"SAC" (space) message & send to 7575

روزے کا مطالبہ

عربی لفظ ’’صوم‘‘ کا مطلب ہے روزہ… اور عربی لغت میں اس کا مطلب رُکنا بھی ہے۔ اسی طرح روزہ دار کو صائم کہتے ہیں یعنی رُکا ہوا‘ ٹھہرا ہوا‘ کنارہ کش! اللہ کے حکم پر اللہ کے لیے لذائذ کام و دہن سے رُکا ہوا۔ نواہی سے ٹھہرا ہوا‘ ممنوعات سے باز آیا ہوا‘ صائم یا روزہ دار کہلاتا ہے۔ روزہ دار کے لیے مباح چیزیں حرام کر دی جاتی ہیں۔ تو جب روزہ دار کو ماہِ رمضان میں مباح چیزوں سے بھی کنارہ کشی کا حکم دیا جاتا ہے تو جو چیزیں ہم مسلمانوں پر پہلے سے ہی حرام ہیں وہ تو بطریقِ اولیٰ واجب الترک ٹھہریں۔ اسی لیے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’انسان کے ہر عمل کا بدلہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا‘‘۔ پس روزہ کی فضیلت کے لیے یہی مقدس حدیث کافی ہے۔ ہم پاکستانی مسلمان اس حوالے سے الحمد للہ بڑے ہی خوش بخت ہیں کہ اس ماہِ مقدس کی رحمتیں اور مغفرتیں سمیٹنے کے لیے ہماری اکثریت روزے رکھتی ہے۔ مساجد کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔ مومنین توفیقِ ایزدی سے نیک کاموں میں ہمہ تن مصروف ہو جاتے ہیں۔ برائیوں اور گناہوں سے دامن بچاتے ہوئے فیاضی و سخاوت میں جُت جاتے ہیں۔ کہیں روزے چھڑوائے جا رہے ہیں تو کہیں سحریاں کھلائی جا رہی ہیں۔ کہیں حاجت روائی کی جا رہی ہے تو کہیں بندہ نوازیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ صیام و قیام اور اذکارو استغفار کے جلوے روحانی سیرابی کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور اس حقیقت کا اعلان بھی کہ ہم مسلمانوں کی زندگی کا اصل مقصد اطیعو اللہ و اطیعو الرسولؐ ہے۔ نیز ہمارا ہر قول و فعل ہمارے اللہ پاک کی خوشنودی اور رضا کے لیے ہے۔ اسی چیز کا اعادہ اور مشق کروانے کے لیے اللہ پاک ہر سال ہمیں ماہِ رمضان عنایت کرتے ہیں۔ کس قدر خوش نصیب ہیں رسولِ کریمﷺ کے اُمتی کہ اللہ جل جلالہ انہیں کیسے کیسے بہانوں سے نوازتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی کہ ’’صوم کے معنی ہیں رُکنا‘‘… صرف بھوک‘ پیاس اور حظوظِ نفسانی سے رُکنے کا نام صوم نہیں۔ بلکہ بدنگاہی‘ بد سمعی‘ بدعملی‘ بدگوئی‘ بدنیتی‘ بدخواہی‘ بدخلقی‘ بدکاری‘ بدکلامی‘ بددیانتی‘ بدمعاشی‘ بدعہدی اور تمام بدعات سے کنارہ کش ہونے کا نام روزہ ہے۔ ہمارے علمائے کرام کے فرامین کے مطابق جسم کے تمام اعضا کا روزہ ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں ہماری آنکھیں وہ مناظر نہ دیکھیں جن کا دیکھنا بدنگاہی کہلائے۔ ہمارے کان بدسمعی سے رُکیں۔ ہماری زبان بدگوئی اور غیبت سے باز رہے۔ ہمارے قدم ہرزہ گردی سے منع رہیں اور ہمارے ہاتھ بدعملی کے مرتکب نہ ہوں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ بادشاہ کو ایک خادم چاہیے ہو اور وہ آپ کو مامور فرما دے کہ ہمیں ایک خادم لا دیجیے۔ اگلے روز آپ ایک ایسے شخص کو شاہ کے حضور لے جائیں جس کی بصارت کمزور ہو‘ اونچا سنتا ہو‘ ایک بازو سے محروم ہو‘ پائوں سے لنگڑا ہو تو ایسے اپاہج کو بارگاہِ حاکم میں لے جا کر سرزنش و ملامت ہی مقدر ہو سکتی ہے‘ ستائش و انعام تو ملنے سے رہے۔ بعینہِ یہی صورت احوال روزہ کی حالت میں ہے کہ آنکھ‘ زبان‘ ہاتھ‘ پائوں‘ کان‘ دماغ سب ہی کو روزہ کے عالم میں گناہ سے بچانا ہے۔ تبھی ہمارا روزہ رکھنے کا مقصد بھی پورا ہو سکتا ہے اور ہمارا روزہ بارگاہِ ایزدی میں قبولیت کا مرتبہ بھی پا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر تو رسولِ عربیﷺ کا مقدس فرمان ہمیں متنبہ کر رہا ہے کہ ’’جو شخص روزہ میں باطل بولنا اور بُرا کام کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں ہے اس بات کی کہ وہ چھوڑ دے اپنا کھانا اور پینا‘‘… اب آیئے تو ذرا پرکھیں ہم اپنے روزوں کو کہ کیا واقعی ہم ایسے روزے رکھ رہے ہیں جیسے اللہ رب العزت ہم سے چاہتے ہیں؟ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں… 1۔ کروڑوں روپے ماہانہ کی بجلی اور گیس چوری کی خبریں ہمارے میڈیا پر بریک ہو رہی ہیں۔ 2۔ ٹارگٹ کلنگ‘ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری اور دہشت گردی میں معصوم جانوں کے اتلاف جیسے سانحات میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ 3۔ مہنگائی‘ ناجائز منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ دو نمبر مصنوعات کی بھرمار‘ ناپ تول میں کمی اور دھوکہ دہی خاص طور پر اس مقدس مہینے میں عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ 4۔ کیمیکلز سے تیار کردہ دودھ دہی‘ مردہ جانوروں کا گوشت‘ حفظانِ صحت کے اصولوں سے منافی گھٹیا گندم سے تیار کردہ آٹا‘ کالے چنے کے چھلکوں کی ملاوٹ سے تیار کردہ چائے کی پتی‘ آٹے کے چھان کی ملاوٹ والی سرخ مرچیں‘ کپڑے رنگنے والے لال رنگ سے رنگے ہوئے آڑو‘ گائے بھینسوں کے اوجھ کو سرخ رنگ دے کر تیار کیا جانے والا قیمہ‘ جعلی غذائیں‘ نقلی ادویات‘ الغرض وہ کون سی بدعنوانی ہے جو رحمتوں اور برکتوں والے اس ماہِ مطہر میں نہیں کی جا رہی؟ اور یہ تو ہیں نچلی یعنی عوامی سطح پر کی جانے والی چھوٹی چھوٹی بدعنوانیاں‘ اوپر خواص کی سطح پر افسر شاہی اور مقتدرین کی کرپشن اور سیاہ کاریوں کے قصے تو اس قدر شرمناک ہیں کہ سنائے نہیں سنے جاتے۔ کیا یہ رسولِ کریمﷺ کے اُمتی کے لیے زیبا ہے کہ وہ اپنے سی این جی سٹیشن پر گیس چوری کرے اور چوری کی گیس فروخت کرتے وقت خریدار کو مقدار بھی پوری نہ دے اور یوں ایک ہاتھ سے قومی خزانے کو اور دوسرے سے قوم کو لوٹے؟ فیکٹری کے اندر کروڑوں ماہانہ کی بجلی اور گیس چوری کرنے والے اور فیکٹریوں کے باہر سرشام افطاری دستر خوان سجانے والے روزہ داران کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ سب دیکھ رہا ہے؟ روزہ تو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپ کر گناہ کرنے والو تم اپنے رب سے نہیں چھپ سکتے۔ روزہ کا مطالبہ تو یہ ہے کہ ع ’’باہروں جھاڑو پھیر نہ کُڑیے ہونج اندر دا کوڑا‘‘ اللہ کریم ہمیں سچا مسلمان بنا دے کیونکہ روزہ ہم سے یہی چاہتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں