کیا پاکستان حامد کرزئی کی خواہشات کی تکمیل کر سکتا ہے؟

امریکہ اور ا س کے اتحادی 2014ء میں افغانستان سے جا رہے ہیںاور افغانستان کے جن علاقوں کو تحفظ دینے کا امریکہ ارادہ رکھتا ہے وہ پاکستانی سرحد سے کافی دور ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسی میں اس بات کا احساس اور ادراک شامل ہونا چاہیے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی رخصتی کے بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ آج محترم نذیر ناجی صاحب نے اپنے کالم میں بہت سی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور بہت سے معاملات کا پاکستان کے پالیسی سازوں کو فہم دینے کی کوشش کی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے انتخابات میں اپنی کامیابی کے بعد بھارت اور افغانستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ ایسا وقت ہے کہ جب نہ حامد کرزئی اور نہ ہی من موہن سنگھ مستقبل کی کوئی پالیسی طے کر سکتے ہیں۔ حامد کرزئی خود اپریل میں رخصت ہو جائیں گے اور فی الوقت ان کا مستقبل افغانستان کے حوالے سے مایوس کن دکھائی دیتا ہے۔ اس بات کی تصدیق ان کے اپنے رویے سے بھی ہوتی ہے کہ وہ کبھی امریکہ کے خلاف اور کبھی اس کے حق میں بات کرتے ہیںاور کبھی پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں اور کبھی پاکستان سے امن کے لیے درخواست کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران دیے گئے ان کے بیانات سے تو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ پاکستان کو خدانخواستہ نیست و نابود ہی کر دیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے افغان طالبان کو بھی پاکستان پر حملے کی دعوت دے ڈالی۔ لیکن انہوں نے ماضی کی طرح ایک بار پھر اپنا رویہ تبدیل کیا اور میاں نواز شریف کے برسر اقتدار آنے کے بعد میاں نواز شریف کی تعریف کی اور پاک فوج کو خطرناک قرار دیا۔ حالانکہ ہر ذی شعور انسان یہ بات سمجھتا ہے کہ پاک فوج اور حکومت افغانستان کے معاملے میں دو الگ الگ رائے نہیں رکھ سکتیں۔ ابھی تو ابتدائی وقت ہے‘ میاں نواز شریف کی حکومت کو افغان پالیسی اور افغان معاملات سمجھنے میں کافی وقت درکار ہو گا۔ افغان صدر حامد کرزئی کے سخت رویے کو تبدیل کرنے کے لیے سرتاج عزیز افغانستان گئے اور اب حامد کرزئی پاکستان آئے لیکن اس سوال کا جواب نہ مل سکا کہ پاکستان حامد کرزئی کی کیا مدد کر سکتا ہے؟ جہاں تک افغان طالبان کی بات ہے تو وہ حامد کرزئی کی اس دورے پر تبصرہ کرنا بھی وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کا مؤقف بڑا واضح ہے کہ ہمارا پاکستان سے اور پاکستانی عوام سے محبت کا رشتہ ضرور ہے لیکن اپنی پالیسیاں بنانے میں ہم آزاد ہیں اور یہ بات پاکستان کی وزارت خارجہ اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی معلوم ہے کہ بہت سارے مواقع پر افغان طالبان نے پاکستان کی بات کو قبول نہیں کیا۔ یہ بات بہر صورت ذہن میں رہنی چاہیے کہ افغان صدر حامد کرزئی کا دورہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کچھ غلط فہمیاں بھی پیدا کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دور ے کے بعد بڑے بڑے دعوے نہیں کیے گئے۔ پاکستان نے اپنی بھرپور جدوجہد کے ساتھ طالبان کو قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کیا تھا۔ اس سے قبل صورتحال یکسر مختلف تھی اور قطر آفس پاکستان کے خلاف کرزئی ، امریکہ اور بھارت کی آشیر باد سے قائم کیا گیا تھا۔ لیکن اس دفتر کے قیام کے بعد کوئی خاطر خواہ نتائج نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کو مداخلت کرنا پڑی اور خود چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ذاتی کوششوں سے قطر آفس کو دوبارہ کھولا گیا جو کہ صرف تین دن بعد حامد کرزئی کے رویے کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ پاکستان یا کوئی اور ملک طالبان سے یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنا نام اور اپنا پرچم چھوڑ دیں۔ افغان طالبان بڑا سادہ سا سوال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنا پرچم چھوڑنا ہوتا اور اپنا نام ختم کرنا ہوتا تو یہ ہم تیرہ سال پہلے ہی کر لیتے‘ ہمیں اتنی لمبی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ذرائع تو یہ بھی تباتے ہیں کہ افغان طالبان کی شوریٰ نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ اگر 2014ء کے بعد بھی ان کو مسلح جدوجہد جاری رکھنی پڑی تو وہ جاری رکھیں گے لیکن اپنے منشور اور دستور پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔ یہاں پر یہ بھی واضح کر دوں کہ افغان طالبان افغان گروپوں کے ساتھ تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور اس معاملے میں پیش رفت بھی ہو رہی ہے یہاں تک کہ شمالی اتحاد کے بعض ذمہ داروں کے ساتھ بھی افغان طالبان کے روابط بڑھ رہے ہیں‘ لیکن کیا پاکستان افغان طالبان کو مجبو رکر سکتا ہے کہ وہ حامد کرزئی سے بھی ضرور مذاکرات کریں یا مستقبل کے افغانستان میں حامد کرزئی کو کوئی کردار ضرور دیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہو گا۔ قطر آفس کے بند ہو جانے کے بعد مذاکرات کی ایک کوشش سعودی عرب میں بھی کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا سعودی عرب ماضی کی طرح افغانستان کے مسئلے میں اپنا کر دار ادا کرنے کو تیار ہو گا؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح امریکہ کی طرف سے افغانستان کے اندر بھارت کی دخل اندازی کیا پاکستان کے لیے قابل قبول ہو گی؟ اس پر بھی غور کیا جانا ضروری ہے۔ کرزئی صاحب کا پاکستان آنا اور پاکستان کا ان کو خوش آمدید کہنا یہ کرزئی اور پاکستان کے درمیان تو مراسم بڑھا سکتا ہے لیکن اس کے مثبت اثرات افغان طالبان کے حوالے سے فی الوقت نظر نہیں آتے۔ باخبر ذرائع تو یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکی یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اگر افغان طالبان امارت اسلامیہ افغانستان کا نام باقی رکھتے ہیں تو وہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی بجائے قندھار ، جلال آباد ، کابل ، مزار شریف اور چند دیگر بڑے شہروں کے لیے دفاعی پالیسی بنائیں گے اور پاکستان سے متصل افغانستان کے علاقوں کو ملا عمر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔ ان حالات میں پاکستان میں کیا ہو گا اور کیا امارت اسلامیہ افغانستان صرف افغانستان تک محدود رہے گی یا پھراس کو پاکستان کے پشتون علاقوں میں بھی بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کا جواب ابھی ملنا باقی ہے۔کرزئی صاحب کے پاکستان آنے کو بطور پاکستانی شہری کے تو خوش آمدید کہا جا سکتا ہے لیکن ان کی خواہشات کی تکمیل میری رائے کے مطابق پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں