ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لانے کی وجہ صرف توانائی کی لوڈشیڈنگ ہی نہیں... جس جس کا جہاں ہاتھ پڑا‘ اُسے کھینچ کر اُس طرف لے جانے کی کوشش کی۔ دیسی زبان میں معیشت کے ساتھ ''باندر کلے‘‘ والا کھیل کھیلا گیا۔ جس جس کے ہاتھ میں جوتا تھا اُس نے اِسے مارا۔ ملک کی حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے بھی ہم نہیں سمجھے کہ مضبوط ملکی معیشت کے بل پر ہی قومیں خوشحال ہوتی ہیں اور تجارتی اور فنی تعلیم کے بغیر معیشت کی حالت اُس اپاہج کی سی ہے جو بیساکھیوں کے سہارے چلنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا اور زمین پر اپنا جسم گھسیٹ رہا ہوتا ہے۔
آیئے نظر ڈالتے ہیں کہ پیارے وطن میں اس پولیو زدہ معیشت کے لیے انتہائی ضروری انجیکشن ''تجارتی و فنی تعلیم‘‘ کے ساتھ ذمہ داران نے کیا سلوک کیا؟
ہمارے ہاں بھی ماہرین علوم اس کی اہمیت کو سمجھتے رہے ہیں‘ چنانچہ فنی و تجارتی تعلیم کی شروعات بڑے زورو شور سے ہوئی۔ تقریباً تمام بڑے بڑے شہروں میں کامرس و ٹیکنیکل کالجز اور انسٹیٹیوٹ قائم کیے گئے۔ طلبا نے بھی ان علوم میں خاصی دلچسپی لی اور ان کے حصول کے لیے ان اداروں کی طرف رجوع کیا۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ ترقی کا پہیہ گھومنا شروع ہو گیا‘ اب رفتار پکڑ لے گا مگر جلد ہی اس پہیے کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ شعبہ حکمرانوں کی عدم توجہی کا یوں شکار ہوا جیسے کوئی بگڑا نواب بڑے شوق سے مہنگی اور نئی گاڑی خریدے اور کچھ عرصہ میں ہی دل اچاٹ ہونے کی وجہ سے اُسے ڈرائیوروں کے سپرد کردے۔ مسلسل لاپروائی کی وجہ سے یہ گاڑی آہستہ آہستہ اینٹوں پر کھڑی ہو گئی اور پھر شاید کسی ''نالائقوکریٹ‘‘ کے کہنے پر اس کی اوورہالنگ کے لیے ٹیوٹا کے نام سے ایک ورکشاپ قائم کر کے اِسے اُس کے سپرد کردیا گیا۔ اس ادارے نے تجارتی اور فنی تعلیم کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کسی آبادی میں گھس جانے والا بندر صحن میں رسی پر لٹکے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کرتا ہے... یعنی ''لیرو لیر‘‘...
اس بدترین سلوک کا صرف ایک ''ٹریلر‘‘ آپ کو دکھاتا چلوں کہ 2004ء میں اُس وقت کے چیئرمین ٹیوٹا خالد محمود (جو ایک بااثر آدمی ہیں اور کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی کے بھی مزے چکھ چکے ہیں) ایک تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ ماہرین تعلیم نے ان کے سامنے اداروں میں ایم کام کی کلاسز شروع کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔ موصوف نے اپنی تقریر میں ان ''میلے‘‘ الفاظ کے ساتھ ''صاف‘‘ انکار کردیا کہ ''ہم صرف سطحی ورکر پیدا کرنا چاہتے ہیں اعلیٰ تعلیم ہماری ترجیح نہیں‘‘...
حکومتی سیانوں کو اس غلطی کا احساس ہوا تو چیتھڑوں کی شکل اختیار کیے ہوئے اس اہم ترین شعبے کو 14 سال بعد دوبارہ محکمہ ایجوکیشن کے سپرد کردیا گیا۔ اس سپردداری پہ انوکھی منطق کے مالکان نے خواتین کے چار ادارے یعنی لٹن روڈ لاہور‘ فیصل آباد‘ بہاولپور اور ملتان کو ٹیوٹا کی ''پرائی گود‘‘ میں ہی رہنے دیا۔ اس ظالمانہ ہمدردی کو آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا۔
اب ہمارا یہ ''محنت کُش‘‘ ایجوکیشن کا محکمہ تجارتی و فنی تعلیم کے اس شعبے کو اُس نظر سے دیکھتا ہے جس سے کسی ایئرکنڈیشنڈ کار میں بیٹھا کوئی ''لوفر‘‘ اُس نوجوان گداگر لڑکی کو دیکھے جو بغل میں بچہ دبائے گاڑی کے شیشے پر دستک دے رہی ہو۔
ماہرین علوم اب بھی اس فنی و تجارتی تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اسے پھیلانے کے لیے منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں لیکن یہ شعبہ‘ جس کی بنیاد ہی فنی و تجارتی تعلیم تھی‘ اسے یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ تقریباً تمام یونیورسٹیوں حتیٰ کہ جنرل ایجوکیشن کے علاوہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور‘ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد‘ وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد‘ ایرڈ یونیورسٹی راولپنڈی وغیرہ میں تجارتی تعلیم کی تمام ڈگریوں بی کام‘ بی بی اے‘ ایم کام‘ ایم بی اے وغیرہ کے لیے تدریسی عمل شروع کروا دیا گیا ہے۔ جبکہ اس کمرشل ایجوکیشن کا اہتمام کرنے کے لیے جو شعبہ پہلے سے موجود ہے پچھلی دو دہائیوں سے اُس کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے اور یہ ادارہ اعلیٰ تجارتی تعلیم سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ پنجاب بھر میں تحصیل کی سطح پر بھی جنرل ایجوکیشن میں ایم اے کی کلاسز شروع کردی گئی ہیں‘ جبکہ کامرس کالجوں میں ایم کام یا ایم بی اے تو درکنار انٹرمیڈیٹ میں بھی جدید تعلیم یعنی آئی کام شروع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ جس سے تمام کالج ویران ہو رہے ہیں۔
ریگولر تدریسی عملہ صرف کامرس کالجوں میں موجود ہے جبکہ دوسرے کالجوں میں عارضی سٹاف سے کام چلایا جا رہا ہے۔
کامرس کالجوں میں سکیل 19,18 اور 20 کی مردانہ و زنانہ پوسٹیں عرصہ تین سال سے خالی ہیں اور پروموشن کا عمل رُکا ہوا ہے‘ جس سے یہاں کے اساتذہ سرکس میں منہ سے آگ نکالنے والے پروفیسر لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
انہی اداروں کے ڈی پی ای حضرات اور لائبریری کا عملہ تو پروموشن کے لفظ سے بھی ناآشنا ہے۔
اسی محکمہ میں تقریباً 850 ملازمین 10 سال سے عارضی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں‘ جنہیں مستقل کرنا تو دور کی بات‘ تنخواہ بھی ریگولر نہیں دی جاتی‘ جبکہ جنرل ایجوکیشن میں ہر کسی کو مستقل کردیا گیا۔
ان کالجوں کے اساتذہ‘ ڈی پی ای اور دوسرا عملہ کس حاکم سے پوچھے کہ جنرل ایجوکیشن والے ترمیم شدہ چار درجاتی فارمولہ کا اطلاق ہمارے ہاں کیوں نہیں؟... کیا ہمارا قوم کی تعلیم و تربیت میں کوئی حصہ نہیں؟... کیا ہم اس ملک کے باسی نہیں؟
ان کالجوں کے پرنسپلز کو جنرل ایجوکیشن کی طرز پر چارج الائونس دیا جاتا ہے اور نہ اساتذہ کو ہارڈ ایریا الائونس... یہ قابل احترام محنت کش مگر مساکین‘ پسینے میں شرابور کئی سالوں سے اپنی اجرت حاصل کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حاکموں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
یہ ملکی معیشت کی ترقی میں اہم رول ادا کرنے کے قابل ادارے آج بھی اکثر کرایوں کی بلڈنگوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ ہی ان کی کمپیوٹر لیبز کو اپ گریڈ کیا گیا اور نہ ہی انہیں لوڈشیڈنگ کا کوئی متبادل دیا گیا۔
ستم بالائے ستم گڈگورننس کی چیمپئن پنجاب حکومت نے آج تک ان اداروں اور اس کے اساتذہ کے ساتھ منفی و انتقامی سلوک کرنے والے ذمہ داران کو کسی میٹنگ میں بلا کر پوچھا تک نہیں۔
کامرس و ٹیکنیکل ایجوکیشن کے منہ پر حکومت کی طرف سے آخری طمانچہ یہ ہے کہ اس ادارے کے کسی ایک طالب علم کو بھی لیپ ٹاپ استعمال کرنے کے قابل نہ سمجھا گیا۔ یہ بیچارے ان ''سخاوتی تقریبات‘‘ کو ٹی وی کے آگے بیٹھ کر ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے سڑک کے کنارے خیمہ بستی کے بچے وہاں سے گزرنے والی بڑی بڑی اور مہنگی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے آپس میں لڑتے ہیں۔
''یہ تمہاری ہے‘‘
''وہ میری ہے‘‘
نہیں ''یہ میری ہے‘‘
''وہ تمہاری ہے‘‘
خدارا ملکی ترقی کی چھائوں کے لیے انتہائی اہم معیشت کے اس درخت کو سوکھنے سے بچائیں‘ اس کی جڑیں مضبوط کریں اور یاد رکھیں کہ معیشت کی جڑیں فنی و تجارتی تعلیم ہیں۔ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ٹیوٹا میں مختصر مدت کے تکنیکی کورسز کا آغاز کروایا ہے۔ خدا کرے کہ ان کی نظرِ کرم تجارتی تعلیم کے اس بیمار شعبے پر بھی پڑے...