گزشتہ ایک کالم میں تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کی اہمیت کا تذکرہ کیاتھا۔ آج کا یہ کالم بھی اسی موضوع پر ہے کیونکہ چند دنوں میں ترک حکومت اور دہشت گرد تنظیم پی کے کے،کے درمیان مذاکرات میں کافی پیش رفت ہوچکی ہے ،اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ کُرد مسئلہ حل ہونے جا رہا ہے۔ کرد باغیوں کے ساتھ امن عمل میں ایک مثبت پیش رفت اس وقت ہوئی جب پی کے کے،کے اسیر بانی اور راہنما عبداللہ اوجلان نے 21 اپریل کو اپنی تنظیم کے مسلّح شدت پسندوں کو غیر مسلّح ہونے کا حکم دیا۔اس تنازع کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اس کے بدلے میں ترک فوج بھی کرد باغیوں کے خلاف اپنی کارروائیاں روکے گی۔ اس امن عمل کو سمجھنے کے لیے اس کے خدوخا ل کا جاننا ضروری ہے۔اس امن عمل کے تین بڑے مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلے میں پی کے کے کا تشدد کا راستہ چھوڑ کر غیر مسلّح ہونا ہے۔ دوسرے مرحلے میں شدت پسند ترکی چھوڑ کر ہمسایہ ممالک خصوصاً عراق کی طرف منتقل ہو جائیں گے اور آخر میں ترک حکومت کردوں کے مسائل کے حوالے سے آئینی اصلاحات کا نفاذ کرے گی ۔کرد جنگجوئو ں کو معاشرے میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے کوشش کی جائے گی۔ بظاہر یہ بہت مشکل لگ رہا ہے ،لیکن ان مراحل پر بڑی تیزی کے ساتھ پیش رفت ہورہی ہے۔ اگر چہ یہ بات چیت ایک اسیر راہنما کے ساتھ ہورہی ہے لیکن پی کے کے ،کے آزاد کمانڈر مرات کرایلان بھی اس پلان سے متفق نظر آرہے ہیں۔ مرات کو اس پورے عمل سے اختلاف نہیں لیکن اس عمل کے چند جزئیات پر تحفظات ہیں ۔ ترک حکومت اس معاملے میں پُر امید ہے کہ ان کا بھی حل نکل آئے گا۔ اس امن عمل کے ناقدین اس پر مسلسل وارکررہے ہیں۔ ان میں سر فہرست بائیں بازو کی مخالف جماعت جمہوریت خلق پارٹی ہے۔ اس پارٹی کے اختلاف کے دو بڑے اسباب ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اگر اقتدارکی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کرد مسئلہ حل کرلیتی ہے تو اس کو بہت بڑا سیاسی فائدہ ہوگا اور آئندہ کے انتخابات اکثریت سے جیت جا ئیں گے۔ ان کو ابھی سے لگنے لگا ہے کہ طیب اردوان کی پارٹی مستقبل کے دو یا تین انتخابات جیت سکتی ہے جس کی وجہ سے اس کا اقتدار بہت طول پکڑسکتا ہے، اسی لیے ان کی کوشش رہتی ہے کہ برسرِ اقتدار پارٹی کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہ دے جس سے ان کی پوزیشن اور مستحکم ہو۔ دوسری بڑی وجہ ہے کہ جمہوریت پارٹی ایسے لوگوں کی جماعت ہے اور ان کو ایسے لوگوں کی حمایت حاصل ہے جن کے مفادات اس تنازع کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ترکی کی کمالسٹ اور قوم پرست قوتیں ترکی میں دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص نہیں۔ ان کو اندرونِ ملک ایک دشمن کی ضرورت ہے تا کہ ان قوتوں کا طاقت پر قبضہ رہے۔ اندروں ملک دشمن کی وجہ سے ان کے چنداں فائدے ہیں۔ ایک تو ان کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے ؛ دوسری طرف ان کی جنگی معیشت سے وابستگی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر قوم پرستوں کو ایک مسئلہ پر متحد کر کے عوامی حمایت کا حصول ہوتا ہے۔ اس قسم کی قوتوں کو ترکی میں deep state کہتے ہیں۔ جسٹس اینڈڈیویلپمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اس طرح کی پُراسرار طاقتوں کا پردہ فاش کیا جس کی وجہ سے اب ترک عوام کسی خفیہ ہاتھ کے کارستانیوں کا آسانی کے ساتھ شکار نہیں ہوسکتے۔ حزب اختلاف کی تنقید کو اگر غیر سنجیدہ تصور کیا بھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ مذاکرات معاشرے کے باقی طبقوں کو من وعن قبول ہیں۔ کچھ اہل علم و دانش یہ سوال اٹھا تے ہیںکہ عبداللہ اوجلان پس زنداں ہونے کو وجہ سے تمام کرد با غیوں یا ان کے مختلف دھڑوں پر کنٹرول نہیں رکھتے، اسی لیے شدت پسند اوجلان کے کہنے پر نہ غیر مسلّح ہونگے اور نہ ہی تشدد کاراستہ ترک کریں گے، کیونکہ ان کے مفادات بھی اسی تنازع سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ غیرمسلّح ہونے کی صورت میں ان کا نقصان ہوگا۔ دوسرا بڑا اعتراض یہ اٹھتا ہے کہ پی کے کے کُردوں کی کوئی قانونی طور پر نمائندہ تنظیم نہیں، بلکہ اس نے دہشت اور تشدد کے ذریعہ کردمسئلے کو hijack کیا ہے۔ کردوں کی اکثریت بھی ان سے نالاں ہیں اسی لیے ایسی ایک تنظیم کے ساتھ معاملات طے کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کو مزید خراب کرنا ہے۔تیسرا بڑا مسئلہ آئینی اصلاحات کا ہے۔ آئین میں ترمیم کے لئے برسراقتدار جماعت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے، جو ان کے پاس نہیں اور حزب اختلاف ان کا ساتھ نہیں دے گی۔ یہ اعتراضات کافی با وزن ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مسئلے کا کوئی متبادل حل آج تک نہیں نکلا۔ پی کے کے نے تشدد کاراستہ اپنائے رکھا اور ترک فوج نے طاقت کا استعمال ۔ اور مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا چلا گیا۔امن مذاکرات کا عمل ہی واحد راستہ نظر آرہا ہے۔ امن عمل میں بنیادی بات ہی یہ ہوتی ہے کہ مخالف دھڑے ایک جیسے مقام پر آکر بات چیت کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کو کچھ رعایتیں دینی ہوتی ہیں اور اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرنی پڑتی ہے، تا کہ سب جماعتوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہو۔ آج اگر شدت پسند عدم تشد دکی طرف مائل نظر آرہے ہیں تو اس موقع کو گنوانا نہیں چا ہیے۔ عبداللہ اوجلان نے پہلی بار خود بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردی سے کُردوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے نہ کہ کمی ۔ بالآخر سیاسی مسائل کا حل سیاسی طریقے سے ہی نکل سکتا ہے۔ پرتشدد احتجاج کی شاذونادر ہی کوئی شنوائی ہوتی ہے۔