زمانہ واقعی بڑا سنگدل ہے اور آج کے مورّخ بہت ہی بے پروا۔ اگلے روز بنی گالہ میں حالیہ تاریخ کا اتنا بڑا واقعہ ہوا مگر اسے جتنی توجہ ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ یہ ٹی وی والے اور اخبار والے‘ نہ تاریخ سے واقف ہیں اور نہ ہی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ آج رونما ہونے والے واقعات آنے والے کل میں تاریخ کا سنہری باب بنیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی تحریکِ انصاف میں شمولیت اور عمران خان کی طرف سے چادر اوڑھائے جانے کے تاریخی اور اہم ترین سیاسی واقعہ کو اہمیت اس لیے نہیں ملی کہ ان کے مخالف سرگرم ہو گئے تھے۔ ان مخالفوں کو جونہی علم ہوا کہ تاریخ کا ایک بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے تو انہوں نے کہیں کیبل بند کروا دی کہیں چینل تبدیل کروا دیے اور کہیں ان چیزوں پر بس نہ چلا تو مخالفانہ تبصرے چلا دیے۔ یہ سب کچھ ایک بین الاقوامی سازش کا حصّہ ہے جس کا مقصد ملک کی اہم ترین لیڈر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بدنام کرنا اور تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے سے روکنا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ یہ سازش امریکہ میں تیار ہوئی‘ اسرائیل نے اس میں مدد کی اور بھارت کے ذریعے سے صحافیوں اور اینکروں کو بقول جنرل پاشا ''وھسکی اور ڈالروں‘‘ کے تحفے دے کر اس سازش میں شامل کیا گیا۔ البتہ چند ''محب وطن‘‘ لوگوں نے اس بین الاقوامی سازش کو اس وقت بے نقاب کر دیا جب تمام تر رکاوٹوں کے باوجود چند چینلز پر سال کی اس اہم ترین ملاقات کی فوٹیج چل گئی۔ اصولاً تو یہ خبر کم از کم چار دن ہیڈ لائنز میں چلنی چاہیے تھی‘ مگر ہندوئوں اور یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث یہ فوٹیج چند گھنٹے بعد ہی ہٹا لی گئی اور اس کی جگہ جے آئی ٹی میں انتہائی غیر اہم شخص حسین نواز شریف کی تفتیش کو خبروں میں شامل کر لیا گیا۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ پیوٹن یا ٹرمپ کی خبر ہوتی تو بے شک وہ ڈاکٹر فردوس عاشق کی خبر کی جگہ چلا دی جاتی‘ مگر حسین نواز شریف کی خبر۔ چچ چچ۔ اسی لئے تو یہ بین الاقوامی سازش کی کارفرمائی لگتی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ میں عہدِ فردوس میں جی رہا ہوں۔ مجھے ان کی سیاسی جدوجہد‘ بہادری اور انتھک محنت کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ یہ وہی نام نامی ہیں جنہوں نے اپنی بھری جوانی میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں نواز شریف کا جلسہ الٹ دیا تھا۔ چند سبک خرام میڈیکل طالبات کے ساتھ ان کی گروپنگ اس قدر مضبوط تھی کہ وہ بعد میں ایک این جی او میں بدل گئی۔ ڈاکٹر فردوس یوتھ کی لیڈر بھی بنیں بیرون ملک‘ بالخصوص امریکہ کا دورہ بھی کیا۔ جونہی انہیں بین الاقوامی مقام اور عہدہ ملا‘ پاکستان میں ان کے لیے دروازے کھلتے گئے۔ ڈاکٹر کے والد عاشق مرحوم پیپلز پارٹی میں تھے مگر جب ڈاکٹر صاحبہ کا وقت آیا تو قاف لیگ کی فلم رش لے رہی تھی۔ عظیم رہنما ڈاکٹر فرودس کو مجبوراً اس ناپسندیدہ جماعت کی قطار میں لگنا پڑا۔ فضول فضول قسم کی عورتوں نے کہنیاں تو بہت ماریں مگر ڈاکٹر فردوس جس کام کا عزم کر لیں وہ کرنے سے انہیں کوئی روک نہیں سکتا بلکہ اس دنیا میں کوئی ایسا مائی کا لال پیدا ہی نہیں ہوا جو ان کے ارادوں میں مزاحم ہو سکے‘ چاہے وہ ان کے بھائی ہوں یا ان کے مخالف‘ وہ کسی کو بھی چِت کر سکتی ہیں۔
