میں ہی ’’سچاّ‘‘ میں ہی ’’ایماندار‘‘

پاناما فیصلے کے بعد مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں ہی ''سچا‘‘ اور صرف میں ہی ایماندار ہوں‘ میرے اِرد گرد سب جھوٹے اور بے ایمان رہتے ہیں۔ میرا ''مڈل کلاسیا‘‘ ضمیر مجھے ہر وقت کچوکے لگاتا رہتا ہے‘ اس لیے کرپشن اور بے ایمانی کو ختم کرنا اب میرا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسئلے تو اور بھی ہیں مگر لیڈروں اور حکمرانوں کی بے ایمانی مجھ سے بالکل برداشت نہیں ہوتی۔ جس ملک کے لیڈر ہی صادق اور امین نہ ہوں اس ملک نے ترقی کیا خاک کرنی ہے؟ ان کا علاج یہی ہے کہ ان کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں‘ ٹھوس فیصلے لیے جائیں اور انہیں نااہل کر دیا جائے۔
میرے مخالف مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ مجھے صرف اپنے آپ سے محبت ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نپولین کی طرح میرا قد چھوٹا ہے‘ اس لیے میں احساس کمتری کا شکار ہوں۔ اپنے قد کو بڑا کرنے کے لیے میں کوئی کارنامہ انجام دینا چاہتا ہوں‘ تاریخ کا ابدی کردار بننا چاہتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے مسیحائی رجحانات دراصل میری اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے ہیں‘ اور یہ بھی کہ میں اسی لیے دوسروں کو جھوٹا بے ایمان اور نااہل بھی گردانتا ہوں۔ یاد رکھیں کہ تاریخ کے بڑے لوگ نپولین اور ہٹلر بھی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا اور برتر سمجھتے تھے۔ اگر میں بھی ایسا سمجھتا ہوں تو اس میں برائی کیا ہے؟
میں کروں کیا؟ اپنے سوا مجھے کوئی پسند ہی نہیں آتا۔ یونانی دیومالائی پرانی کہانی ہے کہ میں نے جب اپنا ہی عکس پانی میں دیکھا تو میں اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا‘ سحر ایسا تھا کہ میں نے جھٹ پانی میں چھلانگ لگائی اور اپنے عکس کے ساتھ ملاپ کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ گو میں اپنے ہی عشق سے برباد ہوا لیکن میری خود سے محبت کا انجام ایک نئے پھولدار اور خوشبودار پودے کے ظہور میں ہوا‘ جسے نرگس کہتے ہیں۔ اگر میں نرگسیت کا شکار ہوں تو کیا ہوا؟ کیا ہٹلر‘ نپولین اور دنیا کے کئی بڑے لوگ نرگسیت کا شکار نہیں تھے؟ نرگسیت ہی بڑے بڑے کام کرواتی ہے۔ غیر معمولی انسان ہی زندگی کے عام دائرے سے باہر نکل کر تاریخ کو بدلتے ہیں۔ میں وہی ہوں‘ مجھے پہچانو اور صرف مجھے ہی سچا اور ایماندار جانو۔ مجھے چھوڑو‘ ہٹلر کو دیکھو یہ تو اصلی جرمن بھی نہیں تھا‘ معمولی کارپورل تھا مگر اسے بھی میری طرح خود سے محبت تھی‘ بس یہی جذبہ تھا جس سے اس نے جرمنی کے عوام کو مسخر کر لیا۔
پہلی جنگ عظیم کے شکست خوردہ جرمنی میں حب الوطنی کی وہ آندھی چلائی کہ اس وقت کی ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ برطانیہ اور روس جیسی سپر پاورز سے ''متھا‘‘ لگایا۔ یہ الگ بات ہے کہ سازشی دنیا نے اسے ہرا دیا وگرنہ اگر ہٹلر جیت جاتا تو آج ساری دنیا میں جے ہٹلر اور ہیل ہٹلر کے نعرے لگ رہے ہوتے۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی ایسے فیصلے کروں کہ ہر طرف میری جے جے ہو جائے۔
شعر و شاعری اور تاریخ و ادب کا مطالعہ میری زندگی کا اہم حِصّہ رہا ہے۔ فلمیں شوق سے دیکھتا ہوں۔ فلموں کے ڈائیلاگ ہوں یا ناولوں کے پیراگراف مجھے زبانی یاد ہیں۔ خلیل جبران اور ولیم شیکسپیئر کے اقوال میری گفتگو اور تحریروں کا حِصّہ ہوتے ہیں۔ انہی تحریروں نے مجھے کرپشن سے نفرت سکھائی ہے۔ یہ الگ بات کہ میں اسے عملی طور پر ختم کر سکوں یا نہ کر سکوں‘ میں اسے خیالوں ہی خیالوں میں ضرور ختم کرتا رہتا ہوں۔
میں تاریخ کے جھروکوں میں سانس لیتا ہوں۔ میں آج کے زمانے کا آدمی نہیں ہوں۔ میں وقت سے پہلے پیدا ہو گیا ہوں۔ آپ سمجھیں یا کنفیوژ ہوں‘ میری باتیں اور میرے فیصلے بولتے ہیں۔ میرے فیصلے 20 سال یا پھر 100 سال یاد رکھے جائیں گے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں‘ میرا لکھا ہوا ہر لفظ تاریخی ہوتا ہے۔ میری فتح ہو یا شکست‘ دونوں تاریخی ہوتے ہیں۔ میری طرح نپولین بونا پارٹ جو بھی فتح حاصل کرتا تھا وہ تاریخی ہوتی تھی اور جب اسے شکست ہوئی تو وہ بھی تاریخی قرار دی جاتی رہی۔ مصر فتح کیا تو اہرامِ مصر کے سامنے تقریر کرکے نپولین نے تاریخ میں اپنا قد بڑا کر لیا اور جب نپولین کو ڈیوک آف ولنگٹن نے واٹرلو میں شکست دی‘ تب بھی ''واٹرلو‘‘ میں تصویری کنواں بنا کر اس کی شکست بھی تاریخی بنا دی گئی۔ ایڈولف ہٹلر بھی میری طرح تاریخ کا مسافر تھا۔ وہ بھی سب دشمنوں‘ سٹالن‘ چرچل اور روزویلٹ کو ایک ہی وار میں شکست دینا چاہتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میرے ہیرو نپولین اور ہٹلر‘ دونوں جنگیں ہار گئے مگر اس سے کیا ہوتا ہے وہ تاریخ میں تو زندہ ہیں۔
میں کوئی تبدیلی تو نہیں لا سکا مگر تاریخ میں زندہ رہوں گا۔ مجھے ابنِ صفی‘ ماریو پترو اور امام دین گجراتی بہت اچھے لگتے ہیں۔ ابنِ صفی کے جاسوسی کردار جب کوئی کارنامہ سرانجام دیتے ہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ میرا ہی کارنامہ ہے۔ امام دین گجراتی کی شاعری پر لوگ ہنستے ہیں مگر مجھے حوصلہ ملتا ہے کہ اگر امام دین اپنا نام بنا سکتا ہے تو پھر کوئی بھی بنا سکتا ہے۔ ماریو پترو کا ناول ''گاڈ فادر‘‘ میرا پسندیدہ ہے۔ سپنرو نے پہلے بھی ناول لکھا مگر وہ ٹھس رہا‘ جب اس نے مافیا کے حقیقی کردار پر دوسرا ناول لکھا تو ہٹ ہو گیا۔ اس پر فلم بھی بنی اور بالزاک کا فلسفہ کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم پنہاں ہوتا ہے۔ میرا بھی فلسفہ بن گیا ہے اور میں نے طے کر لیا ہے کہ میں ہر کرپٹ حکمران کو بے نقاب کر کے رہوں گا۔ آخر میں تاریخ کا آدمی ہوں۔ مجھے یہ مسیحانہ کردار و دیعت ہوا ہے۔ میں خود تاریخ ہوں اور صرف تاریخ ہی کو جوابدہ ہوں۔
باقی رہے آئین‘ قانون‘ اصول اور ضابطے یہ سب عام لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ماضی کے فیصلوں کی نظیریں اور دائرے کے اندر رہ کر بات کرنا اور فیصلہ کرنا یہ عام اور اوسط سے افراد کا وتیرہ ہے۔ تاریخ کے بڑے لوگ نپولین‘ ہٹلر اور جسٹس مارشل جیسے لوگ اپنا قانون‘ آئین اصول اور ضابطے خود تشکیل دیتے ہیں۔ نپولین نے تو نیا نظام تشکیل دے ڈالا۔ نئے قانون نئے ضابطے بنائے۔ جہاں تقریر کرتا‘ وہاں کہتا استحصال ختم کروں گا‘ اب آزادی اور برابری کا دور ہے۔ ہٹلر نے بھی اپنے زمانے میں یہودیوں کے جبر اور پنجہء استبداد سے بچانے کی کوشش کی۔ میں بھی جسٹس مارشل کی طرح قانون اور آئین کی وہی تشریح کروں گا‘ جو مجھے پسند ہے اور جس سے معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے۔ میں وہی لکھوں گا جسے میںحق اور انصاف سمجھتا ہوں۔ آئین اور قانون کیا کہتا ہے‘ یہ سب اوسط لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ ہم خواّص کے لیے یا غیر معمولی لوگوں کے اصول اپنے ہوتے ہیں۔ وہ جو تشریح کرتے ہیں‘ وہی ٹھیک ہوتی ہے۔ میرا تعلق ''تخلیقی اقلیت‘‘ سے ہے جو معاشرے اور تاریخ کو آگے چلاتی ہے۔ آرٹیکل 62 ہو یا 63 گو یہ ایک آمر نے آئین میں شامل کئے مگر ان کے ذریعے سے صاحبان اقتدار کو گرفت میں لانا آسان ہے۔ اسی لیے آئین اور قانون کی ماضی میں جو بھی تشریح ہوئی‘ اس کو چھوڑیں‘ جو تشریح میں نے کی ہے اب وہی فائنل اور حتمی ہے...
(نوٹ) ڈاکٹر مجھے نفسیاتی مرض نرگسیت کا شکار قرار دیتے ہیں‘ وہ جو مرضی کہتے رہیں میں تو عظیم ہوں اور تاریخ میں بڑا بن چکا ہوں۔ اب تاریخ 20 سال یا 100 سال میرا ذکر کرتی رہے گی۔ تحریر جو بھی ہو اس کو چھوڑیں نام تو بنا لیا ناں...

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں