’’سوچی سمجھی جمہوریت‘‘

انٹرمیڈیٹ کالج میں تھے تو وطنِ عزیز میں بنیادی جمہوریت کی حکمرانی تھی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مارشل لا کے باوجود مرحلہ وار جمہوریت کی بحالی کے لیے منصوبہ بندی کی۔ عالی دماغ دانشور جمع ہوئے۔ صفِ اول کے متعدد سیاستدان بھی پیش پیش تھے۔ پاکستان کے سیاسی مسائل کا حل بنیادی جمہوریت میں تلاش کیا گیا۔ یہ طرزِ جمہوریت وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر عوامی نمائندگی کا ملغوبہ تھا۔ اس نظام میں بی ڈی ممبران اسمبلی اراکین اور صدرِ مملکت کا انتخاب کرتے تھے۔ پاکستان میں 1962ء کا آئین نافذ تھا‘ جس کی اساس صدارتی طرزِ حکومت تھا۔ صدرِ مملکت کی کابینہ تھی۔ صوبائی گورنرز تھے۔ ظاہر ہے اُس زمانے میں یہ صرف دو افراد تھے: گورنر مغربی پاکستان اور گورنر مشرقی پاکستان جو صوبائی کابینہ کے ذریعے نظام حکومت جاری رکھے ہوئے تھے۔ وزراء اسمبلی میں ممبران کو جوابدہ تھے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ''حزبِ اختلاف‘‘ بھی موجود تھی۔ 
صدارتی نظام فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور تک محدود رہا۔ ملک گیر تحریک کے نتیجے میں صدرِ پاکستان مستعفی ہوئے تو اُن کے جانشین کمانڈر انچیف پاکستان آرمی جنرل آغا یحییٰ خان نے 1962ء کا آئین منسوخ کرکے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ کمانڈر انچیف کے اس اقدام کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا۔ اِس سے قبل سات اکتوبر 1958ء کو اُس وقت کے صدر سکندر مرزا نے 1956ء کے آئین کو منسوخ کرکے مارشل لاء نافذ کر دیا تھا۔ اور کمانڈر انچیف محمد ایوب خان کو نظامِ حکومت رواں رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ بیس روز کے بعد جنرل ایوب خان نے پاکستان کے پہلے صدر سکندر مرزا کو برطرف کرکے مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں عام انتخابات ہوئے، صدارتی انتخاب بھی ہوا۔ بنیادی جمہوریت کا نظام ہی غالب رہا۔ ایوب خان کی مخالف سیاسی جماعتیں اس نظام کی شدید مخالف تھیں۔ تاہم بنیادی جمہوریت کا باعث یونین کونسل سطح تک جمہوری حرارت میں اضافہ ہوا اور عام آدمی کو ''پوچھ گچھ‘‘ کے لیے منتخب نمائندہ گھر کی دہلیز پر ہی میسر آگیا۔ 1970ء میں صدرِ مملکت اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے حکم پر عام انتخابات ہوئے۔ عام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم منظم کرنے کے لیے کھلی چھٹی دی گئی۔ جلسے جلوس معمول بن گئے تھے۔ 
مجھے یاد ہے گوالمنڈی لاہور میں پاکستان جمہوری پارٹی میں انتخابی جلسہ ہو رہا تھا۔ پارٹی کے صدر نواب زادہ نصراللہ خان تقریر فرما رہے تھے۔ اُن کا استدلال تھا کہ 1956ء کا آئین بحال کیا جائے‘ جو تمام پاکستانیوں کی جمہوری سوچ کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یاد رہے کہ 1970ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو بھی شریک تھے۔ اُنہیں 1956ء یا 1962ء کے منسوخ شدہ آئین کی بحالی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنی تقاریر میں ''آئین‘‘ کی اصطلاح کا تمسخر اُڑایا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں اُن کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ '' آئین کوئی چپل کباب ہے جس سے غریب کے بچے کا پیٹ بھرے گا، مجھے عوام کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان چاہیے‘‘۔ یہ سُن کر عام آدمی اپنے مستقبل کے بارے میں مسحور کن کیفیت سے دوچار ہو جاتا تھا۔ بات گوالمنڈی لاہور کے جلسے کی ہو رہی تھی۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے جونہی 1956ء کے آئین کے حق میں بات کی تو سٹیج کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے چھابڑی اُٹھا کر مقرر کی جانب اُچھال دی۔ خوش قسمتی سے جمہوری پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما خواجہ محمد رفیق بھی سٹیج پر موجود تھے۔ اُنہوں نے صورتحال پر قابو پایا۔ جلسے کے شرکاء نے چھابڑی پھینکنے والے شخص کی دُرگت بنانے کی کوشش کی تو خواجہ محمد رفیق نے اُسے عوام کے غیظ و غضب سے بچایا اور چند کارکنوں کے ہمراہ جلسے سے چلتا کیا۔ 
1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں 1956ء اور 1962ء کے آئین عوامی پذیرائی حاصل نہ کر سکے۔ شاید انتخابات میں حاصل کرنے والی دونوں جماعتوں کے پیشِ نظر ہدف کچھ اور ہی تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی آئین کے حوالے سے تصادم کے راستے پر چل نکلے۔ مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کے جلسے ''عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر‘‘ بن گئے۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے بھی عوام کے جذبات کو ''ناقابلِ واپسی‘‘ انتہا تک پہنچا دیا۔ رہی سہی کسر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے مارچ 1971ء میں نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرکے پوری کر دی۔ یہ اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا گیا تھا۔ اس اعلان نے مشرقی پاکستان میں وفاقی سوچ کے حامل سیاستدانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے انتہائی تکلیف دہ صورتحال پیدا کر دی۔ بھارت پہلے ہی موقع کی تاک میں تھا۔ اُس کے تربیت یافتہ ''کاریگر‘‘ انتخابات سے قبل ہی ڈھاکہ سمیت تمام اہم شہروں اور قصبوں میں موجود تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال کنٹرول سے باہر ہوگئی اور وطن عزیز دولخت ہو گیا۔ 1956ء اور 1962ء کے آئین اور مارشل لاء حکمنامے اُس وقت کے اقتدار پرست سیاسی قائدین اور غیر سیاسی اذہان کے حامل عسکری حکمرانوں کی مجرمانہ چشم پوشی کی نذر ہو گئے۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے خودکو صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ آئین کی تیاری شروع ہوگئی۔ 1973ء کا آئین تشکیل پایا اور سب نے آئین پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ یہ وفاقی اور پارلیمانی آئین ہے‘ جس کا آغاز اور اختتام جمہوریت ہے۔ 1973ء کے آئین کو نافذ ہوئے پینتالیس برس ہونے کو ہیں‘ لیکن جمہوریت کے سراپا پر اتفاق نہیں ہو رہا ہے۔ بھٹو صاحب برسرِ اقتدار تھے تو پاکستان قومی اتحاد نے جمہوریت کے حق میں زبردست تحریک چلائی۔ الزام تھا کہ عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ بھٹو صاحب عوامی جمہوریت کے ''داعی‘‘ تھے‘ جبکہ قومی اتحاد والے شفاف جمہوریت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ سیاسی لڑائی کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء ظہور پذیر ہو گیا۔ اُنہوں نے ''اسلامی جمہوریت‘‘ کا علم بلند کر دیا۔ 1973ء کے آئین میں متعدد ترامیم پارلیمان کے ذریعے نافذ کی گئیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے بعد نواز شریف صاحب نے اپنے انداز میں لاہوری جمہوریت کو عام کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ 1973ء کا آئین رخصت ہونے والے وزیر اعظم اور برسر اقتدار آنے والے چیف آف آرمی سٹاف کے سامنے بے بس دکھائی دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی مخصوص طرز کی جمہوریت کا دور جاری رہا۔ حقِ حکمرانی میں عوام کا حصہ یقینی بنانے کے لیے نت نئے تجربات کئے گئے لیکن جمہوریت کے اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہ ہو سکی۔ عسکری حکمرانوں کو رخصت ہوئے دس برس ہوگئے ہیں۔ جمہوریت سیاسی قائدین کی من مانی سے خوف زدہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پارٹی سربراہ آصف علی زرداری نے ایوانِ صدر کو مرکز سیاست بنایا تھا‘ جو 1973ء کے آئین کی خلاف ورزی تھی۔ اب مسلم لیگ ن کے نااہل (سابق) سربراہ نواز شریف ہر قیمت پر ریاست کے تمام ستون اپنے زیرِ نگین دیکھنا چاہتے ہیں۔ پارلیمان میں پلک جھپکتے ہی ترامیم پاس کرائی جا رہی ہیں۔ وطنِ عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ جج صاحبان کی تضحیک معمول بن چُکی ہے۔ پاک افواج کے بارے میں ذو معنی تحقیر آمیز لہجے اپنائے گئے ہیں۔ اس عمل میں جی ٹی روڈ کے بعض پیادے آگے آگے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے قائد کی مانند جی ٹی روڈ کے مخصوص ٹکڑے کو پاکستان سمجھ لیا ہے۔ چند ہزار کا مجمع بیس کروڑ عوام بن گئے ہیں۔ حلقہ 120 میں ''شیر‘‘ صرف بیس فیصد کے قریب ووٹ حاصل کر سکا ہے‘ جبکہ مخالف ووٹوں کی تعداد زیادہ تھی۔ یہ طرز عمل کسی طور جمہوری نظام کی خدمت نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ رائج الوقت جمہوری تماشے کا مقصد آزاد عدلیہ اور وطن عزیز کے دشمنوں سے برسرِ پیکار پاک افواج کے وقار اور صلاحیت کو مجروح کرنا ہے۔ یہ سلسلہ دراز ہو سکتا ہے‘ لیکن انجام وہ نہیں جو ''سوچی سمجھی جمہوریت‘‘ کے موجد طے کر چکے ہیں۔ مستقبل آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کا ہے۔ عوام کو یقین ہے کہ شفاف طرزِ سیاست سے ہی وطنِ عزیز کے ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے اور پارلیمان ایک باوقار، معتبر اور استحکام کی علامت کے طور پر تابناک نظر آئے گی۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں