کل میں نے ٹی وی ’’شٹاٹ‘‘ کیا تو چند خواتین لاہور ڈیفنس کے کسی چوک میں ’’پُنجے‘‘ بیٹھی انگریزی میں احتجاج کرتی نظر آئیں۔ ایک ٹی وی نمائندے نے مائیک ان ’’خواتین‘‘ میں سے ’’خوا ایک‘‘ کے سامنے کیا تو وہ بولنا شروع ہوئی ’’We do not accept any other leader ہمیں صرف عمران چاہیے‘ وہی ہمارا پرائم منسٹر ہے۔ اس نے ہمیں نیا پاکستان دینا تھا‘ ہمیں نیا پاکستان چاہیے۔ ہم نے عمران کو ووٹ دیا تھا ہمارے ووٹ کہاں گئے‘ ہمیں ہمارے ووٹ کا رزلٹ چاہیے۔ ہم کسی اور کو قبول نہیں کریں گے۔ ہمیں نیا پاکستان چاہیے‘‘۔ اس بچی کا لب و لہجہ بالکل ایسا تھا جیسے سامنے ٹی وی نمائندہ نہیں اس کی امی کھڑی ہیں۔ وہ امی جس کے پلو میں ’’دوانا‘‘ خریدنے کے بھی پیسے نہیں اور ضدی بچی نیا پاکستان مانگ رہی ہو بلکہ اس ’’تعزیتی احتجاج‘‘ میں بیٹھا کوئی بھی ’’احتجاجی ‘‘پی ٹی آئی کی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ہر مرد و زن کے رویے کے مطابق ’’اس الیکشن میں قانون یہ تھا کہ عمران کے علاوہ کسی کا ووٹر گھر سے نہیں نکل سکتا تو پھر مخالف کے اتنے ووٹ کہاں سے نکل آئے ہم یہ رزلٹ نہیں مانتے‘‘۔ پیارے قارئین! یہ وہ کلاس ہے جو پینسٹھ سال میں پہلی مرتبہ اپنے بنگلوں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنز پہنچی ورنہ یہ لوگ اپنے مالیوں‘ باورچیوں اور چوکیداروں سے ہی پولنگ کا حال سن کر طنزیہ فقرے کستے ہوئے واپس اپنے ایئرکنڈیشنڈ بیڈ روم میں گُھس جایا کرتے تھے اور یہ وہ کلاس ہے جو نوکروں کی اپنے ساتھ برابری توہین سمجھتی ہے۔ اس لیے انہوں نے پینسٹھ سال اُس ووٹ کا استعمال کرنا اپنی توہین سمجھا جو ان کے نوکر کاسٹ کرتے تھے۔ اب یہ پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے ہیں۔ مبصرین اور دانشور کہتے ہیں کہ عمران خان نے اس کلاس کو باہر نکالا ہے‘ مگر ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ اس معرکے کا سہرا زرداری صاحب کے سر ہے۔ انہوں نے ان کے ائیرکنڈیشنڈ بند کیے تو یہ مجبور ہو کر باہر نکلے اور پھر ’’سٹائل مارنے کے چکر میں‘‘ عمران کے پیچھے لگے ورنہ عمران کے پاس ملک کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی ماسوائے ’’نیا پاکستان‘‘ کے۔ بھائی! کرپشن‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ دہشت گردی‘ جہالت وغیرہ کا رونا تو ہر لیڈر پہلے سے رو رہا تھا بلکہ اب تو ان جرائم میں ملوث لوگ بھی اس کے خلاف نعرہ بلند کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اس چوروں کے مچائے ہوئے شور میں نیا کوتوال تو پانچ سال میں مجرم پہچان ہی نہیں پائے گا یعنی ان مشکل حالات میں کوئی تجربہ کار بندہ ہی چاہیے تھا۔ رہی بات ’’نیا پاکستان‘‘ کی تو عمران خان سے معذرت کے ساتھ مہنگائی کے اس دور میں غریب آدمی کے لیے اس نعرے کا صوتی اثر ہی اچھا نہیں۔ اسی لیے ’’نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ صرف ان لوگوں کو بھایا جو ہر سال نئی گاڑی خریدتے ہیں۔ دوسری طرف الیکشن کمپین کے آخری دنوں میں کسی جاہل مطلق مشیر نے دیسی عوام کو متاثر کرنے کے لیے عمران خان کو سلطان راہی بننے کا مشورہ دے ڈالا اور ’’آکسفورڈیے‘‘ خان صاحب اپنے جلسوں میں پنجابی فلموں کے ٹوٹے چلانا شروع ہو گئے۔ یعنی اپنے انتخابی نشان بلے کو گنڈاسے کی طرح ہوا میں لہراتے ہوئے ’’پھینٹا‘‘ لگانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ مجھے ہر ایسے موقع پر ایک واقعہ یاد آتا رہا جو قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ خادم اعلیٰ ماڈل ٹائون میں کھلی کچہری لگائے بیٹھے تھے کہ ایک بزرگ سائل ان کی خدمت میں پیش ہوا اور اپنی بپتا سناتے ہوئے پنجاب پولیس کو گندی گالیاں دینا شروع ہو گیا۔ آئی جی پنجاب جو خادم اعلیٰ کے پہلو میں براجمان تھے چپکے سے اٹھے اور اس بزرگ کو ایک طرف لے جاتے ہوئے یوں گویا ہوئے کہ ’’بابا جی ٹھیک ہے یہ کُھلی کچہری ہے مگر اتنی بھی کُھلی نہیں‘‘۔ سو عمران خان صاحب ٹھیک ہے یہ دیسی عوام ہے مگر اتنی بھی دیسی نہیں کہ فلم اور حقیقت کے فرق کو نہ سمجھے اور یہ دیسی عوام تعداد میں دیسی انگریزوں سے بہت زیادہ ہے۔ یہ محبت بھرا لب و لہجہ زیادہ آسانی سے سمجھتی ہے۔ آپ کے اس دھمکی آمیز اور پُرتمکنت انداز نے آپ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اسی لیے الیکشن کے دن سلیو لیس طبقہ صبح آٹھ بجے پوری ذمہ داری اور جوش و خروش کے ساتھ نکلا مگر وہ تو دس بجے سے پہلے ختم ہو گیا۔ اس کے بعد دیسی اور غصے سے بھرپور عوام خاموشی کے ساتھ میدان میں آئے اور شام کو یہ فیصلہ سنا کر چپکے سے گھروں میں چلے گئے کہ ’’ہمیں سلیو لیس نہیں پورے بازوئوں والی حکومت چاہیے‘‘۔ جناب والا! یہ پاکستان ہمارے والدین نے بڑی قربانیوں کے عوض حاصل کیا تھا۔ ہمیں یہ پاکستان یہ پرانا پاکستان بہت عزیز ہے۔ ہم نے اس کی دیکھ بھال نہیں کی جس سے اس کی حالت بگڑ گئی۔ بس اس کی بری حالت کو اچھا کرنا ہے یعنی نیا نہیں ’’اچھا پاکستان‘‘ اور اچھا یہ اچھے اصول اپنانے سے ہوگا۔ خان صاحب آپ تو عظیم سپورٹس مین رہے ہیں اپنی ٹیم کو سمجھائیں کہ فتح حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کریں کہ یہ ہر میدان کا پہلا اصول ہے۔ سپورٹس مین سپرٹ پیدا کرنے کے لیے انہیں اُس شخص کی مثال دیں جو آپ کا آئیڈیل تھا‘ جسے دیکھ کر آپ کرکٹ کے میدان میں اُترے‘ جس کا آپ میڈیا پر کئی دفعہ برملا اعتراف کر چکے ہیں۔ سپورٹس مین سپرٹ کا بادشاہ عمران خان کا کزن ماجد خان۔ ایک ایسا بیٹسمین جسے بائولر کی اپیل پر ایمپائر دیکھتا تھا کہ ماجد خان کریز پر کھڑا ہے تو ناٹ آئوٹ اور اگر یہ عظیم کھلاڑی کریز چھوڑ گیا تو آئوٹ۔ میری ناقص رائے میں شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ رکھنے والا ہی فتح حاصل کرتا ہے۔ خان صاحب! آپ بہت اچھا کھیلے‘ ہار گئے تو پھر کیا ہوا ’’مین آف دی میچ‘‘ آپ ہی ہیں۔ میڈیا نے قوم میں اتنا شعور پیدا کردیا ہے کہ اب ٹیم اچھے کھیل کا مظاہرہ کر کے ہار جائے تو لوگ ناراض نہیں ہوتے بلکہ سراہتے ہیں۔ اس لیے اپنا اور مخالف ٹیم کا ٹائم ضائع کرنے کی بجائے اگلے میچ کی تیاری کریں ہمیں آپ سے بس یہی گزارش کرنا ہے۔ قارئین! میڈیا کی وسعت نے جہاں ہمیں بہت سے فائدے پہنچائے ہیں وہاں ہمارے لیے کئی ایک پریشانیاں بھی پیدا کیں‘ موبائل فون کی طرح، کہ جس کا استعمال سیکھنے کے لیے ہمیں اپنے بچوں کا شاگرد ہونا پڑا اور پھر آہستہ آہستہ ہماری نئی نسل کا رویہ والدین کے ساتھ استادوں جیسا ہی ہوگیا۔ اب ہمارے بچے بعض ایسے وقوف میں بھی والدین کے استاد بن بیٹھے ہیں جو صرف عمر یا تجربہ سکھاتا ہے۔ بہرحال بات ہو رہی تھی میڈیا کی۔ وطنِ عزیز میں سبزی منڈی کی طرح اب ’’خبری منڈی‘‘ بھی لگ چکی ہے جہاں عین سبزی منڈی کی طرح گاہک گھیرنے کے لیے دکانداروں کی جان پر بنی ہوتی ہے۔ ٹی وی سکرین پر دکان سجائے بیٹھے اکثر اینکر‘ دانشور اور تجزیہ کار دکانداری چمکانے کے لیے ہر ہر حربہ استعمال کر رہے ہوتے ہیں جس کا شاندار مظاہرہ پچھلے دنوں نظر آیا۔ الیکشن کے اس سپر ہٹ ہفتے میں کئی ’’سمجھدار ‘‘چینلز اپنے آپ کو ہیرو ثابت کرنے کے لیے نقلی بندوق پکڑے منہ سے ٹھاہ ٹھاہ کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ہر چینل کی یہ کوشش تھی کہ الیکشن رزلٹ بتانے میں بازی لے جائے اور پھر ہیرو بننے کے شوقین چینلز سینکڑوں پولنگ اسٹیشنز والے حلقوں کے چند ایک نتائج سن کر اسی کے تناسب سے ہار جیت کے متوقع فیصلے سنانے لگے۔ یعنی ’’غیر حتمی اور غیر سرکاری‘‘ نتائج۔ جسے ہمارے نومولود جذباتی ووٹروں نے اسی وقت سیلیبریٹ بھی کر ڈالا۔ بعدازاں مکمل اور حتمی و سرکاری نتائج منظر عام پر آئے تو یہ انوکھے لاڈلے جن کے اذہان میں مرضی کے سودے سمائے ہوئے تھے‘ حقائق تسلیم کرنے سے مچل بیٹھے۔ ہمارے خیال میں اگر کسی حلقے میں دھاندلی یا لاقانونیت کا مظاہرہ ہوا ہے تو اس ’’پڑھے لکھے‘‘ طبقے کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے کہ یہی ’’پڑھا لکھا‘‘ انداز ہے۔ قارئین! ہمارا تحریک انصاف کے ان ’’فیس بکیوں‘‘ کو مشورہ ہے کہ حوصلہ رکھیں ناامید ہونے کی بجائے لگے رہیں۔ اب بالعموم پاکستان اور بالخصوص پنجاب کی سیاست میں ان کے لیے جگہ خالی ہے۔ پنجاب سے پیپلز پارٹی ایک عرصہ ہوا فارغ ہو چکی کیونکہ اس جماعت کے پنجابی لیڈروں نے ووٹروں کی بجائے گیس کے ’’کوٹوں‘‘ کی طرف زیادہ توجہ دی۔ پنجاب میں جو دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پائی جاتی تھی اس کے لیڈر نے انجانے میں ’’مٹی پائو‘ مٹی پائو‘‘ کا مشورہ دیا لیکن عوام نے اسے اتنی سنجیدگی سے لیا کہ پوری پارٹی پر ہی مٹی ڈال دی۔ اب ن لیگ کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان خالی ہے‘ 24 گھنٹے فیس بک پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کی بجائے دیسی عوام کو فیس ٹو فیس ملیں اور بہترین اپوزیشن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے پر مجبور کریں کہ یہی بہترین جمہوریت اور ترقی کا صاف ستھرا راستہ ہے۔ دوسری جانب ہماری نومولود حکومت سے بھی گزارش ہے کہ اپنے لیڈر میاں نوازشریف کی طرح بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائیلاگ بازی کی بجائے مشکلات حل کرنے کی طرف توجہ دیں کہ آپ کا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے اور میڈیا کی ایک ایک آنکھ آپ پر ہے۔