صرف وزیراعظم کے لیے!!

ہر کمالے‘ رازوّالے کے مصداق‘ سورج طلوع ہوتا ہے تو اس نے غروب بھی ہونا ہوتا ہے۔ ہر صاحب اقتدار کو بالآخر جانا ہوتا ہے۔ آپ 35 سال تک تاج و تخت کی راہداریوں کے اہم ترین کردار رہے مگر اب تو آزمائش اور امتحان کے دن ہیں۔ تاریخ لکھنے والے قلم‘ کیمرہ اور برش لئے منتظر ہیں کہ پردہ گرنے سے پہلے آپ آخری منظر کیسے فلم بند کروائیں گے؟
فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ نے تاریخ میں جولیس سیزر کی روایت نبھانی ہے‘ بروٹس کو بے نقاب کرنا ہے یا پھر جلتے ہوئے روم کو نیرو کی طرح بانسری بجاتے ہوئے چھوڑ کر جانا ہے۔ آپ نے چاروں طرف سے محاصرے میں آ کر ضیاء الحق کی طرح ہوا میں پھٹنے کا آپشن لینا ہے‘ جونیجو کی طرح برطرفی کے بعد پروٹوکول والے جہاز میں بستر بند کے ساتھ سوار ہو کر ہمیشہ کے لئے سیاسی موت کا شکار ہونا ہے یا پھر بھٹو کی طرح ڈٹ جانا ہے اور سولی کو چوم کر امّر ہونا ہے۔ بہرحال زندگی کا یہ مشکل ترین فیصلہ تو آپ ہی نے کرنا ہے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ دیر نہ کریں‘ ڈیل کرنی ہے تو کریں اور گھر جائیں ڈٹنا ہے تو پھر میدان میں اتریں۔
تاریخ بڑی ظالم ہے‘ برسوں کا ذکر ایک یا دو فقروں میں کر کے آگے بڑھ جاتی ہے۔ آپ کا ذکر کتنا آئے گا اس کا فیصلہ آپ اپنے کردار سے کریں گے۔ زندگی کی دوڑ میں خاموش کردار اہم تو ہوتے ہیں لیکن کوئی آواز بلند کئے بغیر منظر سے ہٹ جانے والے تاریخ پر کوئی نقش نہیں چھوڑتے وہ ادارے‘ وہ پارٹیاں یا اشخاص جن کا بیانیہ نہیں ہوتا وہ تاریخ میں زندہ نہیں رہتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر سکندر مرزا اقتدار سے نکل کر لندن جلا وطن ہوئے‘ جرأت اظہار نہ تھی سازش کے بادشاہ تھے مگر جب خود سازش کا شکار ہوئے تو بولتی بند ہو گئی اور زندگی بھر زبان بندی کا جبر پالے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ہر آدمی کی طرح آپ نے اپنی تقدیر خود لکھنی ہے آپ نے خود طے کرنا ہے کہ بھٹو کی طرح نعرۂ مستانہ بلند کرنا ہے یا پھر جاتی عمراء کے محلاّت میں موروں کا رقص دیکھنا ہے‘ یہ تو آپ کو سوچنا ہے کہ آپ نے بے نظیر بھٹو کی طرح آگ اور خون کے دریا میں بے خطر کودنا ہے یا پھر چھانگلہ گلی کے قدرتی ماحول میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہونا ہے‘ خاموشی توڑیں اور اپنا موقف سامنے لائیں ٹیپو سلطان کی طرح بہادری سے لڑیں۔ میر جعفروں اور میر صادقوں کو بے نقاب کریں۔ یاد رکھیں ایسی جنگوں میں قدم بڑھا کر پیچھے دیکھیں تو کوئی بھی پیچھے نہیں ہوتا اس لئے جنگ کا فیصلہ سرفروشی کا تقاضا کرتا ہے۔ طارق بن زیاد کی طرح جبرالٹر پر کشتیاں جلانی پڑتی ہیں۔ فیض کا یہ شعر پڑھ کر فیصلہ کریں کہ آپ نے کیا کرنا ہے ؎
ناروا جبر کی ایڑی تلے
ہم کو جینا ہے پہ یونہی تو نہیں جینا ہے
خوشامدی جو بھی کہیں‘ اصل حقیقت یہی ہے کہ سیاست کی بنیاد صرف اور صرف اخلاقی برتری پر رکھی جاتی ہے۔ دنیا کا ہر ووٹر اپنے لیڈر کو اخلاق زادہ دیکھنا چاہتا ہے اگر اس کا لیڈر اخلاق زدہ ہو جائے تو اس کا یقین اور اعتماد اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔
ہمیں علم ہے کہ کسی بھی ملک کا کوئی بھی لیڈر آسانی سے نہیں بنتا اس کے ساتھ ہزاروں‘ لاکھوں لوگوں کے آدرشوں اور خواہشوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ لیڈر کو ملنے والا تجربہ قوم کی امانت ہوتا ہے۔ آپ تین بار وزیراعظم بنے‘ اس خطّے کے سب سے پرانے اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ آج کی پی ٹی آئی کے بہت سے لوگ بھی ماضی میں آپ کے ووٹر اور سپورٹر رہے ہیں۔ عمران خان بھی آپ کو جپھیاں ڈالتے رہے۔ ماضی میں عسکری خان اور بابو خان دونوں آپ کے ممدومعاون رہے۔ دونوں آپ کو اقتدار میں لاتے اور پھر چلاتے بھی رہے۔ قوم کی سرمایہ کاری کی وجہ سے لیڈر کے فرائض بڑھ جاتے ہیں اس پر مشکل وقت آئے تو اسے کمزوری نہیں دکھانی ہوتی اسے اخلاقی طور پر سب سے برتر بن کر دکھانا ہوتا ہے‘ قربانیاں دینی پڑتی ہیں جدّہ کی جلاوطنی کو لوگوں نے آپ کی ناتجریہ کاری کہہ کر معاف کر دیا ورنہ کیا ڈیل کرنے والے کو بھی کبھی دوبارہ سے اقتدار ملتا ہے؟ 