قاف لیگ کا ٹکٹ دلوانے میں جہاں بڑے چوہدری صاحب‘ گوجرانوالہ کے اس وقت کے عسکری خان اور کئی صحافی خانوں کا بھی کردار تھا۔ ڈاکٹر فردوس قاف کی رکن قومی اسمبلی بنیں تو ان پر ایک نئی دنیا آشکار ہوئی۔ وہ پہلے تو آہستہ آہستہ چلیں‘ پھر اپنے آبائی حلقے سے منتخب ہونے والے سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین پر گولہ باری کا آغاز کر دیا۔ نشانہ ٹھیک تھا اور ہدف کمزور اس لئے ڈاکٹر فردوس نے پیش قدمی کی۔ قاف لیگ میں عورتوں کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئیں تھیں مگر اپنے آبائی حلقے میں دن رات کام کرکے براہ راست الیکشن کی تیاری کی۔ قاف کا ٹکٹ مشکل تھا کہ اس حلقے سے امیدوار سپیکر چوہدری امیر حسین تھے اس لئے اب مجبوراً دوبارہ اپنے مرحوم باپ کی جماعت کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ محترمہ زندہ تھیں۔ وہ بھی ٹیلنٹ پہچان گئیں اور یوں قاف کی رکن اسمبلی پیپلز پارٹی واصل ہوئیں۔ گیلانی اور زرداری کی حکومت چلی تو انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاس کتنا بڑا ہیرا ہے‘ بس انہوں نے انہیں وفاقی وزیر اطلاعات بنا دیا اور یوں اس دبنگ خاتون کو کچھ نہ کچھ حق تو ملا مگر ظاہر ہے یہ بھی ان کی صلاحیتوں سے بہت کم ہے۔ اسی دوران پیپلز پارٹی غروب ہونا اور عمران خان طلوع ہونا شروع ہو گئے۔ اب عظیم رہنما‘ ڈاکٹر فردوس کی پھر مجبوری بن گئی کہ وہ اپنے حلقے کے عوام کے مسائل کو دیکھیں یا پیپلز پارٹی جیسی ڈوبتی ہوئی جماعت کو۔ انہوں نے پھر مجبوراً فیصلہ کیا کہ عوام کا حق ان کی ذاتی وفاداری سے زیادہ ہے‘ بس پھر تحریک انصاف سے رابطے شروع ہوئے‘ سیالکوٹ کے ڈار برادران ڈاکٹر صاحبہ کے عہدے‘ مقام اور رتبے سے ناواقف ہیں۔ انہوں نے ڈاروں کو شرف باریابی کیا بخشا‘ وہ ناسمجھ سمجھے کہ آج ہی ڈاکٹر کو تحریک انصاف میں شامل کر لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے کروڑوں مداحین کو اس سازش کا علم ہوا تو وہ بپھر گئے۔. احتجاجاً وہ سڑکوں پر نکلنا چاہتے تھے مگر ڈاکٹر صاحبہ نے انہیں پرامن رہنے کا حکم دیا۔ عمران خان کو ان کے عقل مند ساتھی جہانگیر ترین نے ڈاکٹر فردوس عاشق کا مقام و مرتبہ سمجھایا تو وہ رضاکارانہ طور پر خود اپنے ہاتھوں سے انہیں تحریک انصاف میں شامل کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آج کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ رونما ہو گیا اور یہ فضول میڈیا اس کی اہمیت نہ سمجھ سکا۔ چونکہ کاتبِ تقدیر یہ واقعہ سب کو یاد دلانا چاہتا تھا اس لئے یہ اہم ترین فریضہ‘ والد کی طرف سے ودیعت پروفیسرانہ دانش اور برادری کی طرف سے حاصل ککّے زئی بے دھڑک پن کے حامل عبدالعلیم خان کے ناتواںکندھوں پر آ پڑا اور انہوں نے اپنی تاریخی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اخبارات میں عمران خان کی طرف سے ڈاکٹر فردوس عاشق کو چادر اوڑھانے کی تصویر کو جس طرح اشتہارات میں نمایاں طور پر شائع کروا دیا‘ اس سے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے کروڑوں پرستاروں کی کچھ اشک شوئی ہوئی ہے۔ فردوس عاشق کو تحریک انصاف کے پرچم کی چادر پہنائے جانے والی تصویر سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ اب اقتدار تحریک انصاف کو ملے گا۔ اس موقع پر ڈاکٹر فردوس عاشق نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے وزارت دی تو الیکشن ہار کر قرضہ اتار دیا بلکہ چار سال تک گھر بیٹھ کر کفارہ ادا کیا۔ ملک کی اس عظیم لیڈر نے یہ بھی کہا ہے کہ اب وہ بیٹنگ یا بائولنگ نہیں بلکہ بائونسر مارا کریں گی۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ملک و ملّت پر بے شمار احسانات ہیں۔ وہ اتنی بڑی لیڈر ہونے کے باوجود ٹکّے ٹکّے کی پارٹیوں کو عزت بخشتی رہیں‘ نالائق لیڈروں کی قیادت قبول کی‘ اب مزہ آئے گا۔ اُدھر سے عمران کی تباہ کن بائولنگ ہو گی اور دوسرے اینڈ سے یہ بائونسر ماریں گی‘ نون اور پیپلز پارٹی دونوں کے بلّے بازوں کو اڑا کر رکھ دیں گی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق کا قوم پر یہ بھی قرض ہے کہ انہوں نے دخترِ سیالکوٹ کی حیثیت سے جہاں حلقے کا بوجھ اٹھایا وہاں وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھال کر احسان عظیم بھی کیا۔ مجھے یقین ہے کہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن ڈاکٹر فردوس عاشق کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے پانسہ پلٹ چکا ہے۔ اب بس ایک جست کی ضرورت ہے اور اقتدار سامنے ہو گا...!