کیا انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہے ؟

10محرم الحرام کا دن تاریخ ِانسانیت میں بہت سارے حوالوں سے جانا جاتا ہے لیکن سانحہ کربلا میں سیدنا امام حسین ؓ اور ان کے خاندان کی قربانی تاریخ کے اوراق کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اسی لیے ہر انسان اس دن سیدنا امام حسین ؓکی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔ وطن عزیز پاکستان میں یکم محرم سے لے کر 10 محرم تک کے ایام کو انتہائی حساس قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ وہ فرقہ وارانہ سوچ ہے جو کمزور ہونے کی بجائے دن بدن تقویت پکڑ رہی ہے۔ اس سال بھی ماضی کی طرح حکومت نے 10 محرم کا دن بخیر و عافیت گزارنے کے لیے صوبہ پنجاب کی سطح تک بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم انتظامات کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء بھی حکومت کے ساتھ شامل حال تھے لیکن افسوس کہ 10 محرم الحرام کو راولپنڈی میں ایک ایسا سانحہ ہوا جس نے امن کی تمام کوششوں کو غیر موثر کر دیا۔ سانحہ راولپنڈی کیوں رونما ہوا ، اس کے اسباب اور محرکات کیا ہیں؟ اس بارے میں کوئی حتمی بات اس وقت تک نہیں کہی جا سکتی جب تک حکومت پنجاب کی طرف سے بنایا جانے والا عدالتی کمیشن کوئی فیصلہ نہ دے؛ تاہم ایک بات مسلمہ ہے کہ اس حساس مقام کے بارے میں صوبائی حکومت اور تمام حساس ادارے مقامی انتظامیہ کو آگاہ کر چکے تھے لیکن ایک چھوٹی سی کوتاہی نے اتنا بڑا حادثہ کروا دیا جس کے نتائج سے شاید پاکستانی قوم بہت عرصہ تک نہ نکل سکے۔آخر ایسا کیوں ہوتا ہے اور رواداری کی وہ فضا جس کے بارے میں سرکاری میٹنگوں اورذرائع ابلاغ پر بات کی جاتی ہے وہ پیدا نہیں ہوتی۔ جب ایک طالب علم کی حیثیت سے اس سارے عمل کو دیکھا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ دس سے پندرہ سال میں ہمارے ملک کے اندر متشددانہ سوچ کو بہت تیزی سے تقویت ملی ہے اور اس کے سدباب کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بڑی آسانی کے ساتھ اسے عالمی سازش کہہ دیا جاتا ہے لیکن اپنے گھر کی طرف نظر ڈالنا ہمیں قبول نہیں ہے اور یہی سبب ہے کہ دن بدن حالات خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے وقت تمام مکاتب فکر اور تمام مذاہب کے لوگ یکجا تھے اور اس کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا، یہ تصور کہ پاکستان میں ایک مذہب یا ایک مسلک کے لوگ رہیں گے اور باقیوں کو ہجرت کرنی پڑ جائے گی، قطعی درست نہیں ہے اور اس تصور کو پھیلانے اور اجاگر کرنے والے نہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں نہ پاکستان کی۔ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور اس کے قیام کا بنیادی تصور مدینہ منورہ کی طرز کی ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جو آج تک ممکن نہ ہو سکا۔ کوئی اس کا ذمہ دار آمریت کو ٹھہراتا ہے تو کوئی جمہوریت کو، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ گزشتہ تیس برسوں سے پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ سوچ کو اتنا مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ تصور ہی گم ہو گیا ہے کہ جس کے مطابق سب کو مل کر ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا تھا جس سے خلافت راشدہ کے دور کی یاد تازہ ہوتی۔ ایک طرف ایک طبقہ ہے جو پاکستان کو لادین ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف مذہب کے نام پر وہ قوتیں ہیں جو اس ریاست کو اپنے عقیدے، اپنے مسلک اور اپنے پرچم کے تابع دیکھنا چاہتی ہیں۔ ماضی میں علماء کو پارلیمنٹ اور دو صوبوں میں بھر پور نمائندگی ملی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دو صوبوں میں تو علماء کی مکمل حکومت تھی لیکن افسوس کہ وہ کوئی ایسا نظام ان صوبوں میں بھی نہ لا سکے کہ جس کو مثال بنا کر پورے ملک کے اندر مکمل اسلامی نظام لایا جا سکتا۔ ایک طرف تو یہ کیفیت ہے اور دوسری طرف حکمرانوں نے اپنی ذاتی مصلحتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنی سوچ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بھی ان قوتوں کی سرپرستی کی‘ جو اعتدال کی بجائے انتہاء پسندی پر یقین رکھتی تھیں اور پھر ان انتہاء پسند قوتوں کے اندر ایسے گروہ بنائے گئے جن کے شر سے آج سب پناہ مانگ رہے ہیں لیکن ریاست آج بھی ان کے سامنے سرنگوں نظر آتی ہے۔ 
حالیہ راولپنڈی کا واقعہ بھی اس بات کا واضح اظہار ہے کہ کس طرح اعتدال اور مفاہمت پسند قوتوں کو پیچھے دھکیل کر متشدد قوتوں کو آگے لایا گیا۔ دارالعلوم تعلیم القرآن جو شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کا مدرسہ ہے اور پاکستان میں چلنے والی ہر بڑی تحریک کا مرکز رہا ہے‘ تمام مکاتب فکر کے لیے انتہائی محترم ہے ۔ یہاں پر مولانا شاہ احمد نورانی، علامہ مظفر شمسی، علامہ علی غضنفر کراروی، علامہ احسان الٰہی ظہیر سمیت تمام بڑے اکابرین وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں اور ختم نبوت کی تحریک میں شیعہ سنی قائدین کا یہ مرکز رہا ہے۔ افسوس کہ بعض قوتیں اب بھی اس سانحہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی ہیں حالانکہ یہ انتظامیہ کی نااہلی اور ان قوتوں کا پیدا کردہ سانحہ ہے جو ایک سوچ اور فکر کے تحت پاکستان کو جہنم بنانا چاہتی ہیں اور اس بات کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ سانحہ تعلیم القرآن کی تمام مکاتبِ فکر اور تمام 
جماعتوں نے نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ ملزمان کو اور مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر اس عدالتی کمیشن میں تمام مکاتب فکر کی قیادت اور ان معاملات میں فہم و ادراک رکھنے والے لوگ پیش ہو کر اصل حقائق سامنے دلائیں اور اس کمیشن کی رپورٹ کو ماضی کی طرح چھپایا نہ جائے تو پھر ممکن ہے کہ ہم حقیقی صورتحال سے آگاہ ہو جائیں۔ ایک بات مسلمہ ہے کہ جب تک ریاست ان قوتوں کو نہیں روکے گی جو دوسرے مکتبہ فکر کے اکابر کے خلاف بد زبانی کرتے ہیں یا غلیظ تحریر لکھتے ہیں‘ اس وقت تک کوئی بھی کوشش مؤثر انداز میں کامیاب نہیں ہو سکتی اور موجودہ حالات میں یہ بات ممکن ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے جس میں تمام مکاتب فکر کے مقدسات کی توہین کرنا جرم قرار دیا جائے اور اس کی سزا متعین کی جائے۔ اصحاب ؓرسول، اہل بیت ؓ، خلفائے راشدین ؓ ، امہات المومنین ؓ اور آئمہ اطہار کی توہین کو واضح طور پر جرم قرار دیا جائے اور اسی طرح تبرہ اور تکفیر پر بھی مکمل پابندی لگائی جائے اور اگر کوئی باز نہیں آتا تو اسے سزا دی جائے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو۔ اگر ایسا کر لیا گیا تو مستقبل میں ہم سانحہ راولپنڈی جیسے سانحات سے بچ سکتے ہیں اور اگر اس سانحے کا حشر بھی بولٹن مارکیٹ‘ جوزف کالونی جیسا ہوا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں