یقینا بجلی کا مسئلہ مشکل ترین اور نئی حکومت کے لیے لازمی امتحان ہے۔ عوام کی نظر بھی ہر آن اسی مسئلے پر ہے کیونکہ جب بھی ایک آدھ گھنٹے کے لیے بجلی آتی ہے لوگ ٹی وی ضرور آن کرتے ہیں۔ صرف یہ جاننے کے لیے کہ لوڈشیڈنگ کا حکومت نے کیا کیا اور پھر ٹی وی کے ہر چینل پر کوئی نہ کوئی ’’شیخ رشید‘‘ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ’’دیکھتے ہیں نوازشریف صاحب کیسے بجلی کا بحران ختم کرتے ہیں‘ اب صرف پی ٹی وی کا کیمرہ نہیں اسّی کیمرے اور بھی ہیں جو ان کو دیکھ رہے ہیں۔ عوام نے ان کو اس لیے ووٹ دیئے ہیں کہ یہ ان کو بجلی دیں‘‘۔ یہ کلمات کہتے ہوئے شیخ صاحب کے لہجے میں عوام کے لیے ہمدردی کی بجائے نوازشریف پر غصہ صاف محسوس ہو رہا ہوتا ہے‘ ہونا بھی چاہیے کہ نوازشریف صاحب شاید پہلے شخص ہیں جنہوں نے شیخ صاحب کے گھینٹی بجانے پر دروازہ نہیں کھولا ورنہ شیخ صاحب تو بڑا سیاستدان ہونے کا دعویٰ ہی اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ ’’میں ہر حکومت میں سرایت کر جاتا ہوں یہی میری سیاست ہے‘‘۔ اس پُرجوش مگر اپنی مرضی کا بولنے والے عظیم سیاستدان نے ساری زندگی سیاست کی نذر کرنے کے بعد عمران خان صاحب کی مدد سے اس دفعہ بالآخر اپنے ’’محلّے‘‘ کی سیٹ جیت لی ہے۔ اس لیے ان کی گفتگو میں کھنک پھر لوٹ آئی ہے۔ انہوں نے ایک نشری نشست میں ان آزاد امیدواروں پر لعنت بھی بھیج ڈالی‘ جو بن بلائے خود چل کر مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے۔ حالانکہ ایسی ناکام کوششیں موصوف بھی بارہا کر چکے ہیں۔ شیخ صاحب سے معذرت کے ساتھ‘ آپ کو حکومت میں شامل ہونے والے اراکین کے لیے یہ لب و لہجہ استعمال نہیں کرنا چاہیے کہ آپ کی تو اپنی ساری زندگی اسی طرح ’’اندر باہر‘‘ ہوتے ہوئے گزری ہے اور آپ اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ اگر یہ آزاد امیدوار پہل نہ کرتے اور میاں صاحب خود ان تک پہنچتے تو پھر آپ یہ فرماتے کہ ’’میاں صاحب نے آزاد امیدوار خرید لیے‘‘۔ آپ سرکار نے ان اراکین کے لیے یہ بھی کہہ ڈالا کہ ’’یہ بے عزت ہوں گے بالکل گلی سڑی سبزیوں کی طرح کھجل ہوں گے‘ رُلیں گے‘‘۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ پیشین گوئی اپنی آخری پانچ سالہ سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے کی کہ آپ کو مشرف کا ساتھ دینے کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ آپ پانچ سال لال حویلی میں اکیلے بیٹھے رہے اور سارا دن سڑک سے گزرتے ہوئے وزراء کے قافلوں میں بجنے والے ہوٹروں کی آواز آپ کے کانوں میں زہر گھولتی رہی پھر آپ یہ زہر رات کو ٹی وی پر بیٹھ کر اُگلتے رہے۔ مگر حضور آپ جناب اور ان ممبران کی حالت میں خاصا فرق ہے۔ یہ آزاد حیثیت رکھتے ہیں اور آپ آزاد خیالات… بات بجلی سے شروع ہوئی اور نکل گئی شیخ رشید صاحب کی طرف‘ ویسے شیخ صاحب بھی کسی بجلی سے کم نہیں۔ بہرحال…… بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جس قدر خطرناک ہو چکا ہے ہمارے سیاستدان و لیڈران کو چاہیے کہ اسے سیاسی لاف زنی کی بجائے مل بیٹھ کر قومی اور معاشی ضروریات کے مطابق حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ صنعتوں کا پہیہ جام اور لاکھوں صنعتی مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں۔ لاقانونیت فروغ پا رہی ہے۔ ظاہر ہے یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کو جب کئی کئی یوم کرنے کے لیے دھندہ نہ ملے تو وہ مجبوراً کسی مکروہ دھندے کو اختیار کریں گے اور اگر سرکشی پر اتر آئے تو دوسروں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو بھی پامال کرنے سے نہ چوکیں گے۔ جرائم کی شرح میں اضافے اور بیڈ گورننس کا رونا رونے والوں کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ وطنِ عزیز میں برپا انارکی اور طوائف الملوکی کی سب سے بڑی وجہ توانائی کا بحران ہے۔ کیونکہ مزدور کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ جب محنت کش محنت کرنا چاہے لیکن حکومتوں کی ناقص کارکردگی اس سے محنت کرنے کے مواقع بھی چھین لے تو اس کے تلخ خانگی حالات اسے حادثاتی مجرم بنا دیتے ہیں۔ پس جرائم میں روز بروز اضافہ خطرے کے آخری نشان تک پہنچنے کو ہے۔ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ناقص حکمت عملی کے سبب بے بس اور لاچار دکھائی دیتے ہیں۔ محکمہ پولیس ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا قلع قمع ڈکیتی کے پرچوں کے عدم اندراج سے کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری پولیس ڈکیتی کی ایف آئی آر کے عدم اندراج سے ایک طرف تو اپنے افسران بالا اور خدام اعلیٰ کو یہ باور کراتی ہے کہ چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں کمی ہو رہی ہے اور دوسری طرف قانون نافذ کرنے والا یہ ادارہ قانون توڑنے والوں کو ہمہ قسم کی Protection بھی فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے پولیس کی کارکردگی اس قدر شرمناک ہے کہ ہمارے شہر کے ایک نوجوان کی موٹر بائیک چوری ہو گئی‘ وہ تھانے میں پرچہ درج کرانے پہنچا تو ایس ایچ او صاحب نے متاثرہ نوجوان کو بڑی ڈھٹائی سے فرمایا کہ آج صبح سے میرے تھانے کے علاقے میں ڈکیتی کی چار وارداتیں ہو چکی ہیں اس لیے آپ کل آیئے گا۔ بعدازاں نوجوان کی مسروقہ موٹر سائیکل کے سرقہ کی ایف آئی آر بیس دنوں کے بعد افسرانِ بالا کی مداخلت سے درج کی گئی۔ شاید پولیس والے اس بات کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ چور اگر موٹر سائیکل کھول کر بھی بیچنا چاہے تو اسے کم از کم اتنے دن ضرور دیئے جائیں کہ وہ آخری پرزہ تک بیچ لے۔ اسی طرح چند روز قبل گوجرانوالہ کے ایک ممتاز صنعتکار کا بیٹا صبح آٹھ بجے اپنے گھر سے نکلا‘ تقریبا ڈیڑھ کلو میٹر دور پہنچا کہ دو موٹر سائیکل سوار مسلح ڈاکوئوں نے اس کی نئی گاڑی‘ موبائل فون‘ قیمتی گھڑی اور کرنسی چھین لی۔ وقوعہ کے نصف گھنٹے کے اندر اندر پولیس کو واردات کی اطلاع ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوری طور پر وائرلیس پر ناکہ بندیاں کی جاتیں لیکن ہُوا یُوں کہ پولیس افسران صبح آٹھ بجے سے رات دس بجے تک یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ واردات تھانہ سبزی منڈی کے علاقے میں ہوئی ہے یا تھانہ صدر کے علاقے میں۔ دونوں تھانوں کے ایس ایچ او صاحبان کی چودہ گھنٹوں پر مشتمل اس باہمی دھینگا مشتی کا فائدہ صرف اور صرف ڈاکوئوں کو پہنچا ہوگا جو اس دوران نئی نکور گاڑی پر طویل مسافت کے مزے لوٹتے‘ راستے میں چائے پانی پیتے با آسانی اور باحفاظت بارڈر بھی پار کر چکے ہوں گے۔ ایسے واقعات سے یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ زیادہ تر محکمہ پولیس عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ ڈاکوئوں‘ چوروں اور لٹیروں کے حقوق کی پاسداری اور ان کی سرپرستی پر مامور ہے اور پولیس کے اس حسنِ کارکردگی سے صرف عوام ہی نہیں خود پولیس بھی فیضیاب ہو رہی ہے۔ مجرمان کے حوصلے اس قدر بلند ہو چکے ہیں کہ خود پولیس افسران بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں رہے۔ گزشتہ روز دو بہترین افسران ڈی ایس پی لالیاں چودھری محمد نواز اور ایس ایچ او کامونکی چودھری عادل شمشاد کی شہادتیں اس کا ثبوت ہیں کہ چور ڈاکو اب پولیس سے خوف زدہ نہیں۔ کاش پولیس افسران کو کوئی سمجھائے کہ کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے اور شتر مرغ کے ریت میں سر چھپانے سے خطرات ٹلا نہیں کرتے۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی حقیقت کا اعتراف کرنے سے ہی ان میں کمی ممکن ہے اور جرائم کی روک تھام کے لیے موثر حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ یہی چودھری نواز اور عادل شمشاد کی شہادتوں کا تقاضا ہے اللہ تعالیٰ ان کی قربانیاں قبول فرمائے! آمین آخر میں نئے منتخب حکمرانوں سے میری اور میرے پیارے پاکستان کے محنت کشوں کی اپیل ہے کہ بلا تاخیر توانائی کے بحران اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے کہ یہی جرائم کی شرح کم کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ گو یہ ٹاسک انتہائی مشکل ہے لیکن…… ؎ وہ کون سا عُقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا