شہید انسپکٹر پولیس برادرم عادل شمشاد ایس ایچ او تھانہ قادرآباد تعینات تھا۔ ایک روز اُس نے مجھے فون کیا۔ بعداز مزاج پرسی اُس نے تھانہ قادرآباد کا تعارف یوں کروایا کہ تھانہ مذکورہ تقسیم پاک و ہند سے پہلے تعمیر شدہ‘ ضلع منڈی بہائوالدین کا سب سے قدیم تھانہ ہے۔ عادل شہید نے مزید بتایا کہ ایک دن وہ اپنے تھانہ کے محرر والے کمرے میں بیٹھا‘ پرانے مقدمات کی مثلیں دیکھ رہا تھا کہ ایک سکھ پولیس آفیسر کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تین چار فقروں کی ایف آئی آر نے اُس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔
''امروز بتاریخ 13 اکتوبر1911ء بوقت پونے 3 بجے سہ پہر تھانے کے صحن میں موجود ہوں کہ منجانب شمال سرخ آندھی اٹھی ہے۔ لگتا ہے کہ تھانے کے علاقہ میں کوئی قتل ہو گیا ہے۔ نفری سمیت برائے تفتیش روانہ ہوتا ہوں‘‘... سروپ سنگھ (سب انسپکٹر) تھانہ قادرآباد
عادل شہید نے یہ بھی بتایا تھا کہ سرخ آندھی اٹھنے پر لکھی جانے والی اَن دیکھے قتل کی ایف آئی آر حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی‘ قتل بھی ہوا اور مذکورہ سادہ سی چار سطروں کے نتیجے میں گرفتار ہونے والے قاتلوں کو سزائے موت بھی ہوئی...
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند سال پہلے تک بھی سرخ آندھی چلنے سے آسمان کی رنگت سرخی مائل ہوتی تو بزرگ فرماتے کہ ''اللہ خیر کرے‘ کہیں خون ہوا ہے‘‘ اور پھر کچھ دیر تک کہیں نہ کہیں سے واقعی ایسی اطلاع مل جاتی اور آسمان کی سرخی سچ ثابت ہو جاتی۔ ماں جی فرمایا کرتی تھیں کہ ''انسان کو اللہ پاک نے بنایا ہے‘ جب اسے کوئی مار دیتا ہے تو اللہ پاک جلال میں آ جاتے ہیں۔ انہیں اپنی تخلیق کے کسی انسان کے ہاتھوں مٹنے پر غصہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ آسمان اللہ پاک کے غصے سے سرخ ہوتا ہے‘‘...
تو پھر انسانوں کا قتل تو اب بھی جاری ہے مگر اب آسمان پر سرخی نظر کیوں نہیں آتی؟... کیا اب اللہ پاک کو غصہ نہیں آتا؟... کیا اب وہ رب جلال میں نہیں آتا؟... کیونکہ انسان تو اللہ تعالیٰ ہی کی تخلیق ہے۔ آسمان لازماً آج بھی سرخ ہوتا ہے... آج بھی لال آندھی چلتی ہے... مگر دیکھنے والی آنکھیں سفید ہو چکی ہیں... ان پر مفادپرستی‘ خودغرضی اور گناہوں کی ایسی چربی چڑھی ہے کہ ہمیں سرخ آسمان نظر نہیں آتا... یا پھر خون ہوا ہی اتنا ہے کہ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں اور اسی عادت کی وجہ سے ہمارا اپنا خون سفید ہو گیا ہے...
چند دن پہلے دہشت گردوں کے ہاتھوں جو خون بہایا گیا وہ ''لال سرخ‘‘ تھا... وہ معصوموں کا خون تھا... اُس میں ابھی سفیدی کے ایک قطرے کی بھی آمیزش نہیں تھی... اِس خون کی سرخی آسمان پر ایک عرصہ تک رہے گی... لال آندھی دیر تک چلے گی... ہماری آنکھوں میں‘ ہمارے دلوں میں‘ ہمارے دماغوں کے اندر... کیونکہ کم از کم ہمارے عہد میں تو ایسی خونریزی نہ اس سے پہلے کبھی ہوئی اور نہ اس کے بعد ہوگی... اتنا بوجھ ہم نے اپنے کندھوں پر اِس سے پہلے کبھی نہیں اٹھایا... ڈھائی فٹ کے تابوت کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے... یہ احساس بھی شاید پہلی دفعہ ہوا کہ تابوت چھوٹا ہو تو زیادہ وزنی ہوتا ہے... اور پھر اتنے سارے چھوٹے چھوٹے تابوت... دھچکا اتنا بڑا کہ دماغوں تک پہنچا... بے حس جسموں سے اوپر اِس دھچکے نے بند دماغوں کو کھول دیا... اس لیے آواز ایک اٹھی... بس! اب اور نہیں... اس سرخ کھیل کو ختم ہونا چاہیے... آواز کے ایک ہونے سے ایک دم حوصلہ پیدا ہوگیا... سوچ ایک ہونے سے امید نظر آنے لگی... مگر...
