یہ بات طے ہے کہ عدالتی نااہلی کے باوجود ن لیگ میں جو کچھ بھی ہو گا وہ نواز شریف صاحب کی مر ضی سے ہی ہو گا۔ اب یہ سیاسی منظرنامہ خواہ کسی کو بھائے یا کوئی ناک بھوں چڑھائے‘ سب کو آئندہ انتخابات تک یہ صورتحال برداشت کرنی ہو گی۔ آئندہ وزیر اعظم خواہ عبوری ہو یا غیر عبوری‘ اُس کی حیثیت کٹھ پُتلی وزیر اعظم سے زیادہ نہیں ہو گی۔ وہ ہر صورت میں نواز شریف صاحب کی ہدایات کا پابند ہو گا۔ یوں اندازِ حکمرانی سیاسی لحاظ سے منفرد اور عجیب دکھائی دے گا۔ لیکن شاید بعض حلقوں کے لیے یہ انوکھا نہیں کیونکہ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اسی اندازِ میں اپنا حقِ حکمرانی استعمال کرتی رہی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں پیپلز پارٹی اور وزیر اعظم کو ایک ہی تیر میں پروئے رکھا۔ اب زرداری فارمولا کے مطابق نواز شریف صاحب کی نامزد ایک عدد کٹھ پُتلی شخصیت ن لیگ کی ہچکولے کھاتی ہوئے کشتی کو آئندہ انتخابات تک سنبھالے رکھے گی۔ یہ شخصیت پارٹی ممبران کے پُرزور اصرار پر نمایاں ہو گئی ہے۔ مسلم لیگی ممبران کے پاس''پُرزور اصرار‘‘ کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ کیفیت مسلم لیگ کی رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے کہ جو حکمران ہوتا ہے اُس کی مرضی دیکھ کر پُرزور اصرار کرتے رہتے ہیں۔ تالیاں پیٹتے ہیں۔ حکمران قائد کی معمول کی گفتگو پر نعرہ زن رہتے ہیں۔ لیگیوں میں یہ کیفیت پروان چڑھانے میں مارشل لا حکومتوں کو خاص دخل رہا ہے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کو معلوم نہیں یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ ایک عدد مسلم لیگ تخلیق کرنے سے اُن کے اقتدار کو دوام مل سکتا ہے۔ ایوب خان اچھے بھلے عوامی نوعیت کے کام کر رہے تھے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم بن چکے تھے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے ابتدائی کام شروع تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو بیک وقت بنیادی جمہوریت اور مسلم لیگ کے ''عارضے‘‘ لاحق ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ وجود میں آ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب بلا مقابلہ جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان صدر اور نامور لیگی رہنما چوہدری خلیق الزمان چیف آرگنائزر وغیرہ وغیرہ۔ سرکاری مسلم لیگ کا عَلم بلند ہوا اور وطن عزیز میں ترقی کا مطلع ابر آلود ہو گیا۔ صدارتی انتخابات میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح لکھم ہائوس کراچی میں مشاورت کے نتیجے میں میدان میں آ گئیں۔ مسلم لیگ کی بھاگ دوڑ فیلڈ مارشل ایوب خان کی نظرِ کرم کی محتاج تھی۔ اُن کا اقتدار ختم ہوتے ہی مسلم لیگ (کنونشن) لاپتہ ہو گئی۔ یہ ایک طویل کہانی ہے۔ اس طرح جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے دور میں ایک اور مسلم لیگ وجود میں لائی گئی جس کے خالق موجودہ گورنر سندھ جناب محمد زبیر صاحب اور تحریک انصاف کے صفِ اول کے رہنما اسد عمر صاحب کے والد گرامی میجر جنرل (ریٹائرڈ) غلام عمر تھے۔ وہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی حکومت میں سیاسی اُمور کے نگران تھے۔ یہ مسلم لیگ بھی جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی رخصتی کے ساتھ مکافاتِ عمل کا شکار ہو گی‘ حالانکہ اِس جماعت کو ایک دور میں نامور مسلم لیگی خان عبدالقیوم خان کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ اب آتا ہے ایک اور فوجی حکمران جنرل محمد ضیاء الحق کا دورِ حکومت۔ انہیں بھی کسی دور اندیش مشیر نے مسلم لیگ کو گود لینے کا مشورہ دیا جو اُنہوں نے وردی سمیت قبول کر لیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت کی برطرفی کے بعد پاکستان قومی اتحاد سے تعلق رکھنے والی نو جماعتیں جنرل محمد ضیاء الحق کی گود میں ازخود براجمان ہو گئی تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی حکمران چیف آف آرمی سٹاف کو اس قدر سیاسی پذیرائی ملی ہو گی۔ اُس دور کے سیاسی زعما کے اسمائے گرامی تحریر کرنے کا کیا فائدہ کیونکہ سیاستدانون کو اپنے اقدامات کا دفاع کرنے کا ہنر خوب معلوم ہے۔ یہ بے چارے فوجی حکمران ہیں جو اقتدار سے محروم ہونے کے بعد نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات کا سیاست کے بازار میں چرچا نہیں کر سکتے۔
خیر! جنرل ضیاء الحق نے بھی فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے ادوار کو سیاسی لحاظ سے آگے برھاتے ہوئے ایک اور مسلم لیگ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ملک کے طول و عرض میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مسلم لیگی رہنما اور کارکن متحرک ہو گئے۔ اخبارات میں خوش کن خبروں اور فرمائشی رائے زنی کا بازار گرم تھا۔ سندھ کے ایک روایتی سیاستدان جناب محمد خان جونیجو قائد کے طور پر آگے لائے گئے تھے۔ اُنہیں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ اعتماد کا ووٹ بھی حاصل ہوا۔ اِس دور میں محمد نواز شریف صاحب حکمران مسلم لیگ کی سیاست میں دھیمے دھیمے داخل کئے گیے۔ مسلم لیگی سیاست کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں تازہ ترین رہنما کو کچھ زیادہ بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ نیک کام ''باوردی‘‘ سرپرست ہی سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ملک میں چیف آف آرمی سٹاف کی حکومت ہو تو حکمران مسلم لیگی لیڈر کی اکڑفوں قابلِ دید ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فوجی حکومت رخصت ہوتے ہی یہ مسلم لیگی لیڈر عسکری حکومت کے سب سے بڑے نقاد بن جاتے ہیں اور ان سے بڑا جمہوریت کا چیمپئن کوئی نہیں ہوتا۔ یہ رویہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے لے کر نواز شریف صاحب تک ایک جیسا ہے۔ ماضی قریب میں جنرل پرویز مشرف صاحب کو بھی اپنے اقتدار کے لیے مسلم لیگ کو دوبارہ ''جنم‘‘ دینے کا خیال آیا۔ اُنہوں نے بھی ایک عالی شان مسلم لیگ کو وجود بخشا جس کی زندگی اُن کے وجود سے ہی مشروط تھی۔ شومیء قسمت! عسکری ادوار میں پرورش پانے والی مسلم لیگ ہزار جتن کے باوجود سیاسی لحاظ سے عجیب الخلقت سراپا کی مالک ہے۔ معمولی نوعیت کے سیاسی بحران میں مسلم لیگی دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اکتوبر 1999ء میں جب نواز شریف صاحب کی حکومت کو چلتا کیا گیا تو مسلم لیگی ارکان اسمبلی لاوارث ریوڑ کی مانند تتربتر ہوگئے۔ چند ایک استثنیٰ ضرور تھے۔ اُن کی ثابت قدمی سیاسی تاریخ میں آج بھی روشن ہے۔ غور کریں تو مسلم لیگ کی تخلیق روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ علی الصبح اخبارات کی شہ سرخی کے ساتھ نئی زندگی کی نوید ملتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف صاحب کی مسلم لیگ کو ناگہانی سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ اس کا حل صرف اور صرف جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے پاس ہے۔ بدقسمتی سے نواز شریف صاحب نے قومی اسمبلی کے مسلم لیگی اراکین کو خاص اہمیت نہیں دی۔ موصوف اسمبلی میں کبھی کبھار ''دورے‘‘ پر آیا کرتے تھے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس باقاعدہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے خود کو پارلیمانی پارٹی سے توانا رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر عسکری حکمران نے کٹھ پُتلی وزیر اعظم کو ترجیح دی۔ آصف زرداری صاحب نے بھی اس حکمتِ عملی کو آگے بڑھایا ۔ حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد اب یہ پوزیشن نواز شریف صاحب کو حاصل ہو گئی ہے۔ اُنہیں دور رس فیصلے کرنے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ ایک دیانتدار، صاحبِ فہم و فراست اور سیاسی معاملات پر عبور رکھنے والی شخصیت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر آگے لایا جائے۔ پارلیمانی پارٹی کو مزید فعال کیا جائے۔ ''کٹھ پُتلی‘‘ وزیر اعظم سے جمہوریت کسی صورت مضبوط نہیں ہو گی۔ ہر روز ایک نیا قضیہ سامنے آئے گا۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ ''کٹھ پُتلی‘‘ میں اچانک ہوا بھر جاتی ہے اور وہ اپنے ''تخلیق کار‘‘ سے جا ٹکراتا ہے۔ یہ تکلیف دہ منظرنامہ ہوتا ہے۔ پارلیمان کے معاملات کو معمول کے مطابق وسعت دی جائے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں شریف خاندان کے علاوہ بھی متعدد گوہر نایاب موجود ہیں۔ نواز شریف صاحب کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ لاہور سے ماورا کسی قد آور شخصیت کو وزیر اعظم بنانے سے اُن کا سیاسی قد کاٹھ کم نہیں ہو گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک روز قبل چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس میں سوچنے، سمجھنے اور کر گزرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