی جی احمد مبین ، ایس ایس پی زاہد گوندل سمیت متعدد پولیس اہلکار اور شہری شہید ہو گئے ۔ اس واقعہ کے بعد بھی شہداکی میتوں کی روانگی کے مناظر، پسماندگان سے اعلیٰ حکام کی تعزیت اور اعلیٰ سطحی اجلاس وغیرہ کا تسلسل میڈیا ناظرین کی اطلاع کے
لیے پیش کر رہا ہے ۔ دہشت گردی کے جواب میں بیانیہ اور ردِ عمل میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ سیاست کاروں کا طرزِ عمل سنجیدہ غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے ۔ جس کی ابتدا سیاسی قائدین کے بیانات اور رویے سے ہونی چاہیے ۔المناک سانحات کو معمول کی کارروائی سمجھ کر کچھ عرصے بعد ایک اور سانحہ کے انتظار میں‘‘ قیلولہ'' کی کیفیت طاری کرنا نیک شگون نہیں ہے ۔ عسکری اداروں کے علاوہ کسی اور ریاستی شعبے میں ہر واقعے کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوتا ہے ۔ افواج کا منفرد نظام ہے جس میں واقعے رونما ہونے کے بعد انتہائی باریک بینی سے پس منظر اور نقصانات کی صورت میں نظر انداز کئے گئے اقدامات پر غور کیا جاتا ہے ۔ تاکہ مستقبل میں دہشت گردی وغیرہ کے واقعات کو روکا جائے ۔ ماضی میں دہشت گرد شہروں میں مسلح افواج کے دفاتر اور بیرکس کو بھی نشانہ بناتے تھے ۔ آپریشن ضربِ عضب کے بعد اس کیفیت پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے ۔ اب براہ راست افواج کو نشانہ بنانے کے چند واقعات ایسے علاقوں میں ہوئے ہیں جہاں فوجی اور نیم فوجی دستے دہشت گردوں کی بچی کھچی کمین گاہوں کا صفایا کرنے میں مصروف ہیں ۔
دہشت گردوں کا اصل ٹارگٹ اب شہری علاقے اور نسبتاً ایسے مقامات ہیں جہاں بے ترتیب ہجوم اور بازاری کیفیت کی باعث انفرادی سکیورٹی کا نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا ۔ بد قسمتی سے موقعے پر موجود چند ایک سکیورٹی اہلکار جن میں پولیس ہی پیش پیش ہوتی ہے مقامی ماحول کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں ۔ میرے خیال میں چیئرنگ کراس کے حادثے میں جانی نقصان کو کم کیا جا سکتا تھا ۔سینئر پولیس افسر اپنے اقدامات کو مطلوبہ ایس ـاو ـپیزتک محدود رکھتے تو بہتر تھا ۔ ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کی سطح کے افسر سڑک کھولنے پر ازخود مامور ہو جائیں تو پولیس کے نظام کا از سر ِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس سطح کا افسر اہم ترین پوزیشن پر پہنچنے کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے ۔ اس کی تعلیم ، قابلیت اور صلا حیت ریاست کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ ڈی ـ ایس ـپی یا مقامی ایس ایچ او کو‘‘ بائی پاس'' کر کے جب میڈیا کی روشنیوں میں اعلیٰ افسر از خود میدان ِ عمل میں نکل آتے ہیں تو دہشت گردوں کو انتہائی قیمتی ٹارگٹ پلیٹ میں میسر آجاتا ہے ۔
شہید ہونے والے اعلیٰ پولیس افسروں کے جذبہ حب الوطنی ، فرائض ِ منصبی سے بے لوث لگائو اور ہر مشن کو ‘‘ اگلے مورچے '' کے طور پر سمجھ لینا مستقل حل نہیں ہے ۔ اعلیٰ افسر سے بھرپور پلاننگ کی توقع ہوتی ہے ۔ عمل در آمد کے لئے ماتحت تعینات کئے جاتے ہیں ۔ ایک مدت ہوئی کار ِ سرکار سے منسوب ترتیب نامے میڈیا کی پیشہ ورانہ ضروریات کے تابع ہو گئے ہیں ۔ کسی چینل کا ‘‘ لوگو'' نظر آجائے تو افسر سے سپاہی تک سب کیمرے کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ دہشت گرد کے لئے یہ بہترین موقع ہے ۔