"SKC" (space) message & send to 7575

مظاہروں کے بعد

ترکی میں حکومت مخالف مظاہرے دم توڑ چکے ہیں۔ ایک ماہ تک جاری رہنے والے ان مظاہروں نے دنیا کی توجہ ترکی پر مرکوز کررکھی تھی۔ اکثر تجزیہ نگاروں کو ان مظاہروں اور عرب دنیا کے مظاہروں میں مماثلت نظرآئی۔ ایک سیاسی تبدیلی کی پیش گوئی کی گئی‘ لیکن ان تجزیہ نگاروں کو یا تو ترک سیاست کا علم نہیں تھا‘ یا مخصوص سوچ کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر اپنے تجزیوں میں علمیت کو کم اور اپنی پسندو نا پسند کو زیادہ ترجیح دے رہے تھے۔ لیکن جیسا کہ راقم نے بار ہا لکھا ہے کہ یہ مظاہرے کسی بھی طرح ترکی، کی سیاست میں اساسی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ یہ انتہائی اقلیتی سوچ کے حامل سیاسی گروہ ہیں جن کا کوئی واضح مقصد نہیں ۔ جمہوری طریقوں سے یہ اقتدار میں آنہیں سکتے‘ سو اپنی مرضی بزورِ بازو پور ی قوم پر مسلّط کرنا چاہتے ہیں۔ ان مظاہروں کا انجام اب ہمارے سامنے ہے۔ ترکی میں کئی ایک سروے بھی ہوئے ہیں‘ جن میں 80 فیصد سے زیادہ عوام نے ان مظاہروں کی مخالفت کی ہے اور باقی ماندہ لوگوں نے مظاہرین کو حکومت کے ساتھ ٹکر لینے سے منع کیا ہے‘ بلکہ ایک پُرامن احتجاج کی حمایت کی تجویز دی ہے۔ تقسیم میدان میں گیزی پارک سے شروع ہونے والا احتجاج سیاسی رنگ اختیار کر گیا اور اب یہ حالت ہے کہ وزیراعظم رجب طیب اردوان پہلے سے زیادہ پُرعزم ہیں کہ گیزی پارک کی جگہ شاپنگ سنٹر بنائے۔ وزیراعظم نے ان مظاہروں کے جواب میں ملک کے کونے کونے میں ریلیاں منعقد کیں۔ ان ریلیوں میں عوام کا جم غفیر دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کی حمایت ان کے ساتھ ہے۔ اردوان نے ترکی اور دنیا کو دکھایا کہ وہ ایک عوامی لیڈر ہیں اور ترک اب بھی ان کے کہنے پر لبیک کہتے ہیں۔ اردوان نے کمال مہارت سے ان مظاہروں سے سیاسی فائدہ بھی اٹھایا۔ گذشتہ دس سا ل سے وہ کمالسٹ قوتوں سے برسرِ پیکار ہیں جو ان کی حکومت کو کسی بھی طریقے سے چلنے نہیں دے رہیں۔ اردوان نے عوام کو بتایا کہ یہ وہی قوتیں ہیں جن سے جمہوریت اور ترکی،کی ترقی برداشت نہیں ہوتی۔ اردوان نے بیرونی سازش کا حوالہ بھی دیا اور اب ترک پولیس مظاہرین کے ان لیڈروں کے بینک اکائونٹس کی چھان بین کررہی ہے جہاں‘ بقول ان کے‘ ان مظاہروں کے دوران دیگر ممالک سے لاکھوں ڈالر منتقل ہوئے۔ ان مظاہروں کے پس منظر کے بارے میں راقم نے پچھلے کالموں میں تفصیل سے لکھا ہے‘ لیکن چند اہم امور بیان نہ ہو سکے‘ جن کا ذکر یہاں ضروری ہے۔ طیب اردوان کی حکومت پر اسلام پرست ہونے کا ’’الزام‘‘ شروع دن سے لگتا رہا ہے۔ ترکی کے انتہائی سیکولر حلقوں کو ڈر ہے کہ کہیں ترکی میں اسلامی شریعت کا نفاذ نہ ہوجائے۔ ان کے اس ڈر میں اس وقت اضافہ ہوا جب جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے عورتوں کو تعلیمی درسگاہوں اور سرکاری عمارتوں میں سروں پر چادر اوڑھنے کی اجازت دی۔ حکومت کا یہ فیصلہ حزبِ اختلاف نے عدالت میں چیلنج بھی کیا اور اب بھی اس کا اطلاق ہر جگہ نہیں ہورہا ۔ ترکی کے یومِ آزادی کے موقع پر ہونے والی تقریبات میں وزیراعظم اور صدر عبداللہ گل کی بیگمات شرکت نہیں کرسکتیں کیونکہ وہ اپنا سر چادر میں ڈھانپ کر رکھتی ہیں۔ ترک فوجی اور جرنیل ان کو سلیوٹ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے شراب کے کاروبار اور استعمال پر سختیاں شروع کی ہیں اور ہر بوتل پر وزارتِ صحت کی طرف سے اس کے استعمال کا مضرِ صحت ہونے کا لیبل لگا ہوتا ہے۔ ٹی وی کے پروگراموں اور فلموں میں بھی شراب کے مناظر دھندلا (Blur) دئیے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے سگریٹ کے استعمال پر بھی اس قسم کی قدغنیں لگا دی گئی تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت نے ٹرینوں میں پبلک کی خاطر سرعام بوس وکنار پر پابندی لگادی ہے۔ اس پابندی کے خلاف تقریباً سو سے کے لگ بھگ جوان جوڑوں نے انقرہ میں ایک ٹرین سٹیشن کے سامنے اجتماعی بوس و کنار کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا‘ جن کو پولیس نے منتشر کیا۔اس طرح کے حکومتی اقدامات نے ترکی کے سیکولر حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا طرزِ حیات خطرے میں ہے‘ حالانکہ اسی اقلیت نے اکثریت پر ہمیشہ اپنی مرضی مسلّط کی ہے‘ سو‘ اب اردوان پر وہ ایک ڈکٹیٹر ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ حزبِ اختلاف جمہوریت خلق پارٹی ،جو ان لوگوں کی نمائندہ جماعت ہے، نے بھی کوئی حقیقی اپوزیشن نہیں کی۔ اپنی نا اہلی کی وجہ سے وہ کسی بھی حکومتی اقدام کی صحیح معنوں میں اپوزیشن نہیں کرسکے۔ صرف زبانی جمع خرچ اور غیر اہم ایشوز پر واویلا کرتے ہیں۔ اس پر سہاگہ یہ کہ ترک حکومت نے کردوں کی باغی تنظیم پی کے کے، کے ساتھ امن عمل شروع کیا اور اس کے اسیر باغی لیڈر عبداللہ اوجلان کے ساتھ مذاکرات کیے۔ کردوں، علویوں اور مذہبی اقلیتوں کو حقوق بھی دئیے۔ یہ سب ایسے کام ہیں جو ترکی ،کی کمالسٹ سوچ والے پسند نہیں کرتے۔ ان اقدامات سے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی پوزیشن اور بھی مستحکم ہو گئی ہے۔ حزب اختلاف کی ناکامی نے ان لوگوں کو مظاہرے کرنے پر مجبور کیا۔ طیب اردوان کے اس طرح کے اقدامات ، ان کے ماضی اور مخالفین کے شک سے ان کی نیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آیا وہ واقعی ترکی میں ایک اسلامی نظام رائج کرنا چاہتے ہیں اور خود مطلق العنان بننا چاہتے ہیں! لیکن اگر ان کی نیت یہی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ترک عوام کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘ کیونکہ ترک عوام اور اردوان کو ووٹ ڈالنے والے شرعی نظام کے حق میں نہیں۔ ترک لوگ اسلام سے محبت کرتے ہیں لیکن اسلام کے نام پر حکومت کرنے کو پسند نہیں کرتے۔ البتہ وہ اسلام پر قدغنیں لگانے والوں کو بھی بُری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کو بھی حکومت کی جمہوری اصلاحات کی مخالفت کی بجائے حمایت کرنی چاہیے اور حکومتی پالیسیاں جو ترکی، کی جمہوری اقدارکے خلاف ہوں ان کی کھل کر مخالفت کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ صرف کما ل ازم کا دفاع کرتے کرتے اپنا بچا کھچا سیاسی وجود اور ساکھ بھی گنوا بیٹھے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں