محترمہ یا میڈم؟

یہ مکالمہ ہے تو محترمہ اور میڈم کے درمیان ‘مگر اسے مفادِ عامہ کے تحت شائع کیاجا رہا ہے...
محترمہ: میں ریاست کی بیٹی ہوں۔ میرے ذمے ریاست نے جو کام لگایا تھا وہ میں نے 60 دنوں میں 10جلدوں کی شکل میں پورا کر دیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ دن رات محنت کر کے میری ٹیم نے یہ قومی فریضہ سرانجام دیا ہے۔ 
میڈم: میں قوم کی بیٹی ہوں۔ آپ کا کام نفرت اور تعصب سے بھرا ہوا ہے۔ آپ نے یہ کام 60دنوں میں نہیں کیا‘بلکہ اصل میںبرسوں کا کیا ہوا کام آپ کے حوالے کیا گیا ہے اور آپ نے اس پر صرف مہر لگائی ہے۔
محترمہ:میرا ہر ہر افسر اپنے اپنے شعبے کا ماہر تھا‘ دلیر تھا اور پھر ہر ایک نے جہاں جہاں سراغ ملا وہاں سے ثبوتوں کے انبار اکٹھے کر دئیے۔ آپ کی چوری ظاہر ہو چکی بلکہ ثابت ہو چکی۔
میڈم: یہ سب جھوٹ ہے۔ کرپشن کہاں کی ہے؟ اس کا ثبوت لائیں۔ کیا ہم نے کسی حکومتی ٹھیکے میں پیسے لئے ہیں یا کہیں سے کمشن لیا ہے۔ 4ہزار صفحوں میں تو ایسا ایک بھی ثبوت نہیں۔ بے ہنگم کاغذات کا ایک پلندہ ہے جو ہمارے بزنس کی کہانی بیان کرتا ہے مگر جان بوجھ کر اسے کرپشن کا نام دیا جا رہا ہے۔ جب پیسے پاکستان سے جانا ہی ثابت نہیں ہوئے تو کرپشن کیسے ہوئی؟
محترمہ: میوچل لیگل اسٹنس(MLA) کے تحت غیر ملکی حکومتوں نے سرکاری طورپر تصدیق کی ہے کہ آپ نے جھوٹ بولے‘ مدعا علیہ نمبر1یعنی میاں نواز شریف نے دوبئی سے اقامہ لیا حالانکہ بطورسابق وزیراعظم ان کے پاس ریڈ پاسپورٹ تھا۔ FZE آف شور کمپنی سے 10ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ کا معاہدہ کیا۔ اس سب کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔
میڈم: یہ سب جھوٹ ہے۔ کابینہ کے کہنے پر وزیراعظم نے دوبئی کے حکمرانوں سے رابطہ کیا ہے۔ جلد ہی دستاویزات پر ٹھپے لگوانے کی کہانی بھی کھل جائے گی۔ باقی اس میں فراڈ یا کرپشن کی کیا بات ہے۔ ہمارے پیسے اور ہمارے ہی اکائونٹ ہم جانیں اور ہمارا کام یہ کوئی آپ کے پیسے تو نہیں تھے؟ اقامہ اس لئے بنوایا کہ بار بار ویزے کی ضرورت نہ پڑے اور FZE سے تنخواہ کبھی لی ہی نہیں۔ صرف ایک کاغذ پر یہ تحریر موجود ہے جو اقامہ لینے کیلئے ضروری تھا۔ آپ ہمیں سادگی اور بھولپن کی سزا ضرور دے لیں‘ اسے جرم نہ کہیں۔اگر ہم عیار ہوتے تو کیا یہ بھونڈاطریقِ کار اپناتے۔
محترمہ: دیکھیں ہم نے تو قانون کو سامنے رکھنا تھا۔ مدعا علیہ نمبر1 نے قوانین کی خلاف ورزیاں کیں‘ منی لانڈرنگ کی۔ گلف سٹیل کی فروخت کو عمرو عیار کی زنبیل بنا کر پیش کیا جس میں نقصان کے باوجود ملینز آف ڈالرز نکلتے رہے۔ پھر الیکشن کمشن میں 2013ء میں جو اثاثے ظاہر کیے گئے ان میں FZE کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔
میڈم: آپ تو بالکل جاہل ہیں۔ کیا میاں منشاء‘ دائود رزاق یا میاں نواز شریف جیسے بڑے صنعتکار اپنے اثاثوںکے فارم خود بھرتے ہیں؟ کیا وہ انکم ٹیکس کا خود تخمینہ لگاتے ہیں؟ غیر ملکی فرموں اور آف شور کمپنیوں کا وہ خود حساب رکھتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا محترمہ۔ اس کے لئے اکائونٹینٹ‘ لاء فرم اور ٹیکس فرم سے رابطے ہوتے ہیں۔ وکلاء اور اکائونٹینٹ ہی یہ سارا کام کرتے ہیں۔ بڑے صنعتکار تو صرف اس جگہ دستخط کر دیتے ہیں جہاں وکلاء نشاندہی کرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتی ہیںکہ ہمارے مشیر نالائق تھے باقی ہم پر کوئی ذاتی الزام نہیں۔ہمیں پھانسی لگانا ہے تو شیکسپئر کے ڈرامہ جولیس سیزر کے کردار سینا کی طرح بری شاعری پر پھانسی لگائیں‘ ہمیں مجرم نہ کہیں۔
محترمہ: آپ لوگوں نے تو فراڈ کی حد کردی۔ دستاویز پر پچھلی تاریخوں سے وہ فونٹ کلبری تحریر کر دیا جو اس وقت تک ایجاد بھی نہیں ہوا تھا۔ واصف علی واصف نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ''بادشاہ کا جرم‘ جرموں کا بادشاہ ہوتا ہے‘‘۔
میڈم: ہمارا جرم کرپشن نہیں کچھ اور ہے۔ جو نام نہاد کرپشن ہمارے ذمے لگائی جا رہی ہے اس کے بعد تو دو دفعہ میاں صاحب وزیراعظم بنے تھے۔ اس وقت کیوں نہ یہ معاملہ اٹھایا؟ اصل لڑائی تو سویلین بالادستی کی ہے اور آپ کے اندر بیٹھے کچھ لوگ ہمیں ہر صورت نیچا دکھانا چاہتے تھے۔ آپ کو بنی بنائی دستاویزات دی گئیں۔ آپ نے ظلم عظیم کیا ہے‘ جس پر آپ کو خدا خود سزا دے گا۔
محترمہ: ہم نے جو کیا ہے قانون اور انصاف کے مطابق کیا ہے۔ ہم پر بہت دبائو تھا۔ ہمارے خاندانوں کو دھمکیاں مل رہی تھیں مگر ہم نے وائٹ کالر ختم کرنے کا قومی فریضہ سرانجام دے دیا ہے۔ اس کام پر ہمیں انعام بھی خدا ہی کی طرف سے ملے گا۔ یہ فانی دنیا ہمیں اس بہادری اور محنت پرکیا دے سکتی ہے؟
میڈم: صاف صاف بتائو کیا تمہیں حساس اداروں نے مدد نہیں دی؟ کیا تمہاری سکیورٹی انہوںنے ادانہیں کی؟ کیا بہت سی خفیہ دستاویزات آپ کو خفیہ ہاتھوں سے نہیں پہنچیں؟ ہمیں علم ہے کہ غیر ملکی حکومتوں نے جے آئی ٹی کے کہنے پر نہیں کسی اور کے کہنے پر شریف خاندان کی دستاویزات نکال کر دی ہیں اور ہمارے بیانات کی تردید کی ہے۔
محترمہ:آپ کو تو آج کل تازہ ہوا بھی سازش ہی لگتی ہے۔ کیا ریاست‘ عدالت عظمیٰ کے کہنے پر میری مدد نہ کرتی؟ حساس اداروں اور تحقیق کاروں کے پاس جو مواّدپہلے سے موجود تھا وہ ہمیں کیوں نہ دیتے؟
ہر ریاستی ادارہ عدالت عظمیٰ کے ماتحت ہے۔ اسے اس کے احکامات پر عمل کرنا ہی پڑتا ہے۔ آپ بھی تو عدالت ہی کے حکم پر جے آئی ٹی میں پیش ہوتے رہے۔ باقی رہی سکیورٹی کی بات تو اس کا فیصلہ ہم نے خود کیا تھا کہ اپنی سکیورٹی حساس ادارے کے حوالے کریں۔ یہ ایک قومی ادارہ ہے لیکن اس کی ساکھ بین الاقوامی ہے۔ باقی رہی باہر سے آنے والی دستاویزات کی بات تو‘ اس میں ریاستی مدد سے ہی ایسا ہوا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔آخر سپریم کورٹ کا حکم تھا!
میڈم: آپ نے تو خود ہی ہمارے ہر شبہ کی تصدیق کر دی۔ جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ہم قانون کی بالادستی کو مانتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے ہم نے جے آئی ٹی کے دو ممبران کی شمولیت پر احتجاج کیا تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سقراط کو جیل سے بھگانے کی پیشکش ہوئی تو اس نے کہا تھا ''میں قوانین کونہیں توڑ سکتا ‘چاہے اس کے بدلے میں زہر کا پیالہ ہی کیوں نہ پینا پڑے‘‘
محترمہ: یہ فیصلہ تو تاریخ کرے گی کہ آپ سچی ہیںیا میں؟ مگر سقراط پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات نہیں تھے۔ سقراط پر تو نوجوانوں کے ذہن خراب کرنے اور لادینیت پھیلانے کا الزام تھا۔
میڈم: تاریخ میں الزام تو مختلف لگتے رہے ہیں۔ بھٹو پر قتل کا الزام‘ سقراط پر لادینیت کا الزام اور کافکا کے مقدمے میں نامعلوم وجوہات کا الزام۔ لیکن اصل بات اور اصل الزام چھپایا جاتا ہے اور وہ الزام ہوتا ہے ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کا الزام۔ آپ اس جبر کو جاری رکھنے میں شریک ملزم ہیں‘ تاریخ آپ کو اس حوالے سے یاد رکھے گی‘ اور بروٹس کا نام دے گی۔
محترمہ: مافیا کو پکڑنا اور وہ بھی سسلی میں‘ پھر اس کے خلاف جہاد کرنا‘ اور تہہ در تہہ چھپے ہوئے وائٹ کالرکرائم کو سامنے لانا دراصل ایک تاریخی جہاد ہے جو ہم نے سرانجام دیا ہے۔ دنیا میں جو بھی ''الکپون ‘‘پکڑا جاتا ہے وہ یہی دعویٰ کرتا ہے کہ میں تو رابن ہڈ ہوں۔ ظالم اور جابر ریاست مجھے عوامی فلاح کے منصوبوں سے روکنا چاہتی ہے۔ آپ کہاں کے سقراط اور کہاں کے بھٹو؟‘ آپ کو تو دولت سے محبت ہے اسی وجہ سے سیاست اور عزت سب کچھ قربان کر رہے ہیں۔
میڈم: آپ میاں صاحب کو جانتی ہی نہیں یا پھر دشمنوں والی عینک پہن کر انہیں دیکھ رہی ہیں وہ تو لاکھوں خیرات کرتے ہیں‘ اپنے نئے کپڑے نوکروں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ دیکھیں ہمارے اکائونٹینٹ کی غلطیاں کرپشن نہیں ہیں۔ ہمارے فارم بھرنے والے کی غلطی‘ انسانی بھول چوک ہے۔ نواز شریف ان باتوں سے بہت مبرّا ہیں‘ وہ تو ملک و قوم کی ترقی کے خواب دیکھتے ہیں جبکہ آپ ان کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ 
محترمہ: آج عدالت عظمیٰ میں پہلی پیشی ہے‘ وہاں دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو جائے گا۔
میڈم: حتمی فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں