چند دن پہلے مجھے ایک خط موصول ہوا جسے میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں ’’پیارے سہیل احمد السلام علیکم ! میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے باخیریت ہیں کیونکہ ٹیلی ویژن کے ذریعے آپ سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ آپ مجھے نہیں جانتے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ ہمارے ہیں ۔ہمارے گھرکے فرد ہیں روزانہ ہمارے گھر آتے ہیں اس لیے آپ کے سامنے اپنے گھر کے حالات کھولنا چاہتا ہوں۔ سہیل بیٹا !میری عمر تقریباً 72 سال ہے۔میں ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہوں میری پنشن اس وقت3200 روپے ہے۔میری دو بیٹیاں ہیں جو میں نے جیسے تیسے اللہ کے فضل و کرم سے بیاہ دی ہیں،جس میں میری جمع پونجی ختم ہوچکی ہے۔اب میں اور میری بیوی اس 3200 روپے کے ساتھ گھر میں ہوتے ہیں۔میری بیگم بلڈ پریشر اور شوگر کی مریضہ ہے ،گو ان دونوں بیماریوں نے مجھے بھی گھیر رکھا ہے مگر میری اپنے لیے فکر تو بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اب تو میں صرف یہ سوچتا رہتا ہوں کہ میں نے ایمانداری سے نوکری کرنے کے چکر میں ساری زندگی بیوی کی خواہشات کو پورا نہیں کیا مگر اب دوا دارو اور علاج معالجہ اس کی خواہش نہیں ،ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ مجھے اس کی ضرورت کو تو پورا کرناچاہیے ۔یہی سوچ سوچ کر اس عمر میں احساس کمتری کا شکار ہوگیا ہوں کہ میری جیب میں تو ہر مہینے صرف 3200 روپے ہوتے ہیں اس سے تو ہماری روٹی بھی نہیں پوری ہوتی۔ سہیل صاحب! آپ نے اگر گھر میں کوئی پالتو جانور رکھا ہوا ہے تو اِس مہینے اس کے کھانے پینے کے اخراجات کا اندازہ ضرور لگائیے گا کہ مہنگائی کے اس دور میں تو اتنے پیسوں میں ایک پالتو جانور کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا ۔میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے پروگرام ’’ حسب حال ‘‘اور ’’ روزنامہ دنیا ‘‘ کے ذریعے حکومت کی توجہ بزرگوں کی طرف دلائیں کیونکہ ریٹائرڈ ملازمین عمرکے اس حصے میں ہوتے ہیں کہ نہ تو احتجاج کرسکتے ہیں ،نہ جلسہ جلوس اور نہ ہی ان میں خودکشی کرنے کی ہمت رہتی ہے۔اس لیے آپ لوگ ہی میڈیا کے ذریعے حکمرانوں سے اپیل کریں کہ ان بزرگوں کی پنشن کم از کم 7200 روپے مقرر کریں تاکہ وہ بیماریاں ،جو بڑھتی عمرکے ساتھ ساتھ تقریباً ہر شخص کو لاحق ہوجاتی ہیں،ہم بزرگ ان کا علاج تو کروا سکیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کو مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔آمین دعائوں کا طالب عبدالغفور کھوکھر‘‘ کئی دن ہو چکے مجھے یہ خط پڑھے ہوئے ،مگر آج تک میں اسی خیال میں پھنسا ہوا ہوں کہ یہ خط کسی اور کا ہے یا میرے والد مرحوم نے مجھے لکھا ہے ؛کیونکہ میرے والد مرحوم و مغفور بھی ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر تھے اور میرے مشاہدے میں ہے کہ ایک انا پرست بیمار اور بزرگ ریٹائرڈ شخص کس طرح زندگی بِیتاتا ہے۔ گو مرحوم خط لکھنے سے محروم ہوتا ہے مگر خط میں درج پنشن کی رقم میں بھی مجھے دور دور تک زندگی نظر نہیں آ رہی ؛کیونکہ مادہ پرستی کے اس دور میں میرے ارد گرد ایسے افراد موجود ہیں جو ہر مہینے اپنے بزرگوں کی قبروں پر 3200 روپے سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں ۔کبھی ان قبروں پر سُرخ پھول پتیاں نچھاور کر کے اپنے دل کو تسکین پہنچاتے ہیں اور کبھی پرندوں کے لیے دال دانہ بکھیر کر مرحومین کی روح کو ثواب۔ بلکہ ان ’’بارونق قبروں‘‘ میں دفن ’’امیر مُردوں کے لواحقین‘‘ تو اخبارات میں اکثر لاکھوں روپے کے تعزیتی اشتہارات چھپوا کر اپنے بزرگوں کو ثواب دارین پہنچاتے ہیں۔ ایسی سرزمین جہاں ہزاروں اور لاکھوں روپے خرچ کر کے مُردوں کے لیے ثواب حاصل کیا جاتا ہے وہاں 3200 روپے میں دل کی دھڑکن اور سانسوں کا تسلسل مانگنا بے وقوفی ہے یعنی 3200 زندگی کے لیے تو کیا موت کے لیے بھی تھوڑے ہیں۔ آج میں یہ سطور رقم کرتے ہوئے پُرامید ہوں کیونکہ دورِ حاضر کے حکمران اپنے بزرگوں کا ادب و احترام اور خدمت کرنے کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ میں ان سے اپیل کرتا ہوں کہ عبدالغفور نامی اس بزرگ کی درخواست پر غور فرمائیں جو اُن تمام بزرگوں کی آواز ہے جو ریٹائر ہونے کے بعد کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے آخری ایام گزار رہے ہیں۔ شاید اس کے عوض ان بزرگوں کے منہ سے نکلنے والی دعائیں ہی وطن عزیز کی حالت بدل دیں۔ حضرت ثوبانؓ نے ایک مرتبہ رسول اکرمؐ سے پوچھا کہ حضورؐ اگر ایک درہم تعلیم حاصل کرنے کے لیے‘ ایک درہم جہاد کے لیے اور ایک درہم اپنے خاندان کے کسی فرد کی مالی معاونت کے لیے خرچ کیا جائے تو کس درہم کے خرچ کرنے کا اجر و ثواب سب سے زیادہ ہے تو جواباً نبی رحمتؐ نے فرمایا اُس درہم کا خرچ کرنا سب سے افضل ہے جو اقرباپروری کے لیے صرف کیا جائے۔ جناب وزیراعظم صاحب ! آپ کو صرف اتنا یاد دلانا ہے کہ قوم حکمران کا خاندان ہوتا ہے۔