اُتھّل پتھّل کا وقت پھر آگیا؟

حالات کے بدلتے تیور سے محسوس ہو رہا ہے کہ حد سے بڑھتی ہوئی سیاسی حدّت پھر سے اُتھّل پتھّل کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس حوالے سے دو مفروضے زیر بحث ہیں۔ ایک تو یہ کہ دبائو میں ڈال کر وزیراعظم سے ڈیل کرلی جائے گی کیونکہ بین الاقوامی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ حکومت کی تبدیلی اور پھر فوری الیکشن کا ڈول ڈالا جائے جبکہ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ سیاسی ٹمپریچر اس قدر بڑھایا جا چکا ہے کہ اب اگر وزیراعظم کو ریلیف ملا تو وہ طبقات جن کی نفرتیں ابل رہی ہیں‘ وہ اپنے اداروں سے ناراض ہو جائیں گے۔
اس حوالے سے جو سازشی کہانی گردش میں ہے، اس میں کہا جا رہا ہے کہ 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کروانے کی جو غلطی کی گئی تھی اس نے قومی سیاسی زندگی کو تباہ کردیا اور اسی کے نتیجے میں آج بھی قانون ساز ادارے ایک بڑے بلدیاتی ادارے کا روپ دھار چکے ہیں۔ اس سازشی کہانی کے مطابق نئی اُتھّل پتھّل میں 1985ء کے سارے غیرجماعتی سیاسی مفاداتی گروہوں سے نجات حاصل کی جائے گی۔ اپوزیشن کے ایک اہم رہنما نے انکشاف کیا کہ آئندہ الیکشن سے پہلے 18 ویں ترمیم کا خاتمہ‘ الیکشن کمشن کی نئے سرے سے قانون سازی اور شریف خاندان کا احتساب ہوگا۔ اس ذریعہ نے بتایا کہ اگر نوازشریف جے آئی ٹی کی زد میں آئے تو پھر دوبارہ انہیں کون اقتدار میں آنے دے گا۔ 1985ء کے گروہ کے ساتھ ہی ان کے لیڈر نوازشریف بھی جائیں گے۔
اس اپوزیشن رہنما نے فوری الیکشن کی آپشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ق لیگ‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد بہت جلد بننے والا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے حوالے سے اپوزیشن اور کئی اداروں کو بہت سے تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سلیبس کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کرکے قومی سوچ کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش بننے کی بنیادی وجہ مشرقی پاکستان میں سلیبس پر نظر نہ رکھنا تھا۔ بنگلہ دیش میں
آزادی کی تحریک کی بنیاد وہ باغیانہ سلیبس تھا جو وہاں کے طالب علموں کو پڑھایا جاتا تھا۔ اب بھی یہی خدشہ ہے کہ ہر صوبہ اپنی صوبائی ترجیحات کے مطابق سلیبس ترتیب دے گا اور یوں قومی ترجیحات پس پشت رہ جائیں گی۔ اسی طرح میڈیسن اور ہائر ایجوکیشن کو بھی صوبوں کے حوالے کرنے پر بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس رہنما کا خیال تھا کہ 18 ویں ترمیم کی موجودگی میں نیا الیکشن نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے اب ساری اپوزیشن کو شدید تحفظات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں چار صوبائی اراکین نے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔ فخرالدین جی ابراہیم نے کئی لوگوں سے گلہ کیا کہ یہ اراکین اکثریتی فیصلہ کرکے مجھ سے دستخط کروا لیتے ہیں۔ ان حالات کی موجودگی میں اپوزیشن کا اصرار ہوگا کہ الیکشن کمیشن کے طریق کار اور مینڈیٹ میں تبدیلی کی جائے تاکہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مرضی کے ممبران الیکشن کمیشن پر اجارہ داری قائم نہ رکھ سکیں۔
شیخ رشید احمد اور ان کے بہت سے ہم خیال سرعام یہ کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ یہ چاہتی ہے کہ اسے عسکری خان نکالے مگر تمام تر غصے اور تحفظات کے باوجود عسکری خان ایسا نہیں کرے گا‘ لیکن اگر عدالت خان نے کوئی فیصلہ کرلیا تو عسکری خان عدالتی فیصلے کے سامنے سر جھکا دے گا اور یوں فیصلے پر عمل درآمد ہو جائے گا۔ اُتھّل پتھّل کی سازشی کہانی پر یقین رکھنے والوں کے خیال میں جو بھی ن لیگ کا متبادل امیدوار ہوگا‘ وہ ریاستی اثرورسوخ میں ہوگا اور وہ وہی کرنے پر مجبور ہوگا جو اسے کرنے کو کہا جائے گا۔ اس کہانی کے حامی یہ تھیوری ماننے کو تیار نہیں کہ بالآخر کوئی ڈیل ہوگی کیونکہ ان کے خیال میں جذبات بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ نفرت‘ غصہ اور ناراضی نے طبیعتوں پر غلبہ پا لیا ہے اور پھر سے کسی ڈیل کی صورت میں یہ جذبات بپھر بھی سکتے ہیں۔
سازشی کہانیوں سے ہٹ کر غیرجذباتی انداز میں تجزیہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال میں اندرونی اُتھّل پتھّل سے حالات پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہماری کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ امریکی افواج وہاں بیٹھی ہیں اور وہ جلد از جلد واپس امریکہ جانا چاہتی ہیں مگر افغانستان کے بگڑتے حالات انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ دوسری طرف ایران میں حالیہ بم دھماکوں نے صورتحال کو اور گمبھیر بنا دیا ہے۔ قطر اور سعودی عرب کی باہمی آویزش نے پاکستان کے لئے مشکل صورتحال پیدا کردی ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک پاکستان کے دوست ہیں۔ بھارت سے ملحقہ ہماری سرحدیں آج کل ویسے ہی گرم ہیں۔ صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکہ ابھی تک پاکستان کے بارے میں کوئی حتمی پالیسی نہیں بنا سکا‘ اسی کنفیوژن کے دوران دنیا کا سب سے بڑاغیر ایٹمی بم پاکستان کی سرحد سے چند میل دور افغانستان میں پھینکا گیا ...!! کیا یہ پاکستان کے لئے وارننگ تھی یا پھر اس کا ہدف ہی وہاں تھا جہاں اسے پھینکا گیا تھا۔ بگڑتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال میں اندرونی اُتھّل پتھّل کرنا فائدہ مند ہوگا یا نقصان دہ؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے جوڈیشل اکیڈمی کی سکیورٹی اداروں نے اپنے ذمے لی ہے۔ اس لئے امکان یہی ہے کہ تبدیلی آنے والی ہے جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آخر میں قومی پالیسی کے حوالے سے دبائو کے بعد ڈیل کا امکان زیادہ نظر آ رہا ہے۔
اگر نوازشریف کے سامنے موجود آپشنز کا حساب لگایا جائے تو وہ بھی بڑی دلچسپ ہیں۔ فرض کریں وہ فوری انتخابات چاہیں تو ان کے بجلی اور باقی پراجیکٹس مکمل نہیں اور اگر پراجیکٹس کے مکمل ہونے کا انتظار کریں تو اخلاقی گھائو اتنا گہرا نہ لگ چکا ہو کہ سیاسی فائدے کی بجائے نقصان میں رہیں۔ سیاسی مبصرین کا یہ خیال بھی ہے کہ نوازشریف وقت سے پہلے رخصت ہوئے تو پھر پی ٹی آئی اور عمران خان کو اقتدار میں آنے سے روکنا ناممکن ہو جائے گا کیونکہ سیاسی خلاء اتنا بڑا ہوگا کہ اسے عمران خان کے سوا کوئی پُر نہیں کر سکے گا۔ عمران خان بھی یہ طے کر چکے ہیں کہ تنظیم سے بالاتر ہو کر انتخابی گھوڑوں پر ہی انحصار کریں گے اور یوں الیکشن جیتیں گے۔ سازشی کہانیوں‘ مفروضوں‘ آپشنز اور تجزیوں سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو ایک بار پھر جمہوری نظام میں اُتھّل پتھّل پاکستان کو سیدھی پٹڑی سے اتار کر ایک نئے اندھیرے راستے میں لے جائے گی جس سے نکلنے کا راستہ کسی کو معلوم تک نہیں ہوگا۔ ملک کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اکٹھے بیٹھ کر آئندہ الیکشن کا شیڈول فائنل کریں۔ حکومت اپوزیشن کی مرضی اور اطمینان کے مطابق انتخابی اصلاحات کرے‘ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر امکان یہی ہے کہ گیند سیاست کے میدان سے نکل کر غیرسیاسی گرائونڈ میں چلی جائے گا‘ ریاست سے جمہوریت کا خول اترے گا تو کئی بین الاقوامی مہم جو اس طرف متوجہ ہوں گے۔ امید یہی کرنی چاہئے کہ فوج اور اہل سیاست ہوش سے کام لیں گے ،جوش سے نہیں۔
حکومت اپوزیشن کی مرضی اور اطمینان کے مطابق انتخابی اصلاحات کرے‘ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر امکان یہی ہے کہ گیند سیاست کے میدان سے نکل کر غیرسیاسی گرائونڈ میں چلی جائے گا‘ ریاست سے جمہوریت کا خول اترے گا تو کئی بین الاقوامی مہم جو اس طرف متوجہ ہوں گے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں