مشکل آسان کیجیے!

پہلے فیض کی نظم '' کتے ‘‘ اپنے ذہنوں میں تازہ کیجیے 
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے 
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی 
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا 
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو‘ نہ راحت سویرے 
غلاظت میں گھر‘ نالیوں میں بسیرے 
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو 
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو 
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے 
یہ فاقوں سے اکتا کے مرجانے والے 
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے 
تو انسان سب سرکشی بھول جائے 
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں 
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبالیں 
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے 
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے 
اب ایک کہانی سنیے: 
ایک بڑے شہر میں ایک سگنل سے ایک امیر آدمی روزانہ گزرتا تھا ۔اس کی شاندار کار سگنل پر رکتی تو آس پاس موجود 
بھکاری فورا لپکتے اور اس سے بھیک مانگتے ۔ کبھی وہ کسی کی ہتھیلی پر بڑا تو کبھی چھوٹا نوٹ رکھ دیتا کبھی بتاتا کہ اس کے پاس چینج نہیں اور کبھی بتانا بھی گوارا نہ کرتا اور کچھ بھی دیے بنا چلا جاتا ۔ بھکاری کچھ ملنے پر دعائیں دیتے اور نہ ملنے پر خاموشی سے واپس ہوجاتے ۔ امیر آدمی کو وہ تمام بھکاری بہت برے لگتے تھے ۔ گندے ، مانگنے والے ، بے شرم اور بے غیرت وہ نام تھے جو امیر آدمی اپنے دل میں ان بھکاریوں کودیا کرتا تھا۔ عام سی زندگی کے ان تمام مناظر کو آس پاس موجود دکاندار اور دیگر گاڑیوں میں سوار افراد عام سے انداز میں دیکھتے تھے اور یہ جا وہ جا ۔ دکاندار بھی اپنے معمول میں مشغول رہتے تھے ۔
ایک دن کیا ہوا کہ امیر آدمی اپنے معمول کے مطابق سگنل پر آیا ۔ اس کے ساتھ اس کا نا جائز بیٹا بھی گاڑی میں سوار تھا ۔ سگنل پر اس کی گاڑی رکی ۔ بھکاری لپکے اور لگے مانگنے ۔ کسی نے دعائیں دیں ۔ موجودہ گاڑی سے اور بڑی اور شاندارگاڑی کی دعائیں ، مزید مال و دولت کی دعائیں ، زندگی میں خوشیوں کی دعائیں ، اولاد کے جینے کی دعائیں ۔ کسی نے اپنی مجبوریاں بتائیں ۔ ماں کی بیماری ، اپنی بیماری ، بچوں کی بھوک ، بہن کادکھ وغیرہ۔ امیر آدمی اپنے اُس بیٹے کے ساتھ بیٹھا اس تمام کارروائی پر توجہ دیے بغیر ٹھنڈی گاڑی میں میوزک انجوائے کررہا تھا ۔ سگنل کھلا۔ گاڑیوں نے حرکت کرنا شروع کی مگر بالکل سامنے موجود ایک بھکاری کی معذوری کے باعث امیر آدمی کی گاڑی حرکت نہ کرسکی اور سگنل بند ہوگیا۔ امیر آدمی سگنل لائٹ کے سبز رہتے اور پھر چند سیکنڈز کے لیے پیلی بتی پر جھلاہٹ کے ساتھ ہارن پر اپنا غصہ اتارتا رہا اور بھکاری کو اس نے کئی گالیاں بھی دیں۔ وہ نہ ہٹا اور سگنل کی بتی سرخ ہوگئی۔ امیر آدمی ہارن پر چڑھ گیا اور اس کا یہ بیٹا گاڑی سے اترگیا۔ اس نے بھکاری کو لات مار کر نیچے گرادیا پھر اس نے اس پر اپنے نوکیلے جوتے سے ٹھوکروں کی بارش کردی، 
اس کے منہ سے گالیوں کی برسات ہورہی تھی اور اس کا جوتا بھکاری کو لہولہان کررہا تھا ۔ وہ بری طرح زخمی ہوگیا ۔ درد سے کراہنے لگا ، بین کرنے لگا اور اس نے امیر آدمی کے بیٹے سے فریاد بھی کرنا شروع کردی ۔ اس دوران کچھ لوگوں نے اپنی گاڑیوں کے شیشے نیچے کرکے '' ارے یار جانے دو ، او بھائی رہنے دو‘ ان کے منہ مت لگو ‘‘ ٹائپ کی باتیں کیں ۔ ایک آدھ شخص نے بے دلی سے کچھ قریب آکر امیر آدمی کے بیٹے کو روکنے کی کچی پکی سی کوشش کی اور بہت سوں نے اس منظر کو دیکھ کر مزہ لیا ۔ان مزہ لینے والوں میں کچھ ساتھی بھکاری بھی تھے اور آس پاس موجود دکاندار بھی ۔ ایک آدھ شخص ایسا بھی تھا جس نے اس منظر کو اپنے موبائل فون سے شوٹ کیا ۔ ایک دو بھکاریوں نے انتہائی ہمت کی بھی تو یہ کہ گاڑی کے کسی حد تک نزدیک جاکر امیر آدمی سے التجا کی کہ وہ اپنے بیٹے کو روکے مگر امیر آدمی مکمل رعونت اور کروفر کے ساتھ بیٹھا رہا ۔ جب بیٹا بھکاری کو مار مار کر تھک گیا تو اس نے اسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا ، دھکا دے کر کچھ دور گاڑی کے رستے سے الگ گرایا ، ایک قدم آگے بڑھ کر اس کے اوپر تھوکا ، واپس گاڑی میں آکر بیٹھا۔ گاڑی روانہ ہوگئی اور زندگی رواں دواں ہوگئی ۔
بھکاری اس رات مل بیٹھے اور سوچنا شروع کیا کہ اب ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے ۔
ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہم کیسے اس ذلت کا بدلہ لیں ۔ بھکاری اس میٹنگ میں بہت غصے میں تھے۔ انہوں نے یہ سوچا کہ اگلے پچھلے تمام حساب چکتا کریں گے۔ ایسی کی تیسی۔ امیر آدمی اور اس کی ناجائز اولاد کی ۔ اس تمام غیظ و غضب کے عالم میں ایک بھکاری نے صلاح دی کہ پہلے ایک متفقہ حکمت عملی ترتیب دی جائے اور اس پر سب کو جمع کیا جائے ۔ لیکن باوجود تما م کوشش کے بھکاری ایک نقطے پر نہ پہنچ سکے‘ ایک متفقہ حکمت عملی ترتیب نہ دے سکے ۔ وہ اس بات پر بھی اتفاق نہ کرسکے کہ آنے والے دنوں میں دیگر بھیک دینے والوں کو اپنی کہانی اس ظلم پر کن الفاظ میں سنانی ہے۔ بڑے بھکاری ، چھوٹے بھکاری اور بھکاریوں کا ٹھیکیدار کوئی بھی باقیوں کو آمادہ نہ کرسکا۔ بہت دیر بیٹھنے کے بعد وہ سب اٹھ گئے اور مضروب بھکاری کراہتا رہا ۔ اگلا دن نکلا اور زندگی ویسی ہی رہی بھکاریوں نے اس سگنل پر ایک بار پھر اس امیر آدمی سے بھی بھیک مانگی اور ایک آدھ کو بھیک مل بھی گئی۔ کہانی یہاں مکمل ہوئی ۔
اب میری مشکل آسان کیجیے ۔ مجھ سے غیرت ، حمیت اور اتحاد بین المسلمین پر لیکچر دیا نہیں جارہا ۔ اس لیے آپ فیض کی نظم میں روٹی کا ٹکڑا ڈالنے والوں اور کہانی میں امیر آدمی کی جگہ امریکہ کو اور ناجائز اولاد کی جگہ اسرائیل کو رکھیے ، تماشہ دیکھنے والوں کی جگہ اقوام عالم کو ڈالیے ، سگنل کو غزہ کا نام دیجیے اور مسلم ممالک کی تنظیموں کو کہاں فٹ کرنا ہے یہ آپ پر چھوڑا۔ اگر کر پائیں تو ٹھیک ورنہ پوگو دیکھیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں