گزرے اتوار روزنامہ ''دنیا‘‘ میں شائع ہونے والا جناب مجیب الرحمن شامی کا کالم ''ایڈیٹر کی تلاش‘‘ غور طلب تحریر ہے۔ قدیم صحافت اور جدید ابلاغیات کے طالب علم کی حیثیت سے یہ کالم مجھے دل کے قریب محسوس ہوا۔ ''ایڈیٹر کی تلاش‘‘ کا دو بار مطالعہ کیا۔ یہ کیفیت مجھے برسوں پہلے کے زمانے میں لے گئی۔ 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا تو شب و روز قلمی مشقت کا عملی آغاز ہو گیا۔ یہ مشقت ایک برس پہلے ہی شروع ہوگئی تھی جب استاد محترم پروفیسر مسکین علی حجازی (مرحوم و مغفور) نے مجھے اور ہم جماعت اجمل ملک کو روزنامہ نوائے وقت میں اپرنٹس سب ایڈیٹر ''بھرتی‘‘ کرا دیا۔ اعزازیہ دو سو روپے ماہانہ تھا‘ جو اُس زمانے میں باقاعدگی سے ہر ماہ کی پانچ تاریخ تک مل جایا کرتا تھا۔ ہم دونوں ایم اے صحافت (فائنل ائیر) کے طالب علم تھے۔ اپرنٹس شپ کے پہلے ہفتے ہی یونیورسٹی کی ''تن آسانی‘‘ ٹھکانے لگ گئی تھی۔ ڈیوٹی چھ بجے شام شروع ہوتی تھی اور اخبار کی کاپی پریس جانے تک نیوز روم میں ''ہوشیار باش‘‘ حالت میں مصروف رہتے تھے۔ خاص طور سے ریڈیو مانیٹرنگ اور انگلش سے اردو ترجمہ ابتدائی اسباق تھے‘ جو عملی طور پر سکھائے گئے۔ چار مہینے یونہی گزر گئے تو استادِ محترم ظہور عالم شہید صاحب (مرحوم و مغفور) نے ایک امتحان کا اعلان کیا جس میں کامیابی کے نتیجے میں ''اپرنٹس شپ‘‘ کا خاتمہ اور سب ایڈیٹر کی حیثیت سے باقاعدہ تعیناتی تھی۔ ایک دو مرتبہ کمپارٹمنٹ آئی‘ لیکن اساتذہ کرام کی شفقت تھی جس کے باعث کامیابی حاصل ہوئی۔ اب میں اور اجمل ملک ایک قومی اخبار میں ''سب ایڈیٹر‘‘ تھے۔ ابھی ایم اے صحافت کا فائنل امتحان نہیں ہوا تھا۔
یہ کہانی تحریر کرنے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ قدیم صحافت میں قسمت آزمائی کے لیے چند اُصول اور ضابطے طے تھے۔ خاص طور سے زبان، حالاتِ حاضرہ اور تاریخ سے دلی لگائو کو پیشِ نظر رکھا جاتا تھا۔ ہر اخبار اور جریدے میں ایڈیٹر اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ حکمرانی کرتے تھے۔ یہ ایڈیٹر عموماً ''تنخواہ دار‘‘ تھے اور طریقہ کار کے تحت ترقی کرتے ہوئے اس اہم عہدے پر تعینات ہوتے تھے۔ بعض اخبارات کے مالکان پیشہ ورانہ لحاظ سے خود کو ایڈیٹر کے منصب کے اہل نہیں سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے حتی الوسع بہترین صحافتی شخصیات کو ایڈیٹر منتخب کیا تھا۔ کم از کم قومی اخبارات میں یہی صورتحال تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اخبارات کے نیوز رومز میں شب و روز مرحلہ وار تربیت کا عمل جاری رہتا تھا۔ یہ سلسلہ ریڈیو پاکستان کے نیوز روم میں بھی دکھائی دیتا تھا۔ ریڈیو نیوز اور دیگر پروگرامز میں الفاظ کے صوتی اثرات پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ریڈیو پاکستان نیوز کے تربیت یافتہ صحافی سرکاری خبریں بڑی چابکدستی سے تحریر کرتے تھے‘ لیکن حزبِ مخالف کے واویلا کو ضبطِ تحریر میں لانا اُن کے لیے دشوار تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن نیوز نے ابتدا سے ہی ادارت کا اعلیٰ ترین معیار برقرار رکھا۔ پی ٹی وی نیوز روم میں کمال کے ایڈیٹر موجود تھے۔ انگلش سے اردو ترجمہ ہو یا الفاظ کے چنائو کا مرحلہ... بہتر سے بہترین سکرپٹ کم سے کم وقت میں تیار ہوتے تھے۔ اُس کے بعد خبریں پڑھتے ہوئے درست تلفظ کو ہمیشہ اولیت دی جاتی تھی۔ اخبارات، ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز رومز میں ایڈیٹر کی موجودگی زیر تربیت اور جونیئر سٹاف کے لیے ہمیشہ تقویت کا باعث تھی۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایڈیٹر کی حکمرانی نوے کی دہائی تک پوری آب و تاب سے برقرار رہی؛ تاہم ایف ایم ریڈیو اور غیر سرکاری ٹی وی چینلز کی آمد کے ساتھ ''ایڈیٹر کی تلاش‘‘ کا دورانیہ شروع ہو گیا۔ ایک موقف یہ بھی ہے کہ ایڈیٹر کی موجودگی کے باوجود ایڈیٹر کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ بنیادی عارضہ یہ ہے کہ اکثر نجی چینلز میں ترجمے، الفاظ کے چنائو اور تلفظ کے معاملے پر ''پلی بارگین‘‘ کا اصول رائج ہو گیا ہے۔ تلفظ کی درستی کا عالم یہ ہے کہ بعض نیوز اینکرز ''شہدائ‘‘ کو صحیح انداز میں پڑھ نہیں سکتے۔ اکثر ''ھ‘‘ حذف کر دیتے ہیں۔ صرف ''شودا‘‘ سنائی دیتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے اور سننے کے باوجود ہضم کیا جا رہا ہے‘ جو مناسب نہیں۔ اس کے علاوہ اکثر خبریں پڑھنے اور لکھنے والے اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ توہین سمجھتے ہیں۔ یوں بتدریج الفاظ کا ذخیرہ کم ہونے کے باعث مجموعی پیشکش سطحی رہ جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سٹوڈیوز کی چکا چوند میں الفاظ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا کے معاشرے پر دیگر مثبت اور منفی اثرات زیرِ بحث نہیں تاہم نیوز اور حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے معاملات ابلاغیات کے اساتذہ اور طالب علموں کی توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔
جناب مجیب الرحمن شامی نے اپنے کالم میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی تذکرہ کیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک حد تک سرکاری اور غیر سرکاری اقدامات کی بدولت پیشہ ورانہ لحاظ سے مثبت جہت عطا کی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کو تکنیکی لحاظ سے ''سٹریٹ میڈیا‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ یہ میڈیا کی ایسی شاخ ہے جس پر بسیرا کرنے والوں کی اکثریت ابلاغ، صحافت اور ادب سے براہ راست منسلک نہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے اہم اخبار ''واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں سوشل میڈیا کے اثرات پر ای بزنس سے تعلق رکھنے والی شخصیت پریرے اُمدیار کا اہم تحقیقی مضمون شائع ہوا‘ جس میں سوشل میڈیا کو جمہوریت کے لیے خطرناک قرار دیا گیا۔ اُنہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ سوشل میڈیا پر بڑھتا ہوا انحصار جمہوریت کی شفافیت، جواب طلبی کے عمل اور عوامی اعتماد کو مجروح کر رہا ہے۔ اُمدیار کا اصرار ہے کہ چھ نمایاں اثرات سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ سب سے اہم یہ کہ سوشل میڈیا نے یکطرفہ معلومات کی فراہمی کو تقویت دیتے ہوئے سماج میں ہیجان کو فروغ دیا ہے۔ یہ کیفیت جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط اور من گھڑت معلومات اور افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں‘ جن کے مضر اثرات سیاست، تجارت اور سماج کے تمام دوسرے شعبوں میں دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ عوام کو جمہوری عمل سے دور کر دے گا۔ سوشل میڈیا کا ایک اہم عمل غیر جمہوری مقبولیت کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔ یہ کیفیت نظامِ ریاست پر دُوررس اثرات کی حامل ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کسی بھی معاشرے میں حسبِ منشا سیاسی بالادستی اور مخصوص سماجی تبدیلی کے لیے بے رحمانہ انداز اختیار کر سکتاہے۔ یہ صورتحال کسی بھی سماج ،قوم اور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی۔ منصف نے‘ جو خود ای بزنس سے منسلک ہیں‘ امریکہ ایسے ملک میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تمام شراکت داروں کو ایک وسیع البنیاد مکالمے کی تجویز دی ہے۔
جناب مجیب الرحمن شامی نے اپنے کالم میں میڈیا کے مختلف شعبہ جات میں ایڈیٹر کی عدم موجوگی کا ذکر کرتے ہوئے ایک اہم عارضے کی نشاندہی کی ہے۔ بات صرف پرنٹ میڈیا تک رہتی تو فوری علاج ممکن تھا۔ الیکٹرانک میڈیا نے براہ راست اور فوری خبرکی خاطر مستند صحافتی اُصولوں پر سمجھوتہ کیا ہے‘ یوں ایڈیٹر کی تلاش سے زیادہ حاضر ایڈیٹر کی فنی صلاحیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا امتحان درپیش ہے۔ سب سے اہم پیش رفت سوشل میڈیا کا عروج ہے جو مرحلہ وار پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دیوار سے لگا رہا ہے۔ اب مکان سے مملکت تک یہ بات ''وائرل‘‘ ہوگی۔ پیشکار وائرس کی مانند سرایت کر جائے گا۔ وائرل اور وائرس کے باعث بات ''ایڈیٹر کی تلاش‘‘ سے آگے نکل گئی ہے۔ اب جلد ہی ''سماج کی تلاش‘‘ کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ کالم آخری مراحل میں تھا کہ پنجاب کے ایک شہر سے یہ افسوسناک خبر موصول ہوتی ہے کہ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز نے ایک خاتوں کے آپریشن کی ویڈیو وائرل کر دی ہے۔ ڈاکٹرز کی اس غیر اخلاقی حرکت کی وسیع پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔ یہ واقعہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نوٹس میں آگیا ہے۔ کیا معلوم کئی اور ملتی جلتی حرکات سوشل میڈیا پر موجزن ہوں۔ اگر سوشل میڈیا کا ناپسندیدہ دبائو برقرار رہا تو اس سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پیشہ ورانہ طور پر متاثر ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ لہٰذا امریکہ سے پہلے پاکستان میں سوشل میڈیا کے حوالے سے شراکت داروں کے مابین وسیع البنیاد مکالمے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے یونیورسٹیز کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت اور سماج کے لیے اقدامات تجویز کر سکتے ہیں۔