ہیلمٹ اور حفاظتی جیکٹ کے بغیر اعلیٰ پولیس افسروں کا ہجوم میں گھُل مل جانا اور اُن کے ہمراہ سکیورٹی گارڈز کی حفاظتی دائرہ کو نظر انداز کر کے ‘‘ٹاک شو'' میں شرکت کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوتے ۔ اس واقعہ سے مجھے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں لال مسجد آپریشن کے دوران پیش آنے والے کئی واقعات یاد آگئے ۔ وہ آپریشن زیادہ سے زیادہ علاقے کے ایس پی تک محدود رہنا چاہئے تھا۔ پولیس کے اہلکار اپنے علاقے کو
سب سے بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں ۔ بد قسمتی سے فوجی دستے میدان ِ عمل میں اُتار دیئے گئے ۔ پولیس کے افسر اور اہلکار مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے ۔ ایک روز راولپنڈی کور کمانڈر بھی عسکری جیپ میں تشریف لے آئے ۔ معاملات سنبھلنے کے بجائے اور بگڑ گئے ۔ سول سوسائٹی اور میڈیا جو پہلے عسکری ایکشن کا مطالبہ کر رہے تھے بعد میں بوجوہ پیچھے ہٹ گئے اور منفی رویہ اختیار
کر لیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے مخالف سیاست کار پہلے ہی تاک میں تھے ۔ اُنہوں نے منفی صورتحال کا سارا ملبہ عسکری حکومت اور فوجی آپریشن پر ڈال دیا اور خود ہمیشہ کے لئے بری الذمہ ہوگئے ۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کا بیانیہ سیاسی ترجیحات میں اتار چڑھاؤ کے باعث عوام کے ذہنوں میں جڑ نہیں پکڑسکا ۔ یہ درست ہے کہ عسکری کامیابیوں کی بنیاد پر طویل المدت پالیسی ترتیب دینا ممکن نہیں ہے ۔ آپریشن ضرب ِ عضب کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ سیاسی قیادت آپریشن کے آغاز سے پہلے گومگو کی حالت میں تھی اور اب بے مثال عسکری کامیابیوں نے بھی سیاسی ترجیحات کو تبدیل نہیں کیا ۔ وفاق پر مخصوص سیمابی کیفیت حاوی ہے ۔ اُن کے خیال میں پنجاب کو سیاسی لحاظ سے جیب میں رکھ کر پورے پاکستان پر بلا شرکت غیرے حکومت کی جا سکتی ہے ۔ بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں کسی نہ کسی حوالے سے فوج اور نیم فوجی دستے مصروف ہیں ۔ اپیکس کمیٹی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ اس کے برعکس پنجاب میں ‘‘ سب اچھا '' ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے متعدد بار نشاندہی کی گئی کہ پنجاب کے شہروں اور قصبات میں کالعدم تنظیمیں اور دہشت گرد گروہ پھل پھول رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ اسلام آباد اور لاہور ٹس سے مس ہو جائیں ۔ یہ رویہ وفاق کے عمومی تصور کے منافی ہے ۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ سابق آرمی چیفس جنرل ( ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنر ل (ر) راحیل شریف بھی اس حوالے سے وفاق کو قائل نہیں کر سکے کہ صرف تین صوبوں میں فوج رینجرز اور فرنٹیئر کور کے دستے مسلسل ‘‘ بر سر ِ پیکار '' رکھنے سے سیاسی ، سماجی اور عسکری اثرات مثبت نہیں ہوں گے ۔ لاہور کا المناک واقعہ اور سیہون شریف میں سفا کانہ دہشت گردی کا ردِ عمل حسبِ معمول یکساں نہیں ہونا چاہئے ۔ قوم سیاسی قائدین اور عسکری حکام کی جانب خوشگوار اُمید کے ساتھ دیکھ رہی ہے ۔ کاش اس مرتبہ حسب ِ سابق دہشت گردی کی لکیر پیٹنے کے بجائے ایک واضح اور فعال حکمتِ عملی کو پوری قوت اور گرفت کے ساتھ نافذ کیا جائے تا کہ خوف اور بے یقینی کی فضأ سے عوام کو جلد چھٹکارا حاصل ہو سکے ۔