چند دن پہلے بھارت کی حکمران جماعت کانگرس کی صدر سونیا گاندھی نے دہلی میں ملک کی دو تہائی آبادی کے لیے سستے داموں چاول‘ گندم اور دیگر اجناس کی فراہمی کے منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے خواتین میں کارڈ تقسیم کیے۔ اس منصوبے میں گندم 2 روپے کلو‘ چاول 3 روپے کلو اور دیگر اجناس ایک روپے کلو فراہم کی جائیں گی۔ 80 کروڑ غریب عوام کو روٹی کی تقریباً مفت سپلائی کی خوشخبری بھارت کے دارالحکومت میں عین اس وقت سنائی جا رہی تھی جب پاکستان کے دارالحکومت میں وزیر داخلہ چودھری نثار پارلیمنٹ آف پاکستان میں کھڑے ایک پاگل شخص سکندر کی روداد سنا رہے تھے اور محترم وزیر داخلہ کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے کسی ان پڑھ اور بے وقوف سرمایہ دار فلم ساز کو جال میں پھنسانے کے لیے ایک تیز طرار فلمی مصنف فلم کی کہانی سناتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں ایک ہی وقت میں پیش آنے والے ان دونوں واقعات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس پر بعد میں بات کریں گے‘ پہلے چودھری نثار صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے… بندہ چودھری صاحب سے پوچھے کہ اتنی بور اور مصنوعی سٹوری پارلیمنٹ آف پاکستان اور کروڑوں عوام کو سنانے کی کیا ضرورت تھی؟ میرے خیال میں اگر لوگ ٹکٹیں لے کر بیٹھے ہوتے تو کہانی کے ’’شٹاٹ‘‘ میں ہی ہوٹنگ شروع ہو جاتی۔ اچھے بھلے سمجھدار چودھری نثار کو اتنا بھی خیال نہ آیا کہ آپ جناب جو سنا رہے ہیں یہ فلم تو ایک دن پہلے پورا پاکستان اپنی آنکھوں سے ٹیلی ویژن سکرین پر دیکھ چکا ہے۔ انتہائی بور فلم تھی اگر نہتا پولیس آفیسر دو دفعہ اسلحہ سے لیس ولن کے پاس نہ جاتا اور ولن اپنی ساتھی کو بندوقیں تھما کر دو دفعہ جھاڑیوں میں جانے کا مظاہرہ نہ کرتا تو لوگ کب کے ٹی وی بند کر چکے ہوتے۔ اس کے علاوہ فلم میں تھا ہی کیا؟ ایک نشئی ہاتھ میں اسلحہ لیے ایک سڑک پر کھڑا ہے اور کچھ دور پولیس والے کھڑے باتوں میں مصروف ہیں اور نشئی کو گرفتار نہیں کر رہے۔ بھئی اس میں نئی چیز کیا تھی؟ ایسی فلم تو روزانہ ہر دوسری گلی میں چل رہی ہوتی ہے۔ میرے ذاتی خیال میں تو لوگ زمرد خان کو اس کی بہادری پر نہیں بلکہ اس لیے داد دے رہے ہیں کہ اس کے آنے پر یہ بور فلم ختم ہوئی۔ چودھری صاحب ایسی فلموں پر ناظرین کو غصہ ہی چڑھتا ہے جس میں چھوٹی سی بات کو فلم کا وقت پورا کرنے کے لیے اتنا طول دیا جائے۔ اس فلم کے ہدایتکار اگر آپ کی جگہ میاں شہباز شریف ہوتے تو یہ پانچ گھنٹے کی فلم نہیں بلکہ پندرہ بیس منٹ کا ایک سین تھا۔ حیرانگی ہے اس بات پر کہ آپ اور آپ کی وفاقی پولیس اتنی دیر اس کی بندوق سے بار بار بے ہنگم اور بے سمت گولیاں نکلنے سے بھی نہ سمجھ پائے کہ یہ کوئی پاگل یا نشئی ہے۔ بہرحال آپ نے تقریر میں کہانی کو جان دار بنانے کے لیے جو سین ڈالے وہ بھی بے تکے اور بے جان ہیں۔ راتوں رات اُس شخص کی رشتہ داریاں ڈھونڈ لینا‘ اُس کا دبئی میں تعلق اور اسلحہ بیچنے والے کی گرفتاری کو وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے معرکہ آرائی ظاہر کرنے پر مجھے سخت حیرت ہوئی۔ بھئی اس طرح کا کارنامہ تو تھانہ ستوکتلہ کا ایس ایچ او بھی ہر دوسرے دن انجام دیتا ہے۔ یہاں ایک واقعہ پیش خدمت ہے… زمانۂ طالب علمی میں ہم چند دوست پنجاب یونیورسٹی کے 14 نمبر ہوسٹل میں محفل سجائے گپیں ہانک رہے تھے کہ خوبصورت شاعر افضال نوید نے‘ جو اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں‘ نانا جی کے گائوں جانے کا واقعہ سنانا شروع کیا۔ ’’میں نے ایک دفعہ اپنے نانا کی پرزور فرمائش پر ان کے گائوں کا سفر کیا۔ چنیوٹ سے لاری پر بیٹھ گیا اور سرگودھا روڈ پہ گائوں کے موڑ پر اُتر گیا۔ وہاں مجھے لینے کے لیے نانا جی کا ایک ملازم دو گھوڑوں سمیت کھڑا تھا۔ ایک گھوڑے پر وہ اور دوسرے کی پشت پر میں سوار ہو گیا۔ لیں جناب میں نے گھوڑے کو تیز کیا… اور گھوڑا تیز ہو گیا‘‘… افضال کے منہ سے اس فقرے کا نکلنا تھا کہ ہم سب ہنسنا شروع ہو گئے۔ اس نے شرمندگی سے پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا چہرے پر جن تاثرات سے تم نے یہ معرکہ سنایا ہے ہم اس پر ہنسے ہیں۔ ’’گھوڑے کو تیز کیا اور گھوڑا تیز ہوگیا‘‘ اس میں فخر والی کون سی بات ہے؟ یا تو اس زمانے میں ایسے گھوڑے مشہور تھے کہ جنہیں تیز کرنے سے وہ تیز نہیں ہوتے تھے پھر تو واقعی یہ تمہارا کارنامہ ہے اور اگر گھوڑے کو تیز کرنے سے گھوڑا تیز ہو ہی جاتا ہے تو اس میں معرکہ آرائی کیا ہے؟ کیوں خوامخواہ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہو؟ سو جناب چودھری صاحب! ایک نشئی کی گرفتاری پر تفتیش کے دوران اس طرح کی معلومات حاصل کرنا کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہوتا کہ اسے پارلیمنٹ کا قیمتی وقت ضائع کر کے سنایا جائے۔ خدارا وہاں بیٹھ کر 18 کروڑ غریب عوام کا سوچیے۔ رہی بات اس نشئی کے دہشت گرد ہونے یا کسی بڑی تنظیم سے ناتا جوڑنے کی تو اس کا بھی ہمیں یا ہمارے ملک کو کیا فائدہ؟ جہاں یہ لوگ آپ کی آہنی دروازوں والی جیل سے اپنے اڑھائی سو بندے لے گئے وہاں اکیلا سکندر جیل میں بچ بھی گیا تو کیا ہوگا؟ جناب والا تقریر کیسی ہی کیوں نہ ہو دو چار دانشوروں کی طرف سے اخبارات میں تعریف لکھوانا موجودہ دور میں کوئی مشکل نہیں رہا۔ مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر ان مرے ہوئے عوام پر منہ سے گل پاشی کرنے کی بجائے ملک کے لیے وہ کچھ کریں جس کی ہم لوگ آپ کی حکومت سے توقع بھی رکھتے ہیں۔ اب اس واقعہ میں گولی کھا کر نشئی کے منہ کے بل گرنے کی وجہ سے وفاقی پولیس نے ملزم سے جو دو بندوقیں ’’برآمد‘‘ کی ہیں ان کا فروخت کرنے والا تو آپ نے پکڑ لیا اور اس کے بعد سیالکوٹ پولیس نے غیر ممنوعہ بور کا اسلحہ غیر قانونی طور پر فروخت کرنے والے اسلحہ ڈیلران کے خلاف کریک ڈائون کر کے سینکڑوں غیر قانونی اسلحہ جات بھی برآمد کر لیے لیکن سکندر والے واقعہ سے پہلے کیا سیالکوٹ پولیس سوئی ہوئی تھی؟ کیا کسی نے پولیس والوں سے یہ پوچھا کہ آپ کے ضلع میں اس طرح سرعام غیر قانونی ہتھیار کیوں فروخت ہو رہے تھے؟ یا اس واقعہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے آئی جی پنجاب نے باقی تمام اضلاع میں ایسا آپریشن کرنے کے احکامات جاری کیے؟ ہمارے ملک کے اندر دہشت گردی بچوں کا کھیل صرف اسی لیے بن چکا ہے کہ دہشت گرد کو اسلحہ ساتھ لانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس ملک کے ہر شہر‘ ہر گائوں اور ہر محلے سے ہر قسم کا ناجائز اسلحہ یہ لوگ اسی طرح خریدتے ہیں جیسے بچے محلے کی دکان سے ٹافیاں ٹکیاں۔ صرف شرط یہ ہے کہ جیب میں پیسے ہوں؟ خدارا ملک کو اسلحہ سے پاک کریں جس کا اظہار خود میاں شہباز شریف کئی بار کر چکے ہیں ورنہ جس ملک میں وزیراعظم اپنے اقتدار کے اختتام پر عوام میں محبتیں بانٹ کر رخصت ہونے کی بجائے کلاشنکوفوں کے سینکڑوں لائسنس تقسیم کر کے اللہ کے سپرد ہوتا ہے وہ ملک بھی پھر اللہ ہی کے سپرد ہے۔ دوسری طرف وطنِ عزیز سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے سونیا گاندھی والا نسخہ استعمال کریں۔ وہ کریں جو آپ کی تقریر کے وقت بھارت میں ہو رہا تھا۔ غریب اور لاچار عوام کے پیٹ بھرنے کا بندوبست کریں ورنہ جتنے مرضی سکندر اور اسلحہ فروش پکڑ لیں کوئی نہ کوئی بھوکا ننگا جیل کا سنتری اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دہشت گردوں سے جا ملے گا اور سکندر جیل سے باہر…!