ترکی میں رہتے ہوئے ایک چیز کا مشاہدہ ہر کوئی کرتا ہے اور وہ ہے رشوت ستانی کا تقریباً نہ ہونا۔ سرکاری دفتر میں کوئی کام پڑ جائے تو وہاں دیر ضرور لگتی ہے لیکن ایک کلرک یا افسر کسی سے رشوت کا مطالبہ نہیں کرتا؛ حالانکہ اگر کسی نے اپنے کام جلدی کرانا ہو تو متعلقہ افسر فوراً کام کرنے کے عوض رشوت لینا چا ہے توو ہ قانون کو بڑی آسانی سے چکمہ دے کر لے سکتاہے کیونکہ یہاں بھی نظام ایسا ہے جس میں بد عنوانی اور رشوت ستانی کی گنجا ئش موجود ہے۔ لیکن سرکاری عہدیدار رشوت کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہاں رشوت کی لعنت بالکل ہی نہیں۔ کئی محکموں میں رشوت لینے والے بھی ہیں لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور جو لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے پکڑے جانے اور سزا پانے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک عام شہری کے کام بغیر رشوت دیے ہو جاتے ہیں ۔ غیر قانونی کام کرنے والے بھی محتاط رہتے ہیں اور ایسا کرنا بہت مشکل بھی ہوتا ہے۔ ہاں‘ ایک زمانے میں ترکی میں بھی رشوت ستانی عام تھی لیکن آج کل کہانی کچھ اور ہے۔ ترکی میں رشوت ستانی پر قابو برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے دور میں ممکن ہوا۔ وزیراعظم رجب طیب اردوان بذات خود ایک ایمان دار شخص ہیں‘ ان پر کسی قسم کی بدعنوانی کا الزام نہیں۔ انہوں نے کابینہ میں بھی ایمان دار، محب وطن، لائق اور محنت کرنے والے لوگوں کو جگہ دی ہے۔ یوں ملک کی باگ ڈور سنبھا لنے والے نہ خود کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے ماتحت اداروں کو بدعنوانی کا شکار ہونے دیتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ ترکی کی معیشت میں بہتری ہے۔ برسر اقتدار پارٹی نے ملک کی معیشت کو سنجیدگی سے بہتر بنانے کی سعی کی ہے۔ رجب طیب اردوان 2002ء میں برسر اقتدارآئے ۔یہ وہ وقت تھا جب ملک کی معیشت تباہی کے دہانے کھڑی تھی۔ ملک دیوالیہ ہوچکا تھا۔ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کررہی تھی۔ عوام روٹی کے ایک ٹکڑے کے لئے ترس رہے تھے۔ ترکی کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا تھا‘ لیکن جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے فوراً ہی ترکی کی ڈوبتی ہوئی معاشی حالت کو سدھار لیا اور ایسی اقتصادی پالیسیاں اپنائیں کہ ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت پر قابو پا لیا گیا۔ سرکاری و غیرسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور کم سے کم تنخواہ بھی اتنی معقول ہوگئی جس میں ایک ملازم اپنی تمام ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ خواتین کے لئے بھی روزگار کے مواقع زیادہ ہوگئے۔ ایک خاندان میں مرد اور عورت دونوں کی آمدن سے ایک متوسط زندگی گزارنا آسان ہوگئی ہے۔ ملازمت سے سبکدوشی کی صورت میں پنشن بھی اتنی مل جاتی ہے کہ کسی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تعلیم کے شعبے میں بھی گراں قدر بہتری آئی ہے۔ پورے ملک میں ایک قسم کا تعلیمی نظام موجود ہے اور معیا ر بھی لگ بھگ ہر سکول میں ایک جیسا ہے‘ چاہے وہ دیہات کا سکول ہو یا شہر میں۔ والدین کو بچوں کی تعلیم کا مسئلہ پیش نہیں آتا۔ آج کل غیر سرکاری تعلیمی ادارے بھی کافی مقبول ہور ہے ہیں لیکن اگر کوئی پرائیویٹ تعلیم کی استطاعت نہیں رکھتا تو سرکاری سکولوں کا معیار اتنا اچھا ہے کہ ان کو فکر نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ طلبا کو وظائف بھی دیے جاتے ہیں اور آسان اقساط پر قرضے بھی۔ والدین بچوں کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کے لئے ناجائز آمدنی کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ یہی صورت حال صحت کے شعبے کی ہے۔ عوام کے لئے علاج معالجے کا ایک معقول نظام موجود ہے۔ ہر سرکاری وغیرسرکاری ملازم کی صحت انشورنس ہوتی ہے۔مناسب آمدن، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کے حامل افراد رشوت کی لالچ میں کم ہی پڑتے ہیں۔ رشوت ستانی پر قابو پانے کی سب سے بڑی وجہ کردارسازی بھی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی ایک تحریک کا نام ہے جو تقریباً تین عشروں پر محیط ایک خاموش جدوجہد ہے۔ اس تحریک کی شروعات سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان نے کی تھی۔اس کے علاوہ ترکی میں احیائے دین کی اور کئی تحاریک بھی اس پارٹی کی حمایت کرتی ہیں۔ ان جماعتوں میں ایک فتح اللہ گلین کی بھی ہے جس نے دنیا کے مختلف ملکوں میں تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک بنا یا ہے۔ پاکستان میں اس نے پاک ترک سکول کے نام سے کئی شہروں میں تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔ گلین کی خاص توجہ نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی کردارسازی پر ہے۔ گلین کی تحریک ترکی کی کمالسٹ قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لئے ماضی میں ان پر غداری کا مقدمہ بھی بنایاگیا جو موجودہ حکومت نے ختم کیا‘ لیکن گلین اب بھی ترکی جانے سے کتراتے ہیں اور امریکہ میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان تحریکوں کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ نئی نسل اور خاص طور پر پارٹی اراکین کی ایمان داری پر مبنی کردار سازی ہوئی۔ ترکی کے موجودہ ارباب اختیار میں ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ان کے ناقدین اگرچہ پارٹی کے سیاسی نظریات پر وار کرتے ہیں لیکن بدعنوانی اور رشوت ستانی کے بارے میں کچھ ثابت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کی سیاست میں غیر جانبدارلوگ اور بعض قوم پرست بھی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حمایت کرنے پر مجبو ہوئے ہیں۔ اگر چہ مذکورہ اسباب کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جن کی وجہ سے ترکی کا معاشرہ رشوت ستانی جیسے موذی مرض سے پاک ہوا ہے لیکن اگر یہ اسباب نہ ہوتے تو شاید وہ عوامل بھی اتنے کارگر ثابت نہ ہوتے۔ ترکی نے رشوت ستانی پر بہت کم عرصے میں قابو پا لیا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ممکن ہوسکتا ہے‘ لیکن اس کے لئے ایک مخلص، ایماندار،پختہ ارادے کے مالک اور صاحب بصیرت رہنما کی ضرورت ہے۔