بتائیے کیا آپ پورا رستہ برسات میں بھیگنے کے بعد گھر آکر اپنی چھتری کھولتے ہیں ؟
کیا آپ شرٹ پہن کر شاور لے لیتے ہیں ؟
کیا آپ انڈا توڑ کر چھلکے فرائنگ پین میں اور انڈا کچرے کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں؟
اگر آپ یہ سب کچھ کریں گے تو لوگ آپ کو پاگل کہیں گے لیکن میں حکومت کو کیا کہوں جو کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے بعد اب دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتی ہے ۔ جب ڈھائی درجن افراد کو موت اپنے ساتھ لے گئی، جب دہشت گرد ایک بڑا حملہ کر گئے ،تب آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا کیا مطلب ؟
کیا کر رہا تھا یہ آہنی ہاتھ؟جب دہشت گرد وں نے 11مئی کو مینڈیٹ پانے والی جماعت کو بارہ مئی کے روز کوئٹہ میں آئی جی پولیس کے قافلے پر خودکش حملہ کرکے آٹھ لاشوں کا تحفہ دیا ۔یہ آہنی ہاتھ کہاں تھا ؟جب اسی کوئٹہ میں طالبات کی بس پر حملہ ہوا اور چند منٹ بعد بولان میڈیکل کمپلیکس لہو رنگ ہوگیا اور چھبیس زندگیوں سے جینے کا حق چھین لیا گیا ۔مردان زرغون کلے میں حملہ ہوا اور چونتیس افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے ۔ موجودہ حکومت کے ایک سال اور چند دنوں میں صرف خودکش حملوں میں مرنے والوں کی تعداد چار سو ساٹھ سے اوپر ہے ۔ ان کی گنتی الگ ہے جو نصب شدہ بموں کا نشانہ بنے اور جو گولیوں سے بھون دیے گئے ، جو اغوا کے بعد اپنے گھروں کو کفن میں لپٹے پہنچے اور وہ جو پہنچے ہی نہیں ،ان کی تعداد الگ ہے ۔
ایئرپورٹ کسی ملک کا چہرہ ہوتا ہے ۔ جب بیرون ملک سے لوگ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے اس چہرے کو دیکھتے ہیں ۔ اس کا نظم و ضبط ،استقبال کی گرمجوشی اور اس کا سکون یا اضطراب آنے والے کو چہرے کی خوبصورتی یا بدصورتی کا پتہ دیتا ہے ۔ ملک کا پہلا تاثر بیرون ملک سے آنے والے ایئرپورٹ سے لیا کرتے ہیں ۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کرکے ہمارا چہرہ پہلی بار لہولہان نہیں کیا گیا بلکہ 5ستمبر 1986ء کو پین امریکن ورلڈ ایئر ویز کا بوئنگ طیارہ کراچی ایئر پورٹ پر ہائی جیک ہوا ۔ لمبی چوڑی تکلیف دہ تفصیل کے بجائے اتنا جان لیں کہ اس وقت کے آہنی ہاتھ کے سامنے بیس زندگیاں لی گئیں ،ایک سو بیس افراد زخمی ہوئے۔ ہمارا چہرہ اس سے پہلے پشاور میں بھی لہولہان کیا جا چکا ہے ۔ہمیں ہر دور میں ایک آہنی ہاتھ میسر رہا ہے اور ہم ہر دور میں موم کی ناک ثابت ہوئے ہیں ۔
آہنی ہاتھ حقیقتاً کوئی دست آہن نہیں ہوتا بلکہ یہ اس رویے کا نام ہے جو کوئی ظلم برداشت نہیں کر تا۔آہنی ہاتھ کے سامنے تین تین آپشنز نہیں ہوتے ۔مذاکرات ، جنگ یا مذاکرات اور کارروائی ساتھ ساتھ نہیں چلتے ۔
29جون کو جب وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر مذاکرات کا اعلان کیا تو ان کی تقریر کے الفاظ میں یہ ادراک نہیں جھلکا تھا کہ نو دن پہلے آر اے بازار راولپنڈی میں تیرہ جوانوں کا کسی آہنی ہاتھ کے ایک اشارے کا انتظار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ۔کیا کہیں کہ آہنی ہاتھ والی حکومت کا اعلان مذاکرات 29جون کو ہوا اور کراچی میں رینجرز کے تین جوان بھی اسی روز دھماکے میں ہمیشہ کے لیے زندہ ٔجاوید ہوگئے ۔ان کے چوڑے سینے اور توانا کاندھے کسی ایک مرد آہن کی تھپکی کا انتظار کرتے رہے کہ جاؤ کرو پوری وہ قسم جو تم میں لہو بن کر دوڑتی ہے ۔
آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا ۔
اپنی سا لمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے ۔
پاکستان ایک خود مختار ملک ہے ۔
امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے
اور پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ۔
یہ اور اس جیسے کچھ اسباق وہ رٹا ہے جو ہمارے حکمران اقتدار ملنے کے بعد سب سے پہلے مارتے ہیں اور پھر اسے دہراتے رہتے ہیں ،لیکن منزل ایسے سبق یاد کرنے سے نہیں ملا کرتی ۔منزل سبق سکھانے سے ملا کرتی ہے ۔ منزل آگے بڑھنے سے ملا کرتی ہے ۔ منزل ہچکچاہٹ اور تین تین آپشنز سے کیسے ملے گی؟ میر کارواں کے لیے رخت سفر کیا ہے ،یہ نسخہ ہمیں عطا ہو چکا ۔ مصلحت افراد کے معاملات میں ہواکرتی ہے ،اقوام کے معاملات میں نہیں ۔
ہار کو ہرانے کارویہ ، کشتیوں کو جلانے کا رویہ ۔ یہ رویہ مجھے آج مسلم لیگ نون کی حکومت میںپاکستان کے لیے نظر نہیں آتا مگر مسلم لیگ نون میں حکومت کے لیے نظر آیاتھا ۔ 30اکتوبر 2011ء کو عمران خان نے لاہور میں ایک ایسا جلسہ کیا کہ چشم فلک دنگ رہ گئی ۔ اس جلسے میں ایسا جاہ و جلال تھا کہ تخت لاہور کی چولیں ہل گئیں۔ عمران خان سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیوں کا مرکزومحور بن گئے ۔ انہوں نے اعلان کردیا کہ نون لیگ کا لاہور لٹنے کو ہے ۔ عمران خان کے جلسے میں نوجوانوں کا ایک سمندر تھا جس کے سامنے سب کچھ بہہ جانے کے آثار مکمل تھے ۔پیپلز پارٹی کی نا اہل حکومت کے سامنے نون لیگ کا انتخابات جیتنا طے تھا مگر درمیان میں عمران خان ایک بہت بلند دیوار کی صورت آکھڑے ہوئے ۔ یہ ان کا خطرہ تھا جس نے نون لیگ کو کھڑا کیا بلکہ دوڑایا ۔ ریکارڈ مدت میں میٹرو بنی ۔ نوجوان نون لیگ کا فوکس ہوگئے اور لیپ ٹاپ اسکیم ٹاپ پر آگئی ۔ ایک کے جواب میں چار چار جلسے کیے گیے ۔ جلسوں میں وہی رنگ نظر آیا جو تحریک انصاف نے سکھایا تھا۔ ایک محاذ میاں نواز شریف نے سنبھالا ۔ ایک جانب شہباز شریف 'میں نہیں مانتا ‘سرا ہوئے اور دو محاذوں پر جنگ لڑنے کو حمزہ شہباز اور مریم نواز کو اتارا گیا ۔ کچھ شہباز شریف کی محنت اور کچھ نگران حکومت کی حکمت ۔ نون لیگ اقتدار میں آگئی ۔ لیکن آج ضرورت ہے کہ کاش کوئی حکمرانوں کو یہ بتادے کہ ان حالات میں خطرہ ایئرپورٹس ، عسکری دفاتر ، اسپتالوں اور عمارتوں کو نہیں،ریاست کو ہے اور یہ بھی بتادے کہ اگر ریاست کو خطرہ ہے تو یہ خطرہ اقتدار کو بھی ہے ۔