ترکی میں گذشتہ ہفتے سے تقسیم چوک میں حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔لیکن ان مظاہروں کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی نہیں جانتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ترکی کے بارے میں تحقیق با لکل نہیں ہورہی۔ اسی لیے کچھ نام نہاد تجزیہ کار اپنی کم علمی کو دور کرنے کی بجائے اخبارات کی شہ سرخیاں پڑھ کر یا ٹی وی پر خبریں دیکھ کر عوام میں غلط معلومات اورنا معقول قسم کے تجزیے پیش کر رہے ہیں۔ کچھ نے تو حد ہی کردی ،ترکی کے تقسیم سکوائر کو مصر کے تحریر سکوائر سے تشبیہ دی۔ کچھ نے کہا کہ یہ’ عرب بہار‘کی طرح’ ترک بہار‘ کا آغاز ہے۔ ان سب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ ان کی خوش فہمی اور خام خیالی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا‘ نہ ترکی میں بہا رآرہی ہے اور نہ ہی ترکی میں کوئی تحریر سکوائر بننے جارہاہے۔ سب سے پہلے موجودہ مظاہروں کو سمجھنا ضروری ہے اور پھر ان کی حقیقت کو ترکی کی مجموعی سیاسی صورتحال کے پس منظر میں جاننا آسان ہوگا۔ تقسیم سکوائر استنبول کا مرکز ہے اور اس کے ساتھ ہی جادیسی (سٹریٹ) استقلال میں روزانہ تقریباً پندرہ لاکھ لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے۔ راقم نے اسی جادیسی میں ترک زبان کے انسٹیٹیوٹ سے ترکی زبان سیکھی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد ورفت نے ٹریفک کا مسئلہ بنا یا ہوا ہے؛ چنانچہ ترک حکومت نے یہاں ٹریفک کا ایک جدید نظام متعارف کرانے کا پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ ٹریفک کی آمد ورفت کے لیے اسی چوک کے نیچے زیرزمین نظام بنانے کا کام شروع ہے۔ اسی چوک کے ساتھ ایک چھوٹا سا گیزی (غازی) پارک ہے۔ جس میں راقم بھی کلاسز ختم ہونے کے بعد دوستوں کے ساتھ مل کر ترک قہو ہ پینے کے لیے محفل سجا لیتا تھا۔ اب ترک حکومت اسی پارک کی جگہ شاپنگ پلازہ بنا رہی ہے۔ جس کی کچھ لوگ مخالفت کر رہے ہیں۔ شروع میں ان مخالفین میں ہر طبقے اور سیاسی سوچ کے حامل لوگ شامل تھے۔ جن میں دائیں اور بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے شامل تھے۔ لیکن بعد ازاں ان مظاہروں کو ترکی کی بائیں بازو کی جماعتوں، کمال ازم کے حامیوںاور حزب اختلاف کی جماعت جمہوریت خلق پارٹی نے Hijack کیا۔ یوں یہ مظا ہرے حکومت کے ساتھ ایک سیاسی تصادم کی صورت اختیار کرگئے۔ اسی بنا پر اسلامی اور دائیں بازو کے مظاہرین نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ۔پولیس نے بھی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جس کی وجہ سے مظاہروں میں طوالت آئی۔ اپوزیشن نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے نان ایشو کو سیاسی ایشو بنایا تو اس کی مقبولیت ختم ہو کر رہ گئی۔ ان مظاہروں کو ترکی میں کسی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (AKP) شفاف انتخابات کے نتیجے میں عوام کا مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئی ہے۔ ترکی عوام کی اکثریت نے جمہوری نظام کو قبول کیا ہوا ہے۔AKP پچھلے تین عام انتخابات مسلسل جیت چکی ہے۔ ہر دفعہ اس کو پہلے الیکشن سے زیادہ ووٹ ملے۔ سا تھ ساتھ اس پارٹی نے بلدیاتی انتخابات بھی اسی طرح جیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پارٹی نے ترکی کو سیاسی استحکام دیا اور معاشی ترقی کی راہ پر لگا دیا۔ کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکال کر ان کی زندگی بہتر بنا دی۔ اسی لیے سیاسی طورپر غیرجانبدار عوام نے بھی اسی پارٹی کو ووٹ دیئے۔ نتیجتاً عوام کا جمہوریت پر اعتماد بڑھ گیا جس کا فائدہ یہ ہو ا کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے لیے کمال ازم کی غیر جمہوری طاقت کو کمزور کرنے کا موقع ملا۔ ترک حکومت نے فوج کا جو کہ کمال ازم کی محافظ ہے، سیاسی کردار کافی حد تک کم کیا۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے خلاف ان کی سازشیں ناکام بنائیں۔ ان کے عدالتی ٹرائل ہوئے اور درجنوں افسران کو جیل بھی ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے عدالتوں، میڈیا اور تعلیم کے شعبوں سے بھی کمال ازم کو صاف کرنا شروع کیا۔ کمال ازم کو اس طرح اپاہج اور غیر موثر بنتے دیکھ کر جمہوریت خلق پارٹی بہت پریشان ہوچکی ہے‘ کیونکہ ان کا کوئی بس نہیں چل رہا۔ الیکشن میںوہ کبھی 25فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیتے ۔ استنبول، انقرہ، ازمیر اور چند ایک ساحلی شہروں میں ان کی کچھ نہ کچھ مقبولیت ہے ۔ اسی لیے جمہوری طریقے سے تو وہ اقتدار میں نہیں آسکتے۔ ان کا دوسرا حربہ فوج کی مدد سے حکومت کا تحتہ الٹنا ہوتا ہے۔ اس میں بھی یہ نا کام ہوگئے۔ انہوں نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا یا تا کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو اسلامی سیاسی پارٹی ثا بت کرکے اس پر پابندی لگائی جاسکے۔ جس طرح کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس باران کو منہ کی کھانی پڑی۔ لہٰذا حکومت کے خلاف ان کے سارے جمہوری اور غیر جمہوری حربے ناکام ہوچکے ہیں۔ اسی لیے وہ ایسے موقعوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح حکومت پر دبائو بڑھایا جاسکے اور ملک میں افراتفری پیدا ہو تا کہ فوج پھر سے آئے اور ان کو اقتدار ملے۔ لیکن ایسا اس لیے ناممکن ہے کہ کمال ازم عوام میں مقبولیت کھو چکا ہے۔ اس کا تاریک چہرہ لوگ دیکھ چکے ہیں ۔ اب ان کو بے وقوف بنانا مشکل ہے۔ دوسری طرف ترکی کی معاشی ترقی اور بین الاقوامی اہمیت نے ترک قوم کی عزت نفس کو بحا ل کیا ہے ۔ استنبول میں ہر طرح کے جلسے ، ریلیاں اور مظاہرے تقسیم چوک میں ہوتے ہیں ۔ بائیں بازوں کے اکثر جلسے یہیں ہوتے ہیں۔ راقم نے ان کے بے شمار جلسے یہاں دیکھے ہیں جن میں شامل لوگوں کی تعد اد چند درجن یا چند سو سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ لیکن ٹی وی فوٹیج پر وہ لاکھوں کی تعداد میں نظرآتے ہیں، کیونکہ تقسیم چوک اور استقلال جادیسی میں ہر وقت لاکھوں موجود ہوتے ہیں۔ پولیس ان جگہوں کو بند بھی نہیں کرتی کیونکہ آئے روز وہاں پر کوئی نہ کوئی جلسہ ہو رہا ہوتا ہے ، جس کے لیے وہاں کی کاروباری زندگی بند نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے ٹی وی کا کیمرہ ان میں تمیز نہیں کرسکتا۔جو لوگ ترکی میں رہتے ہیں ان کو اس بات کا علم ہے لیکن جو ترکی سے نا واقف ہیں ان کو اس کا اندازہ نہیں۔موجودہ مظاہروں میں مظاہرین کی تعداد بمشکل چند ہزار ہے اور ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔اور نہ ہی ان کی کوئی لیڈرشپ ہے۔ان کی سیاسی سوچ اور اوچھے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو عوام مسترد کرچکی ہے۔ عرب دنیا سے موازنہ کرنے والوں کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ترکی کے سیاسی حالات عرب دنیا سے یکسر مختلف ہیں۔ نہ یہاں آمریت ہے اور نہ ہی معاشی بدحالی۔ عوام پڑھے لکھے اور سیاسی شعور کے حا مل ہیں۔ جمہوریت کے ثمرات سے لوگ بہرہ ور ہورہے ہیں۔ ترکو ں کی تاریخ، سیاسی کلچر، معاشرتی اقدار، معیشت اور جغرافیہ عرب دنیا سے خاصا مختلف ہے ۔ اسی لیے ’عرب بہار‘ کی ہوائیں یہاں نہیں پہنچ سکتیں۔ اگر کچھ تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ ان مظا ہروں کی بدولت ترکی میں کوئی اساسی تبدیلی آرہی ہے تو وہ اپنی معلومات درست کرلیں۔