ہر پاکستانی کی پہلی ترجیح ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ ہے ظاہر ہے کہ آپ کی بھی یہی ترجیح ہو گی۔ آپ جواب کیوں نہیں دیتے کہ پاکستان کا ازلی دشمن مودی آپ کے گھر آ کر کیوں ملا تھا؟ مودی اور آپ کے درمیان رابطے کا کام دینے والا سجن جندال آخر کیا پیغام لاتا رہا؟ آپ پر شک کیا جاتا ہے آپ اندر کی باتیں بتا کیوں نہیں دیتے ؟آپ راز کھول دیں اگر بھٹو نے معاہدہ تاشقند کی پٹاری کھولنے کا وعدہ کر کے عوام کو قائل کر لیا تھا تو آپ بھی کوئی اندرونی کہانی سنائیں موچی گیٹ لاہور‘ راجہ بازار راولپنڈی گھنٹہ گھر فیصل آباد یا نشتر پارک کراچی آ کر اپنا سینہ کھول کیوں نہیں دیتے‘ گریباں چاک کیوں نہیں کر دیتے؟
جے آئی ٹی آپ کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ آپ نااہل ہوتے ہیں تو صرف آپ نہیں‘ سارا خاندان سیاست سے فارغ ہو گا۔ مالیاتی اثاثوں کے جائز یا ناجائز ہونے پر بھی سوال اٹھیں گے؟ عزت‘ دولت‘ سیاست اور شہرت سب کو نقصان پہنچے گا۔ بہتر ہو گا کہ جلاوطنی کے زمانے میں کی گئی مالیاتی ڈیلز کا سارا کچا چٹھا خود ہی بول دیں‘ سب گانٹھیں عوام کی عدالت میں کھول دیں ہو سکتا ہے کہ جن باتوں پر قانون کی عدالت آپ کی گرفت کر رہی ہے عوام کی عدالت آپ کو چھوڑ دے‘ یاد کیجئے بھٹو نے بھی عوامی عدالت میں تھوڑی سی شراب پینے کی بات کر کے معافی لینے کی کوشش کی تھی آپ بھی یہ کوشش کر کے دیکھ لیں!
قانون‘ انصاف اور اخلاق کے اصولوں سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ''دی پارٹی از اوور‘‘ اس لئے اس پارٹی کے اختتام کو زیادہ سے زیادہ قابل عزت اور یادگار بنانے کی کوشش کریں۔ سیّانے کہتے ہیں میچ کے آخری بال پر چھکا لگانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کیونکہ چھکا لگ گیا تو واہ!! واہ!! وگرنہ آئوٹ بھی ہو گئے تو کیا؟ آخری بال تھا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وقت آ گیا ہے‘ اپنے آپ کو ذاتی‘ خاندانی اور مالی معاملات سے بالاتر ثابت کریں۔ لندن فلیٹس کو بیچنے‘ بیرونِ ملک ساری جائیداد اور اثاثوں کو واپس لانے کا اعلان کریں‘ ایسا کریں گے تو آپ کی کچھ نہ کچھ اخلاقی حیثیت ضرور بحال ہو جائے گی وگرنہ سیاسی مقدمہ اتنا کمزور ہے کہ اس کا دفاع بھی مشکل ہوتا جائے گا۔
خواہشات کو چھوڑیں‘ حقائق یہی ہیں کہ آپ گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ تقدیر ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتی رہی مگر اس بار کہیں سے دعائوں کی کمی ہے۔ آپ کے 35 سالہ سیاسی تجربے کا تقاضا ہے کہ فیض کے اس شعر کو مدنظر رکھیں...؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘ وہ شان سلامت رہتی ہے 
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
پھر کہتا ہوں‘ آخری فیصلہ تو آپ نے کرنا ہے مگر بہادر کی موت اس فارسی قول کے مطابق ہو ''کہ چوں مرگ آید‘ تبسّم برلب اُواست‘‘ یعنی جب موت آئے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہونی چاہیے۔ کارزارِحیات ہو یا کارزار سیاست‘ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ آخری قہقہہ کون لگاتا ہے؟ ڈیل کرنی ہے تو کریں وگرنہ شیر بنیں شیر!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں