موبائل فون پر مواصلاتی پیغام کی گھنٹی بجی‘ روشنیوں کے شہر کراچی میں بسنے والے روشن دل کے فنکار شہزاد رضا صاحب کا نام فون کی سکرین پر نمایاں ہوا۔ دیکھتے ہی میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ شہزاد رضا کی سینئر اور اعلیٰ فنکار ہونے کے باوجود مجھ ادنیٰ کے ساتھ انتہائی بے تکلف دوستی ہے۔ جس کا اظہار ہم گاہے بگاہے فون کے ذریعے اور سال میں ایک دو بار ملاقات کر کے کرتے رہتے ہیں۔ یہ اٹکھیلیاں ہمارے ملنگ دوست لیاقت سولجر کے بچھڑ جانے کے بعد دھیمی پڑ گئی تھیں۔ لیاقت سولجر مرحوم و مغفور کا شہزاد رضا سے پوری زندگی کا ساتھ رہا۔ عہدِ شباب سے لیاقت بھائی کی زندگی کے اختتام تک دونوں میں رزق کی تلاش کے علاوہ دکھ سکھ کی سانجھ بھی ایسی شفاف تھی کہ لیاقت سولجر نے شہزاد بھائی کی گود میں سر رکھ کر اسے اپنی آخری سانسیں تک گنوائیں۔ لیاقت بھائی کو رخصت ہوئے سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا لیکن شہزاد رضا آج بھی اس کا چہرہ اپنی گود میں لیے پھرتے ہیں کہ شاید لیاقت انہیں آواز دے۔ شہزاد بھائی کے انتظار کی اس تکلیف کو کم کرنے کے لیے میں ڈیڑھ دو ماہ پہلے کراچی پہنچا اور ہم نے پورا دن اکٹھے گزارا۔ لیاقت سولجر مرحوم کی معصوم شرارتوں اور مقسوم محبتوں کو خوب یاد کیا۔ جس سے شہزاد بھائی کا دل کافی ہلکا ہوا اور دوسرے دن انہوں نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ مجھے لاہور روانہ کردیا۔ دو ماہ بعد شہزاد بھائی کا ٹیلیفونک پیغام دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے ان کا وہی کھلا ہوا چہرہ تھا لیکن جوں جوں پیغام پڑھتا گیا توں توں ان کا چہرہ سنجیدہ ہوتا گیا۔ ’’سہیل بھائی! میری ’’ماں‘‘ آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ہیں۔ دعا کرنا اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانی پیدا کرے۔ آمین!‘‘ میرے چہرے سے بھی مسکراہٹ سمٹ کر افسردگی پھیل گئی… جس ہاتھ میں موبائل فون تھا وہ ڈھیلا پڑ گیا… میں اس فکر میں مبتلا ہو گیا کہ کال کیسے ملائی جائے… میں شہزاد رضا کی ماں سے محبت کو جانتا تھا… کیونکہ میں اپنی ماں سے محبت کو جانتا تھا… کیسے… اور کیا بات کروں اس وقت شہزاد سے؟؟؟… ’’ماں‘‘ بستر مرگ پر ہے اور وہ باہر دروازے کے ساتھ کھڑا سوچ رہا ہے… ’’یہ ہو نہیں سکتا کہ ماں مر جائے‘‘… بالکل اسی طرح جیسے مکہ والوں نے سوچا تھا ’’یہ ہو نہیں سکتا کہ چاند دو ٹکڑے ہو جائے‘‘… مگر حکمِ ربی سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا… شہزاد رضا کی والدہ محترمہ بھی انتقال کر گئیں… (انا للہ و انا الیہ راجعون) فون ملتے ہی دوسری طرف سے بے جان سی آواز آنی شروع ہوئی… سہیل ماں جی پانچ دن پہلے ہی انتقال کر چکی تھیں… وہ بول نہیں رہی تھیں‘ وہ بے ہوش تھیں… میں انہیں گود میں اٹھائے ہسپتال کی طرف نکلنے لگا مگر مجھے ایک دم خیال آیا… میں لیاقت کو گود میں اٹھا کر ہسپتال لے کر گیا… وہ فوت ہو گیا… میں نے فوراً ماں جی کو اپنے بھائی کی گود میں ڈال دیا۔ اسے کہا کہ انہیں تم ہسپتال لے کر جائو۔ وہاں پہنچے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ کی ماں ٹھیک ہے مگر سہیل ماں جی نہیں تھیں… ڈاکٹروں نے لاکھوں کا بل بنانے کے لیے انہیں اتنے دن وینٹی لیٹر پر لگائے رکھا… سہیل میں چھپ چھپ کر رو رہا ہوں… میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں مجھے اپنے چھوٹوں کو بھی حوصلہ دینا ہے… سہیل میری ماں کی مغفرت اور آسانی کے لیے دعا کرنا بس! ہاں… اب میری ماں نہیں ہیں… میرے لیے بھی دعا کرنا… شہزاد بھائی! اللہ تعالیٰ ماں جی کے ساتھ ویسی ہی محبت فرمائیں جیسی محبت وہ آپ کے ساتھ فرماتی تھیں اور ماں جی کی ہی دعائیں تاقیامت آپ کے ساتھ رہیں۔ آمین! فون بند کرنے کے بعد میں یہ سوچ رہا تھا کہ دل میں دکھ بھرے احساسات کی موجوں کا جوار بھاٹا لیے سمندر کے کنارے بسنے والے مصروف ترین شہر کراچی میں بھرپور زندگی گزارنے والا یہ شخص اپنے ساتھ جڑے لوگوں کے لیے ہر لمحہ کس قدر فکر مند رہتا ہے۔ کل لاہور کی ایک محفل میں ایک اور درد مند دل اور روشن دماغ کے مالک قاضی آفاق صاحب سے ملاقات ہوئی… گو قاضی صاحب منجھے ہوئے استاد اور سینئر بیوروکریٹ رہ چکے ہیں مگر ان کا پرخلوص انسان ہونا ان کی شخصیت پر حاوی ہے۔ ہر بیٹھک میں محبتوں کی شیرینیاں بانٹنے والے قاضی صاحب دورِ حاضر کی اپنے معاشرے میں پھیلتی ہوئی بے حسی کا ذکر چھیڑ بیٹھے… ’’ہم ایک ایسا ادارہ بھی چلاتے ہیں جہاں اولاد کے ہاتھوں گھربدر کیے گئے بزرگوں کو رکھا جاتا ہے۔ چند دن پہلے اس ادارے میں ایک بزرگ کا انتقال ہوا جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ کراچی کے رہنے والے اس شخص کو بڑھاپے میں پڑھی لکھی اور ماڈرن اولاد نے گھر سے نکال دیا۔ کراچی ریلوے سٹیشن سے گاڑی پر بٹھا دیا‘ بیچارے لاہور سٹیشن پر اترے اور ہمارے ادارے تک پہنچ گئے۔ دس سال انہوں نے ہمیں خدمت کا موقع دیا اور چند دن پہلے اصل مقام کی طرف روانہ ہو گئے‘‘۔ ’’ہم نے فون پر اُن کے بیٹے کو ان کی وفات کی اطلاع دی جس نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا کہ آپ نے جو کرنا ہے کردیں میرے پاس لاہور آنے کے لیے وقت نہیں‘‘… ’’کیا مطلب؟… وہ باپ کی لاش لینے کے لیے بھی نہیں آئے؟‘‘ ’’نہیں بھائی! ہمارے ادارے نے ہی ان بزرگوں کی نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کی‘‘… قاضی صاحب کی اُس محفل سے نکل آنے کے بعد میرے دماغ میں سوچوں کی میراتھن ریس شروع ہو گئی جس میں شہزاد رضا کا دردمند احساس اور ڈاکٹر کے بیٹے کی بے حسی اکٹھے دوڑ رہے ہیں… اہلِ خرد جانتے ہیں کہ اس ریس میں جیت کس کا مقدر ہوگی؟