کچھ لوگ بٹیر لڑاتے ہیں‘ مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اس ''بٹیر دنگل‘‘ سے ان کو کیا تسکین پہنچتی ہے... میں نے اپنی آنکھوں سے اس دنگل کو دیکھا ہے کہ پہلوان لہو لہان ہو گئے... کئی دفعہ تو کسی پہلوان کے پَر تک جھڑ گئے اور وہ بے چارہ ایک ہی دنگل میں ''بے پَر کا‘‘ ہو گیا... بٹیروں کے اس دنگل میں پہلوانوں کے چہروں کے تاثرات تو شاید ایک جیسے ہی رہتے ہیں لیکن اس دنگل کے دوران منتظمین کی خوفناک شکلیں بن رہی ہوتی ہیں... جیسے اس ''بٹیر دنگل‘‘ میں سارا زور انہی کا لگ رہا ہو... نہ جانے کیا مزہ آتا ہے ان لوگوں کو بٹیر لڑا کر... یہ اپنے اندر موجود اپنی فطری حسِ مخاصمت کی تسکین کے لیے ان بے زبانوں کو لڑاتے ہیں...
میرے خیال میں اگر بٹیر کو تھوڑی بہت عقل ہو اور وہ بولنے کے قابل بھی ہو تو لازماً ان لوگوں کو بُرا بھلا کہے‘ بددعائیں دے جو اسے کسی سے لڑاتے ہیں... یا شاید پھر یہ بٹیرے ان کے کہنے پر اس لیے لڑتے ہیں کہ یہ انہیں باجرہ کھلاتے ہیں... مگر باجرہ تو بھلے مانس بٹیرے کو بھی مل جاتا ہے... ہاں البتہ ان لڑاکے بٹیروں کو بادام‘ گری اور پستے بھی کھلائے جاتے ہیں...اسی لیے یہ بٹیرے اپنے مالک کے اندر موجود فطری حسِ مخاصمت کو تسکین پہنچاتے ہیں...
سیاست کی دنیا میں بھی بٹیر لڑانے والے موجود ہیں جو سیاسی بٹیروں کو آپس میں لڑا رہے ہیں... یہ لوگ بھی عادت سے مجبور ہیں... انہیں بھی انجانی سی تسکین پہنچتی ہے ان بٹیروں کو لڑا کر... اس تماشے کے تماشبین بھی بے شمار ہیں جنہیں اور کوئی مصروفیت نہیں... بالکل ویلے... منہ اٹھائے ان سیاسی بٹیروں کا دنگل دیکھ رہے ہوتے ہیں... اور پھر سارا دن اُس دنگل کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے ہیں... گلی محلوں کے تھڑوں اور دکانوں میں بیٹھ کر...
ان سیاسی بٹیر لڑانے والوں کو یہ اندازہ نہیں کہ اس دنگل میں بٹیروں کو شاید کوئی نقصان نہیں پہنچتا مگر معاشرہ لہولہان ہو رہا ہے... انتہائی قیمتی خون جس نے قوم کی رگوں میں دوڑ کر اُسے صحت مند بنانا ہے... خاک میں ملتا جا رہا ہے... بے مول بہتا جا رہا ہے... قوم میں ہراسیت اور یاسیت پھیلتی جا رہی ہے...
خدارا لڑانا بند کرو...
اپنے چند ٹکوں کی خاطر...
ملک میں انتشار پھیلانے کا دھندہ ختم کرو...
اپنی تسکین کے لیے عوام کا سکون برباد مت کرو...
اس المناک دھچکے سے جو پھیلی آواز ایک ہوئی ہے اُسے دوبارہ پھٹنے سے بچائو...
حال سے نظریں اٹھا کر مستقبل کی طرف دیکھو...
ملک فرقہ وارانہ فسادات کی طرف نہ چل پڑے...
انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دو...
ورنہ اس نازک وقت میں تھوڑی سی لاپروائی بھی لامتناہی نقصان پہنچا سکتی ہے... ہوشیار رہو کہ 134 شہیدوں کے لہو سے...
''ابھی تو آسمان سرخ ہے‘‘...
یوں شہیدوں کا چلو قرض اتاریں مل کر
آئو سفاک درندے سبھی ماریں مل کر
جب یہ قاتل ہیں تو پھر کیسی حمایت اِن کی
ہاں یہ وحشی، یہ درندے ہیں پکاریں مل کر
پھر نہ کٹتی، نہ یہ آسانی سے پھر ٹوٹتی ہیں
ڈور بن جاتی ہیں جب ریشمی تاریں مل کر
جب بھی تقسیم ہوئے ہم تو خزاں آ پہنچی
ڈھونڈنا ہوں گی ہمیں پھر سے بہاریں مل کر
نظریہ ایک‘ زباں ایک‘ وطن ایک تو پھر
توڑنا ہوں گی تعصب کی دیواریں مل کر
کٹ چکی ہے جو بہت کرب زدہ ہے طاہرؔ
زندگی باقی جو ہے اس کو گزاریں مل کر