ثقافتی سفارتکاری (cultural diplomacy) روایتی سفارتکاری کا ایک اہم جز بن چکا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنی ثقافت کو دوسرے مما لک میں متعارف کرانے کے لئے ادارہ جاتی سطحوں پر باقاعدہ اہتمام کرتی ہیں۔ اس کے کئی ایک فوائد ہیں۔ بیرونی مما لک کے لوگ آپ کے ملک کے متعلق آگہی حاصل کرتے ہیں۔ یوں ایک مثبت رائے قائم کرتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ اپنے مفادات کا فروغ ہوتا ہے۔ تجارت، سرمایہ کاری اور سیاحت میں اضافہ ہوتا ہے جس کا ملکی معیشت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ثقافتی سفارتکاری خاص کر ان مما لک میں کی جاتی ہے جن کے ساتھ مربوط سیاسی اور تجارتی تعلقات ہوں یا اس طرح کے تعلقات قائم کرنے کا ارادہ ہو۔ پڑوسی ملک بھارت کو ثقافتی سفارتکاری میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ بھارت نے امریکہ اور یورپ میں ثقافتی مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ وقتاًفوقتاً ان مما لک میں ثقافتی شوز کا انعقاد بھی کرتاہے۔ پاکستان اس شعبے میں کافی پیچھے ہے۔ بدقسمتی سے دنیا میں وطن عزیز کا امیج کافی منفی ہوچکا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اس کا تذکرہ صرف دہشت گردی اور بم حملوں کے واقعات سے ہوتا ہے۔پاکستان میں کسی غیر ملکی سیاح کی جان بھی محفوظ نہیں۔ یا تو ان کو مار دیا جاتا ہے یا پھر تاوان کے لئے اغوا کیا جا تا ہے۔ ان واقعات کا بیرونی پریس میں مسلسل ذکر ہوتا ہے۔ مغوی جتنی دیر اغواکاروں کے قبضے میں رہتے ہیں ان کا پریس کوریج اپنے اپنے ممالک میں چل رہا ہوتا ہے۔ ہر آن کوئی نہ کوئی غیر ملکی شہری پاکستان میں اغوا شدہ حالت میں رہتا ہے۔ پھر اس کے ویڈیو ٹیپ جاری کردیئے جاتے ہیں جو بین الاقوامی اور سوشل میڈیا پر مسلسل چل رہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت بھی ان کی رہائی کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتی۔ اکثر اوقات ان کی اپنی حکومتیں کسی تیسری پارٹی کے ذریعے تاوان دے کر ان کو چھڑا لیتی ہیں۔ اس طرح پاکستان کا منفی تاثر مسلسل جاری رہتا ہے۔ ترکی میں رہتے ہوئے ایک بات کا ضرور احساس ہوتا ہے کہ ترک پاکستانیوں کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ لیکن انہیں پاکستان کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ہوتیں۔ خصوصاً نوجوانوں کو تو پاکستان کے محل وقوع کا بھی پتہ نہیں۔ نئی نسل میں بھی پاکستان کا منفی تاثر بڑی تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے۔ ان کی نظر میں پاکستانی معاشرہ ایک تنگ نظر اور پسماندہ معاشرہ ہے جہاں مذہبی جنونیوں کا راج چلتا ہے۔ اسی لئے ترکی جیسے دوست ملکوں میں پاکستان کے بارے میں آگہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک خوش آئند قدم پاکستان کے سفارت خانے نے اٹھایا ہے۔ اس سال ترکی میں پاکستان کا ثقافتی سال منایا جا رہاہے۔ ملک کے کئی بڑے شہروں میں پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف قسم کے شوز اور نمائشوں کا انعقا د کیا جارہا ہے۔ ان شوز میں ترک شہری بہت انہماک سے شرکت کررہے ہیں۔ اس طرح کے ثقافتی شوز کی وجہ سے پاکستان کا کافی مثبت تاثر قائم ہوگا۔ کیونکہ ترکوں قوم کو دہشت گردی کے علاوہ پاکستان کی اصل تصویر دیکھنے کو ملے گی۔ پاکستانی ثقافت کے تنوع، آرٹ ، ادب اور تعلیمی سرگرمیوں کا ادراک بڑھے گا۔ ترک پاکستان تعلقات کے فروغ کا یہ ایک سنہری موقع ہے۔ ترکی میں برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں انتہائی سنجیدہ ہے۔ وہ پاکستان کی‘ اس مشکل صورت حال میں مدد کرنا چاہتی ہے۔ تجارت کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ ان کو شاید پاکستان سے زیادہ اس بات کا احساس ہے کہ دونوں مما لک کے درمیان بھائی چارے اور خیرسگالی کے تعلقات کو تجارت کے رشتوں میں تبدیل کرنا چا ہیے۔ ترکی نے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیائی ریاستوں میں بہت سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کے تاجر پاکستان میں بھی سرمایہ کاری اور تجارت کے لئے بے تاب ہیں۔ لیکن پاکستان کی داخلی صورت حال، سیاسی عدم استحکام، اور دہشت گردی کے واقعات اُنہیں پاکستان میں سرمایہ کاری سے روکتے ہیں۔ ان سب مسائل سے بڑھ کر ہماری حکومت کی عدم دلچسپی اور غیر سنجیدہ رویہ بھی ان کے آڑے آرہا ہے۔ ترکی جیسے دوست مما لک مغربی مما لک کے برعکس پاکستان کے سکیورٹی خدشات کے باوجود پاکستان میں سرمایہ کاری کو تیار ہیں۔ لیکن ان کو اس ضمن میں پاکستانی حکومت کی طرف سے سہولیات درکارہیں۔ اگر حکومت‘ پاکستان کو بحران سے نکالنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو پھر ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے ایک مربوط پالیسی بنانی ہوگی جس میں دوست اور اسلامی مما لک پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ اگر مغربی مما لک پاکستان میں سرمایہ کاری سے اس وقت کترارہے ہیں تو دوست مما لک پر توجہ دینا ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کو فی الفو ر سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری لانا ہوگی۔ اور کم سے کم ایسے تجارتی زون بنانے ہونگے جو دہشت گردی کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے جو سرمایہ کاری کے لئے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے ۔ کوئی بھی سرمایہ کارپاکستان کی اس مارکیٹ کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ترکی میں جاری ثقافتی سال میں یقیناً ترک تاجروں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کے لئے راغب کیا جائے گا۔لیکن ایسی کوشش مربوط ہونی چاہیے۔اگر اس کوشش کے نتیجے میں تجارتی مراسم بڑھنے کی طرف کوئی قدم اٹھتا ہے تو حکومت کو اُنہیں معلومات اور سہولیات کی فراہمی کیلئے معقول انتظام کرنا ہوگا۔ ادارہ جاتی سست روی (institutional lethargy) کو ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ ساری کاوش رائگاں جائیگی۔ بلکہ اس کا ایک منفی تاثر قائم ہوگا۔