باون برس پہلے…

ایک اور چھ ستمبر بیت گیا۔ یہ چھ ستمبر 1965ء کی 52ویں سا لگرہ تھی۔ ماشااللہ۔ گزرے ہوئے باون برس میں متعدد بار چھ ستمبر کی اہمیت اور کیفیت کو نظر انداز کرنے کی شعوری کوششیں کی گئی ہیں۔ پہلے چھ ستمبر کو سرکاری تعطیلات کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔ جنوبی ایشیا کا اپنا مزاج ہے۔ یہاں سرکاری تعطیل سے اہم دن کی وقعت اُجاگر ہوتی ہے۔ اب یہ بحث برائے بحث ہو گی کہ یہ سیاسی فیصلے کس نے کیے‘ اور کون عسکری لحاظ سے سہولت کار تھا۔ ہدف صرف چھ ستمبر تھا کیونکہ اس دن کی موجودگی میں جنگ اکہتر سے متعلق ایک مخصوص گروہ کا بیانیہ متاثر کن نہیں رہتا ہے۔ پاک افواج سے متعلق شکست اور ناکامیوں کی ادھوری کہانیاں، مارشل لاء دور سے منسوب بنیادی حقوق وغیرہ کی پامالی کی جھوٹی سچی داستانیں اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منتخب جمہوری حکومتوں کی سیاسی، سماجی اور معاشی کج آرائیوں کو فوج کی دیومالائی بالادستی سے منسوب کیے رکھنا بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ 
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک چھ ستمبر کا ذکر بھرپور انداز میں جاری ہے۔ آرمی کے ساتھ نیوی آٹھ ستمبر اور پاک فضائیہ سات ستمبر کو 1965ء کی جنگ میں کامیابیوں اور شہدا کی یاد میں تقریبات روایتی اہتمام کے ساتھ ترتیب دیتی ہیں۔ چھ ستمبر کی تقریبات میں تینوں سروسز، سول آرمڈ فورسز اور پولیس کے افسر اور جوان اپنے تابندہ وجود سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ سرحدوں کی حفاظت اور اندرونی سلامتی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے گا۔ 
بات چھ ستمبر کی اہمیت سے شروع ہوئی تھی۔ ایک اہم ترین وار یہ کیا گیا ہے کہ سکولز کے نصاب سے یوم دفاع اور پاک افواج کی کامیابیوں کے حوالے سے ابواب حذف کرکے نادیدہ غیر ملکی قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہئے کہ پرائمری اور سیکنڈری سکولز میں پڑھایا جانے والا نصاب طالب علم کی آئندہ زندگی کے سماجی اور معاشرتی رُخ متعین کرتا ہے۔ یہ کسی فقہی عقیدے یا سیاسی نظریے کی بات نہیں ہے بلکہ اپنی ریاست کے وجود کو درپیش عسکری خطرات کے حوالے سے آگاہی کا معاملہ ہے۔ شاید باون برس کی عمر کے افراد چھ ستمبر پر بھرپور گفتگو نہ کر سکیں کیونکہ یہ اُن سے عمر رسیدہ افراد کے بچپن کی کہانی ہے کہ جب چھ ستمبر 1965ء کو بھارت نے بیک وقت لاہور، سیالکوٹ اور قصور پر یلغار کر دی تھی۔ صرف لاہور پر قبضے کے لیے بھارتی فوج کے تین ڈویژن برسرِ پیکار تھے۔ اُن میں 23واں پہاڑی ڈویژن بھی شامل تھا‘ جسے ریزرو کے طور پر جنگ میں جھونک دیا گیا تھا۔ آج کل کچھ قلم کار جنہیں '' قلمچو‘‘ کہنا بہتر ہو گا‘ یہ راگ الاپتے ہیں کہ 65ء کی جنگ میں پاکستان نے کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ جنگ میں کون جیتا، کون ہارا اس بحث سے ہٹ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ سترہ روزہ خونریز جنگ کے باوجود بھارت ہمارے کسی اہم شہر یا قصبے پر قبضہ نہیں کر سکا۔ یہ پاکستانی فوج کی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے؟ مجھے لاہور کا معرکہ اچھی طرح یاد ہے۔ میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں فرسٹ ائیر کا طالبِ علم تھا۔ والدِ گرامی لاہور چھائونی میں محکمہ دفاع کے ایک ذیلی سول ادارے کے ساتھ منسلک تھے۔ ہمارے سرکاری گھر کے سامنے گرائونڈ تھی اور اردگرد آرمی افسروں اور جونیئر کمشنڈ افسروں کی فیملی رہائش گاہیں تھیں۔ یکم ستمبر 1965ء سے چھمب جوڑیاں کا محاذ گرم تھا۔ پاک افواج اور آزاد کشمیر فورسز پیش قدمی کر رہی تھیں اور بھارتی فوج شدید دبائو میں تھی۔ چھ ستمبر کا سورج طلوع ہونے میں ابھی چند گھنٹے باقی تھے کہ بھارتی افواج نے تمام بین الاقوامی سرحدی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاہور پر حملہ کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ علی الصبح پی ٹی کِٹ میں ملبوس افسر اور جوان گاڑیوں میں سوار ہوکر سرحد کا رُخ کر رہے تھے۔ میں نے سائیکل نکالی اور کالج جانے کے بجائے میڈیکل سٹور بس سٹاپ پر کھڑا ہو گیا۔ فوجی دستے اپنی بیرکس میں سے نکل کر والہانہ انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ملٹری پولیس کے جوان شہریوں کو روکے ہوئے تھے تاکہ فوجی دستوں کے لئے سڑک صاف رہے۔ عام شہری بھی حملے کی خبر سُن کر گھروں سے باہر نکل آئے۔ جس کے ہاتھ میں جو آیا، وہ اُٹھائے واہگہ سرحد کی جانب بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک ایک بھاری بھرکم گاڑی آئی اور اس نے ٹریفک کے لیے مقررہ گول چکر صاف کرنے شروع کر دیے۔ چند لمحات کے بعد ٹینک گزرنے لگے‘ جن میں ایستادہ افسر اور جوانوں کے چہرے اطمینان اور وقار کا مظہر تھے۔ انفنٹری، آرٹلری، آرمرڈ، انجینئرز، سگنلز اور میڈیکل دستے‘ سب نکل کھڑے ہوئے تھے۔ بھاری توپ خانہ آر اے بازار کے قریب نصب کر دیا گیا تھا‘ جہاں سے رانی اور شیرنی توپیں دن رات دشمن پر آگ برساتی تھیں۔ یہ سلسلہ سیزفائر تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ گھر کے باہر مورچے تیار ہو گئے تاکہ ہوائی حملے کی صورت میں فوراً پناہ لی جائے۔ میں صرف لاہور کے محاذ کا ذکر جاری رکھوں تو شاید کتاب مرتب ہو جائے۔ ہنستا بستا لاہور دشمن کا ہدف تھا۔ محاذ لاہور کے ایک ہیرو لیفٹیننٹ کرنل شفقت بلوچ ستارہ جرات (مرحوم و مغفور) نے مجھے بتایا کہ 120 سپاہیوں پر مشتمل ان کا دستہ بی آر بی نہر کے اُس پار تعینات تھا کہ دشمن کی یلغار کا آغاز ہو گیا۔ وہ بڑھتے چلے آرہے تھے۔ کرنل بلوچ تب میجر تھے اور جنگ شروع ہوتے ہی گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔ تاہم انہوں نے محاذ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ موقع پر ہی طبی امداد کے بعد دستے کی کمان جاری رکھی۔ اس دوران مزید کمک پہنچ گئی اور منصوبے کے مطابق نہر کے اِس پار دفاع مضبوط ہوتے ہی کرنل بلوچ کے دستے کو واپس بلا لیا گیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ اللہ کی نصرت کا ایک مظہر یہ ہے کہ 24 گھنٹے کی مسلسل جنگ میں اُن کے صرف دو جوان شہید ہوئے‘ اور وہ خود زخمی ہو گئے۔ یہ صورتحال ہر محاذ پر تھی۔ ائیرفورس کے شاہینوں نے کمال ہی کر دیا۔ کئی گُنا بڑے دشمن کے ہوا باز پاکستان کی حدود میں داخل ہونے سے خوف زدہ تھے۔ نیوی کے معرکے بھی اس معیار کے تھے کہ جنگ کے دوران بھارتی بحریہ کو پاکستان کی سمندری حدود میں داخلے کی ہمت نہیں ہوئی۔ پاک بحریہ نے آگے بڑھ کر بھارتی بندرگاہ دوارکا کو نشانہ بنایا۔ 
سیاستدان، ادیب، شاعر، صحافی اور دیگر شہری‘ ہر کوئی اپنے اپنے فرض کے مطابق مورچہ زن تھا۔ ریڈیو پاکستان اور ننھا منا پی ٹی وی‘ جس کی عمر ابھی دو برس بھی نہیں تھی‘ شہریوں اور فوجیوں کے بلند حوصلے برقرار رکھنے میں دن رات مصروف عمل تھے۔ 
چھ ستمبر کی ایک اہم ترین سرگرمی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی معرکۃ آرا تقریر تھی‘ جس نے افواج سمیت قوم کا جذبہ اور ہمت برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے جب یہ کہا کہ بھارت کو نہیں معلوم کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے تو ہر طرف ایک عجب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ قوم سیسہ پلائی دیوار کی مانند دشمن کے سامنے ڈٹ گئی۔ باون برس گزرنے کے بعد 2017ء میں اُنیس سو پینسٹھ کے چھ ستمبر کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ ایک مثال آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی 14 اگست2017ء کو واہگہ سرحد پر تقریر ہے‘ جس میں اُنہوں نے دشمن کو دوٹوک الفاظ میں پیغام دیا ہے کہ ''پاکستان کے دشمن یہ بات جان لیں کے اُن کے بارود اور گولیاں ختم ہو جائیں گی لیکن ہمارے جوانوں کی چھاتیاں ختم نہیں ہوں گی‘‘۔ آرمی چیف نے چھ ستمبر کو یوم دفاع و شہدا کے موقع پر بھی دفاعی امور پر اپنے واضح موقف کا اعادہ کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ اعلانات نے قوم میں ہمت، یقین اور جذبے کو مزید بیداری عطا کی ہے۔ ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ چھ ستمبر کے جذبے کو ہر صورت میں زندہ رکھا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مدد، افواج کی بہترین پیشہ ورانہ کاوش اور عوام کے مثالی جذبہ حب الوطنی کا نتیجہ تھا‘ جس نے پوری قوم کو اقوام عالم کے سامنے سُرخرو کیا۔ سچی بات یہ ہے جو قائدین شہدا کے لواحقین اور غازیوں کی تابندہ نگاہوں کا سامنا نہیں کر سکتے‘ اُنہیں افواج کے بارے میں یاوہ گوئی سے پرہیز کرنی چاہئے۔ آئی آیس پی آر سے گزارش ہے کہ ایسے تمام صاحبانِ سیاست و صحافت کو چند روزکے لیے سیاچن سے صحرائے تھر تک اگلے مورچوں کی سیر کرائی جائے تاکہ اُنہیں زمینی حقائق سے آگاہی ہو سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں