حق نواز کیوں جان سے گیا؟

حق نواز کیوں جان سے گیا ؟ اس پر بہت لکھا جارہا ہے۔ بہت کہا جارہا ہے ۔ ایک گتھی ہے جسے سلجھانے کی کوشش ہورہی ہے اور الجھانے کی بھی۔ اسے سلجھانا چاہتے ہیں تو یہ ذہن میں رکھیے کہ حق نواز الیکشن میں دھاندلی پر احتجاج کررہا تھا ۔حق نواز کے قائد کہتے ہیں کہ الیکشن 2013ء پر بد ترین ڈاکہ ڈالا گیا اور وہ اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ انہوں نے شہر شہر احتجاج کیا۔ جلسوں اور دھرنوں کی شکل میں احتجاج کیا۔ آزادی مارچ کیا۔ الیکشن کمیشن کے سامنے ہفتہ وار احتجاج کیا ۔مختلف شہروں میں ـ ''جزوقتی‘‘ دھرنے بھی دیے۔ یہ احتجاج ان کا جمہوری حق ہے جسے وہ بھرپور طریقے سے استعمال کررہے ہیں ۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کی راہ میں روڑے اٹکائے ۔ یہ تمام باتیں ٹھیک‘ لیکن ان تمام ٹھیک باتوں سے بہت پہلے بہت کچھ بہت غلط بھی ہوا‘ اس پر سب نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی ۔ الیکشن2013ء پر ڈاکہ ڈالا گیا بہت بڑا ڈاکہ ڈالا گیا لیکن یہ ڈاکہ جتنا بڑا حق نواز کے قائد کی جماعت پر ڈالا گیا اس سے کہیں بڑا دیگر اور کہیں بڑی جماعتوں پر بھی پڑا۔ الیکشن 2013ء میں بلاشبہ بہت بڑی دھاندلی ہوئی 
لیکن یہ دھاندلی انتخابات کے دن نہیں ہوئی یہ دھاندلی انتخابات سے پہلے شروع ہوگئی تھی۔ یہ دھاندلی صرف پینتیس پنکچر تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ دھاندلی ملک بھر میں پوری دھونس کے ساتھ ہوئی۔ علی الاعلان ہوئی اور کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا ۔ دھاندلی کرنے والوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ دھاندلی کریں گے اور اس کے بعد انہوں نے اس اعلان پر عمل کیا۔ ریاستی مشینری نے، سسٹم نے، افراد نے ، جماعتوں نے ، نگران حکومتوں نے اپنے مفلوج ہونے کا عین وقت پر اعلان کردیا۔ 
الیکشن 2013ء کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد اس وقت کے ترجمان طالبان نے میڈیا کے لیے جاری کردہ اپنے پیغام میں پاکستان کے عوام کو مخاطب کرکے بتادیا کہ وہ خاص طور پر تین جماعتوں کے جلسوں، جلوسوں سمیت کسی بھی انتخابی سرگرمی میں حصہ نہ لیں۔ ان جماعتوں کو ہم عام طور پرماڈرن ، لبرل ، یا بائیں بازو کی جماعت کہتے ہیں مگر طالبان ترجمان نے اپنے فرمودات میں ان 
جماعتوں کو لادین قرار دیتے ہوئے اعلان کردیا کہ وہ ان کی انتخابی مہم کو نشانہ بنائیں گے ۔ کس کو یاد نہیں کہ دائیں بازو کی جماعتوں کی گارنٹی بھی مانگی گئی اور تین جماعتوں کا اس سلسلے میں اعلان بھی کردیا گیا ۔ اس میڈیا پیغام کے بعد الیکشن میں بے مثال دھاندلی ہوئی۔ کراچی میں نصرت بھٹو کالونی سے عزیز آباد تک ، اورنگی سے لے کر برنس روڈ تک متحدہ کے انتخابی دفاتر کو خون میں نہلایا گیا۔ متحدہ کے دس سے زائد کارکن شہید ہوئے ۔ پیپلز پارٹی بھی ایسے ہی حملوں کا نشانہ بنی۔ اے این پی بھی محفوظ نہیں رہی ۔ان جماعتوں کے کارکنان نے اپنے لہو کا خراج دیا مگر انتخابی مہم کے دروازے ان پر بند ہوگئے ۔ پی ٹی آئی ، مسلم لیگ نون اور جماعت اسلامی سمیت کچھ اور جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم چلائی اور بھرپور چلائی ۔ پی ٹی آئی نے جلسوں کی بھرمار کردی۔ یہی حال مسلم لیگ نون کا تھا۔ دیگر جماعتیں بھی اپنی اوقات کے مطابق کام کررہی تھیں لیکن پاکستان کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی ۔پاکستان کی تیسری بڑی جماعت نے اپریل کا اختتام اور مئی خوں آلود دیکھا ۔ نصرت بھٹو کالونی سے دستگیر تک پانچ ساڑھے پانچ کلو میٹر کا علاقہ دھماکوں سے گونجتا رہا اور اس بربریت کو پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے جدید شہر میں روکنے والا کوئی نہیں تھا ۔ اے این پی نے بھی اپنی کونے کھدرے میں ہونے والی انتخابی مہم کو حملوں سے محفوظ نہیں دیکھا ۔ اے این پی نے تو اپنے مرکزی قائد بشیر بلور کو بھی دہشت گرد حملے میں کھودیا۔ یہ جماعتیں پاکستان کی لبرل جماعتیں ہیں۔ ان کی سرگرمیاں بہت بھرپور ہوتی ہیں۔ ان کے جلسوں میں ان کے کارکنوں کا جذبہ ، ان کی شرکت ، ان کے نعرے ، ان کے گیت اور ان کا مست رقص دیدنی ہوتا ہے ۔ اگر آپ اس بات پر بڑے خوش ہیں کہ پی ٹی آئی نے پاکستان میں جلسوں کو ایک نیا رنگ دے دیا ان میں ایک نئی جان ڈال دی اور نون لیگ نے ان کی تقلید کی تو تسلیم، لیکن پھر آپ ایم کیو ایم کے ان جلسوں کا کیا کریں گے جن میں ''مظلوموں کا ساتھی ‘‘سے لے کر ''اس ملک کی بنیاد میں تعمیر میں ہم ہیں‘‘ تک ڈھیروں ترانے گونجتے ہیں۔ مشاعرے ان کے علاوہ ہیں، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کا ہمیشہ سے حصہ رہے ہیں ۔ اے این پی کی انتخابی سرگرمیاں زندگی سے بھرپور ہوتی ہیں اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ پشتون صرف ضد کا نام ہے ،انہیں غلط ثابت کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی کہیں جھومر اور کہیں لیوا ڈانس سے جلسوں میں جان ڈالتی ہے ۔ ان میں مرد و خواتین یکساں انداز میں شریک ہوتے ہیں ۔ دلاں تیربجا پر ہم نے جیالوں کو ہوش کھوتے دیکھا ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں سندھ میں '' ایسڈ رین ‘‘ ہوئی اور زمین بنجر ہوگئی جبکہ سندھ کے سوا باقی پاکستان میں کچھ جماعتیں انتخابی موسم کے پھل کو کھارہی تھیں ۔ اگر آج انتخابی ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر پی ٹی آئی اپنے کارکن کے قتل پر افسردہ ہے تو میں بھی ہوں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اس سے کہیں زیادہ بڑی ڈکیتیاں کامیاب ہوئیں اور مزاحمت کرنے والے قتل ہوئے اور باقی کہتے رہے آوے ہی آوے ۔ آوے ہی آوے ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں