ترکی میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ تا حال جاری ہے اور حکومت کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس طاقت کا استعمال بھی ہو رہا ہے۔ وزیراعظم رجب طیب اردوان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ انہوں نے مظاہرین پر کئی طرح کے الزامات لگائے ہیں اور ان کو انتہا پسندبھی کہا ہے۔ ان مظاہروں کے پیچھے کیا مضمرات ہیں اس کے بارے میں‘ میں پچھلے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں لیکن ترکی کی سیاست کو ایک کالم میں سمیٹنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ مظاہرے استنبول شہر کے وسط میں تقسیم سکوائر سے متصل گیزی پارک کوگرا کر اس میںعثمانی دور کے بیرکوں کی تعمیرنو کرکے شاپنگ پلازہ بنانے کے خلاف ماحولیاتی گروپس نے شروع کئے ، جس میں بعدازاں عام لوگ بھی شامل ہوئے۔ پھر ترکی کی کمالسٹ اور بائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموںکو اپنی سیاست چمکانے کا موقع مل گیا۔ یوں گیزی پارک کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف گروہوں نے ترکی کے مصروف ترین چوک پر قبضہ کر لیا۔ اصل ایشو پس منظر میں چلا گیا اور اس کی جگہ ایسے سیاسی عناصر کا حکومت سے ٹکرائو شروع ہوگیا جو جمہوری طریقے سے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ سیاسی طورپر اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اپنی مرضی غیر جمہوری طریقوں اور تشدد سے لاگو کرنے کے عادی ہیں۔ اس بات کی تصدیق ان کے ماضی سے بھی ہوتی ہے۔کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ترکی میں مظاہر ے ایک سیاسی تبدیلی کی علامت ہیںمگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ترک سیاست میں بنیادی تبدیلی اس وقت آئی جب دس سا ل پہلے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی عام انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی۔ اس پارٹی کے بانی اراکین اسلامی سوچ کے مالک تھے اور ترکی میں ایک اسلامی سیاسی پارٹی کا حکومت بنانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ تب سے لے کر اب تک اس پارٹی نے ترکی میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر لی ہے۔ جسٹس پارٹی کو اب فوج ، عدالت یا کسی بیرونی طاقت سے بہت کم خطرات ہیں اور یہی وہ بنیادی تبدیلی ہے جو ترک سیاست میں آچکی ہے۔ کمالسٹ اور بائیں بازو کی جماعتیں وزیراعظم طیب اردوان پرایک آمر ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔ ان پر اسلامی ہونے کا بھی الزام ہے۔ ان کو ڈر ہے کہ ترک ریاست کا نظریہ‘ جو کہ کمال ازم پر مبنی ہے‘ وہ تبدیل ہو کر اسلام پسند ہونے لگا ہے۔ یہ قوتیں سیاسی اسلام کو رجعت پسند اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ کما ل ازم کی سب سے بڑی طاقت ترک فوج ہے جس نے ہمیشہ ترکی میں جمہوری جماعتوں کو سر نہیں اٹھانے دیا۔ جہاں ضرورت محسوس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔ عدنان میندیریس ،جو تین بارمسلسل انتخابا ت جیت کر ترکی کے وزیراعظم بنے‘ کو1960ء میں فوج نے غدار قرار دے کر سولی پر لٹکایا۔ اُن کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے جمہوریت اور سیکولرزم کی روح کے مطابق مذاہب پر لگی پابندیوں کو ہٹایا۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے جمہوری طریقے سے اس کو ہٹانا ممکن نہ تھا ۔ اسی طرح 1997ء میںوزیراعظم نجم الدین اربکان کی حکومت کو فارغ کیا گیا۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا اقتدار میں آنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ترکی میں کمال ازم کا پروجیکٹ پنپ نہیں سکا ہے۔ زور زبردستی سے ایک اقلیتی طبقے کی سوچ عوام کو دبا تو سکی ہے لیکن ان میں مقبول نہیں ہوئی۔ جدید ترکی کی 90 سالہ تاریخ اس بات کی گواہی دے رہا ہے ۔ ترکی کا موجودہ آئین بھی فوج کا مرتب کردہ ہے۔ اس دستور کی رو سے کسی اسلامی سیاسی پارٹی کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ عورتوں کو تعلیمی اور سرکاری اداروں میں سروں پر حجاب اوڑھنے کی اجازت نہیں۔ اس شق کی وجہ سے لاکھوں خواتین تعلیم اور روزگار سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اب جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے بہت جدوجہد کے بعد اس قانون میں تبدیلی کی ہے جس کے نتیجے میں ان خواتین کو اپنا حق ملنے لگا ہے۔ فوجی دستو ر کو جب جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی ایک سول آئین سے تبدیل کرنے کی بات کرتی ہے تو حزب اختلاف کمالسٹ جماعت جمہوریت خلق پارٹی اس کی بھر پور مزاحمت کرتی ہے۔ اس نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو عدالت کے ذریعے بین کرنے کی بھی پوری کوشش کی۔ تو کیا یہ سیکولر انتہاپسندی اور غیرجمہوری سوچ اور روش کی واضح مثالیں نہیں؟لیکن یہاں پر تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے۔ طیب اردوان پرآمراور غیرجمہوری ہونے کے الزام لگائے جا رہے ہیں حالانکہ خود انہی قوتوںنے سیکولر انتہاپسندی کے ذریعے ترکی میں جمہوریت کا قلع قمع کیا ہے۔ ان کی نظریں آج بھی فوج کی طرف ہیں لیکن ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ فوج اب اس قابل نہیں رہی کی ان کو طاقت کی زور پر اقتدار دلائے۔ اب ان قوتوں کے ہاتھ ایک موقع آیا ہے کیونکہ ان کی تعداد انتہائی کم ہے لیکن تقسیم سکوائر پرمظاہروں کی صورت میں ان کو نہ صرف اندرونی بلکہ بین الاقوامی میڈیا کوریج بھی مل رہی ہے۔ ترک حکومت کی طرف سے بھی ان مظاہروں کو منتشر کرنے کے لئے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ وزیراعظم اردوان نے تو ان مظاہروں سے اپنا سیاسی فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے اور بظاہر ان کے خلاف سخت رویہ اپنا رکھا ہے لیکن جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے باقی عہدیدار وںنے نرمی کا مظاہر ہ کیا ہے۔ جسٹس پارٹی نے گیزی پارک پر ریفرنڈم کرانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس طرح کے ریفرنڈم پورے ملک کی بجائے صرف ضلعی سطح پر کرائے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی گروپس تو شاید اس پر بات کرنے کو تیا ر ہیں لیکن سیاسی مخالفین نے اس کو رد کردیا ہے کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ ریفرنڈم میں جسٹس پارٹی کو عوام کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ ابھی تک ان سیاسی مظاہرین کے کسی قسم کے ٹھوس مطالبات سامنے نہیں آئے لیکن ان کا مقصد واضح ہے: کسی بھی طریقے سے جسٹس پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کرنا۔ لیکن ترکی کی بڑی اکثریت ان مظاہروں کا اختتام چاہتے ہیں۔ تقسیم چوک پرلوٹ کھسوٹ اور حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے ایک پرامن اور جمہوری انداز میں واضح سیاسی مطالبات کے ساتھ احتجاج کے حامی نظر آتے ہیں۔