خفیہ مراسلہ برائے صدر ٹرمپ

(جولین اسانج نے ''وکی لیکس‘‘ کے ذریعے دنیا کے بڑے بڑے رازعوام کے سامنے کھول کر رکھ دیئے۔ آج جو خفیہ مراسلہ شائع کیا جا رہا ہے وہ بھی اسانج ہی نے ریلیز کیا ہے۔ یہ خفیہ مراسلہ امریکی سفارتخانے کی طرف سے براہ راست امریکی صدر ٹرمپ کو پاکستان کی تازہ ترین صورتحال پر لکھا گیاہے۔ جولین اسانج لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں پناہ گزین ہیں کیونکہ باہر نکلنے پر انہیں اپنی گرفتاری کا خطرہ ہے۔ پاکستانیوں کو اسانج کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ گردش حالات کا شکار ہونے کے باوجود انہوں نے پاکستان کے بارے میں یہ خفیہ مراسلہ ریلیز کیا ہے ۔اس مراسلے کو اس کی بالکل اصلی عبارت اور متن کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے)
ریفرنس نمبر
تیارشدہ
جاری کردہ
درجہ بندی
مقام اجراء
051-990000

 

14 جولائی 2017ء
بوقت
5:30 شام
15 جولائی 2017ء
بوقت
7 بجے صبح
انتہائی خفیہ
امریکی سفارتخانہ
اسلام آباد
انتہائی خفیہ! صرف صدر ٹرمپ کے لئے!
1۔ (تازہ ترین) پاکستان کی سیاسی صورتحال بہت خطرناک ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے سارے خاندان کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ آ چکی ہے۔ عمران خان‘ پیپلز پارٹی اور تقریباً ساری اپوزیشن متحد ہو کر یہ اعلان کر رہی ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں ۔
2۔ (عمومی صورتحال) آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان نے ہمیں گھما کر رکھا ہوا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے ساتھ سخت پالیسی اپنانی ہے یا نرم پالیسی۔ سخت پالیسی اپناتے ہیں تو افغانستان اور بھارت میں کارروائیاں بڑھ جائیں گی اور اگر ہاتھ نرم رکھتے ہیں تو افغانستان میں طالبان کی جیت اور حقانی گروپ کی فتح کے امکانات بڑھ جائیں گے‘ اس لئے ہمیں نئی پالیسی بناتے وقت بہت سوچ بچار کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اس کے ساتھ ڈیلنگ بہت احتیاط سے کرنی چاہیے۔
3۔ (سیاسی صورتحال) نوازشریف مصائب میں گھر چکے ہیں۔ سیاسی مخالف تو پہلے ہی ان کے پیچھے لٹھ لے کر لگے ہوئے تھے‘ اب ''دوسرے ‘‘ اور ''تیسرے‘‘ بھی انہیں اتارنا چاہتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست بہت مشکل میں پڑ گئی ہے بہتر ہوتا کہ نیا الیکشن کروا لیا جاتا اور جو بھی کوئی جیتتا وہ حکومت سنبھالتا۔ لیکن پاکستان ایک عجیب ملک ہے ۔وزیراعظم کو ڈر ہے کہ اِدھر میں نے استعفیٰ دیا اُدھر ہر کوئی میرے پیچھے پڑ جائے گا۔ احتساب، احتساب کے نعرے بلند ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ معاملہ جیل تک جا پہنچے۔ اس لئے نوازشریف چاہیں گے کہ مقدموں کا سامنا بطور وزیراعظم ہی کریں۔ سابق کرکٹر عمران خان کوواضح طور پر سیاسی فائدہ ملا ہے ۔امید ہے مزید طاقتور انتخابی گھوڑے بھی ان کے ساتھ آ ملیں گے۔ کل ہی دو اراکین قومی اسمبلی نے سفارتخانے کے سیاسی افسر کو بتایا ہے کہ وہ فارورڈ بلاک بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ عام پاکستانی ہمیشہ سے یہ سمجھتا رہا ہے کہ پاکستان کی ہر تبدیلی میں امریکہ اور سی آئی اے کا ہاتھ ہوتا ہے مگر اس دفعہ کسی مقتدر ادارے نے سفارتخانے سے رابطہ تک نہیں کیا کہ کم از کم یہ ہی بتا دیں کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟۔ البتہ یہ اطلاع ضرور ملی ہے کہ مستقبل کی سیاسی حکمت عملی اور سی پیک کی حفاظت کے حوالے سے چینی سفارتخانے کو کئی تفصیلی بریفنگز دی گئی ہیں۔
4۔ (تاریخی صورتحال) پاکستان میں ایک افواہ یہ بھی ہے کہ سیاست کی بساط ہی الٹنے والی ہے۔ کل ہی ایک پرانا سفارتکار امریکی سفارتخانے میں آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ امریکہ کے ری پبلکن صدور کی ماضی کے جرنیل صدور سے بڑی گہری دوستی رہی۔ صدر ضیاء الحق کی ڈیموکریٹک صدر جمی کارٹر سے نہیں بنی تھی اسی لئے انہوں نے مونگ پھلی کے تاجر کارٹر کی جانب سے دی جانے والی مالی امداد کی پیشکش کو مونگ پھلی کہہ کر مسترد کر دیا تھا مگر جونہی ری پبلکن صدر ریگن آئے صدر ضیاء الحق اور ان کے تعلقات میں گرمجوشی آ گئی تقریباًیہی صورتحال صدر مشرف کو بھی پیش آئی۔ صدر مشرف کی ڈیموکریٹک صدر کلنٹن سے نہ بن پائی۔ انہوں نے باوردی جنرل مشرف سے ملاقات کی تصویر بھی جاری کرنے سے احتراز کیا مگر جونہی ری پبلکن صدر بش نے اقتدار سنبھالا دونوں کی دوستی ہو گئی اور بعد میں صدر مشرف اور بش کی جوڑی بہت نبھی۔ اس بوڑھے اور جہاندیدہ سفارتکار نے ہنستے ہنستے کہا کہ امریکہ میں ری پبلکن صدر آ گیا ہے اب پاکستان کی جمہوری بساط کو خطرہ تو ہو گا۔ 
5۔ (سفارتی صورتحال) کافی عرصے سے پاکستان میں امریکہ مخالف لہر چلی ہوئی ہے۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں ہم سے ویزے لینے کے لئے دوستی تو رکھتی ہیں لیکن مظاہرے ہمیشہ ہمارے خلاف ہی کرتی ہیں۔ قومی سیاسی پارٹیاں بھی ہم سے اپنے تعلقات کو ظاہر نہیں کرتیں ‘مبادا ان کا امیج خراب ہو جائے حالانکہ اندر خانے وہ ہم سے لابنگ کرتی رہتی ہیں‘ اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرتی رہتی ہیں لیکن باہر جا کر وہ بھی ہمارے خلاف ہی باتیں کرتے ہیں۔ حال ہی میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Contractor نے پاکستانی سیاست میں کافی ہلچل مچائی ہے ۔ہمارے سارے دوست ایکسپوز ہو گئے ہیں۔ حالانکہ جنرل پاشا نے جب ریمنڈ ڈیوس کو پکڑوایا تو اس وقت بھی انہوں نے ملکی مفاد میں ہی ایسا کیا تھا اور جب ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑا تب بھی پاکستان کے مفاد میں تھا کیونکہ پاکستان کو امریکی اسلحے اور جہازوں کے پرزے دینے بند کر دیئے گئے تھے۔باقی رہ گئے سیاست دان تو ان کی یہاں سنتا کون ہے؟
6۔ (انصاف کی صورتحال) پاکستانی عدلیہ بالکل آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ زیادہ تر جج صاحبان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور وہ کرپشن کو ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جے آئی ٹی کا بھی یہی مسئلہ تھا ۔مڈل کلاس کی اس وقت پہلی ترجیح کرپشن کے خلاف جہاد ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس جہاد میں وہ نظام اور سیاست ہی کا گلا گھونٹ دیں گے۔ یہی شہری مڈل کلاس 1990ء کی دہائی میں پاکستان میں رائے عامہ کے ذریعے حکومتیں گراتی اور بناتی رہی ہے۔ پہلے یہ طریقہ کار تھا کہ صدر یا فوج اسمبلیاں توڑتے تھے اور عدالتیں مہر تصدیق لگاتی تھیں اب آئینی طور پر ایسا ہونا ناممکن ہے اس لئے دوسرا راستہ اپنایا گیا ہے۔
7۔ (مجموعی صورتحال) پاکستان کی مجموعی صورتحال یہ بتا رہی ہے کہ اگلے چند سالوں میں سیاسی بھونچال جاری رہے گا ۔دو بڑی سیاسی جماعتوں کو زوال آنے کا امکان ہے اور اس کی جگہ بالکل نئی قیادت سامنے آئے گی۔ 1985ء کے الیکشن کے بعد سے جو غیر جماعتی گروہ آج تک برسر اقتدار ہے اس نے سیاست کو خراب کر دیا ہے۔ کرپشن کو فروغ بھی اسی گروہ نے زیادہ دیا ہے۔ کاش اس وقت امریکہ نے ضیاء الحق اور غیر جماعتی انتخابات کی حمایت نہ کی ہوتی ۔میری تجویز ہو گی کہ آنے والے دنوں میں اگر غیر جماعتی انتخابات کی بات ہو تو امریکہ ضرور اس کی مخالفت کرے۔
8۔ (کرنا کیاچاہیے؟) امریکہ کو زور ڈالنا چاہیے کہ پاکستان میں سیاسی اور جمہوری نظام برقرار رہے‘ سفارتی اور سیاسی چینل سے یہ پیغام سب سٹیک ہولڈرز کو پہنچائیں ۔دوسری طرف نواز حکومت کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ فوری الیکشن پر آمادہ ہوں۔
(نوٹ: یہ فرضی مراسلہ ہے اگر اس میں حقائق سے کوئی مشابہت بھی نظر آئے تو نظرانداز کر دیجئے گا)

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں